• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سات مارچ کی شام بڑی سہانی تھی۔ شہر سبزہ و گل کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں معذور بچوں کے لئے ایک تقریب تھی اس تقریب کا انعقاد ایک غیر سرکاری تنظیم ”امید نو“ نے کر رکھا تھا۔ یہ تنظیم اسپین کی حکومت کے تعاون سے پاکستان میں معذور بچوں کے لئے خدمات انجام دیتی ہے۔ ظاہر ہے جو پیسے خرچ کرتا ہے اس کو خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تقریب ایسی ہی تھی اس میں نصف سے زائد غیر ملکی تھے باقی پاکستانی۔ تقریب کا آغاز اسپین اور پاکستان کی محبتوں سے ہوا مگر جیسے جیسے تقریب آگے بڑھتی گئی پاکستانیوں کے سر ندامت سے جھکتے گئے اور جب تقریب کا اختتام ہوا تو جہاں پاکستانیوں کے چہروں پر ندامت تھی، آنکھوں میں آنسو تھے وہاں غیر ملکی بھی پاکستانیوں کو خوشگوار نگاہوں سے نہیں دیکھ رہے تھے۔ اس تمام صورتحال کا ذمہ دار ایک شخص تھا اس شخص نے محبت کے لمحوں کو نفرت سے تبدیل کر دیا۔ جب یہ شخص لاف گراف سے کام لے رہا تھا تو مجھے حضرت علی کا ایک قول بار بار یاد آتا رہا کہ ”زبان کا وزن بہت ہلکا ہوتا ہے مگر بعض لوگوں سے یہ بھی نہیں سنبھالا جاتا“۔
صاحبو! یہ شخص پہلے بھی زہر گھولتا رہاہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جنرل مشرف کے دور اقتدار کے اختتامی مہینوں میں ایک شخص نے چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف ایک زہر آلود چارج شیٹ تیار کی تھی۔ ایک خط بھی ڈرافٹ کیا تھا۔ جس کے جواب میں پوری قوم سڑکوں پر نکل آئی تھی، کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا تھا۔ اسی شخص نے اس تقریب کو زہر آلود بنایا۔ اس چالباز کا نام نعیم بخاری ہے۔ جونہی تقریب شروع ہوئی تو میزبانوں کی بدقسمتی کا سفر شروع ہو گیا۔ اس نے اہل اسپین کا خوب مذاق اڑایا، اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے آپ کی آدھی نسل تبدیل کر دی تھی اس نے اسپین پر سنگ زنی کرتے کرتے پاکستان پر بھی برسنا شروع کر دیا۔ اس نے تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے خلاف جو منہ میں آیا کہہ دیا ، اس نے پاکستان کے کئی سابق حکمرانوں پر حرف زنی کی اور آخر کار بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  کو ہدف تذلیل بنانا شروع کیا۔ جب یہ چاپلوس لطیفے باز بول رہا تھا تو پاکستانی اپنے سر ندامت سے جھکائے بیٹھے تھے۔ جب وہ شخص حد سے تجاوز کرنے لگا تو پھر ایئر مارشل یوسف زئی ایستادہ ہو گئے انہوں نے کہا کہ ”نعیم بخاری! تم پاکستان کی تذلیل کرنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ تمہیں جتنی بھی عزت ملی ہے وہ اس پاک وطن کی وجہ سے ملی ہے۔ تم اس دھرتی پر پیدا ہوئے ہو، تم اس دھرتی کا قرض کس انداز میں لوٹا رہے ہو“۔
تقریب کے اختتام پر جہاں آنکھوں میں ندامت تھی وہاں لبوں پر یہ سوال تھے کہ نعیم بخاری پاکستانی ہے؟ ہم دنیا کے دیگر ممالک کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو عہد کرنا چاہئے کہ ایسی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کریں، ان کی دراز ہوتی ہوئی زبان کو روکیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کی ہر لمحہ مذمت کرنی چاہئے۔اب آتے ہیں پاکستانیوں کے ایک اور رخ کی طرف، بدقسمتی سے بیرون ملک مقیم پاکستانی سفارت کار وطن عزیز سے زیادہ اپنی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کی تمام تر توجہ پاکستان سے زیادہ اپنی ذات پر مرکوز رہتی ہے۔ یہ سفارت کار اپنے پاکستانیوں کے مسائل بھی حل نہیں کر پاتے بلکہ الٹا ان کیلئے خود مسئلہ بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مسئلہ آج کل ڈنمارک میں درپیش ہے۔ جہاں پاکستانیوں نے تنگ آکر ڈنمارک حکومت سے اس بات کی اجازت حاصل کرلی ہے کہ پاکستانی کمیونٹی پاکستانی سفارت خانے کے خلاف مظاہرہ کرے گی۔ یہ مظاہرہ پندرہ مارچ کو سہ پہر تین بجے ہو گا یہ بھی انوکھا مظاہرہ ہو گا کہ ایک ملک کے شہری اپنے ہی سفارت خانے کے خلاف سراپا احتجاج نظر آئیں گے۔ پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو سوچنا چاہئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اس سے پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہو گا۔ ویسے حنا ربانی کھر کو مبارک ہو کہ انہوں نے فیشن کے حوالے سے پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔
ویسے تو الیکشن نہیں ہوں گے مگر پھر بھی پاکستانی الیکشن کے حوالے سے چند باتیں درج کر دیتا ہوں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے بنایا گیا نامزدگی فارم سیاستدانوں کے گلے کا پھندا بنا ہوا ہے۔ اس پر پھڈا ہو گا۔ ایک اور پھڈا ہونے والا ہے۔ نگراں وزیر اعظم کا فیصلہ راجہ پرویز اشرف اور چوہدری نثار علی خان نہیں کر پائیں گے۔ یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا، وہاں ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد اس معاملے کی اگلی منزل الیکشن کمیشن ہو گی جہاں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے بس وہیں پھڈا ہو گا، اس مرحلے پر ایمرجنسی بھی لگ سکتی ہے۔ ہنگامہ آرائی بھی شروع ہو سکتی ہے۔ ان مراحل میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کے لئے چند سیاسی رہنما بیرون ملک سے پاکستان آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سب سے اہم واپسی پرویز مشرف کی ہے جن کی خاطر سعودی عرب کو میدان میں کودنا پڑا ہے۔ اب جب پرویز مشرف پاکستان آئیں گے تو نواز شریف کی جانب سے انگلیاں نہیں اٹھائی جائیں گی۔ عدالتوں سے بھی پرویز مشرف کے مقدمات رفتہ رفتہ ختم ہو جائیں گے۔ عین اس وقت جب الیکشن کا اعلان ہونے والا ہے پاکستان نے دو اہم معاہدے کئے ہیں ایک گوادر پورٹ اور دوسرا گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہے۔ پہلے معاہدے پر متحدہ عرب امارات اور دوسرے معاہدے پر امریکہ سیخ پا ہے۔ کچھ بیرونی طاقتوں کی ناراضی بھی الیکشن پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔اگرچہ تازہ سروے نے پیپلز پارٹی کو آگے کر دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف اس وقت بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ عمران خان نے پشاور میں ایک بڑا جلسہ کر کے بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے،23 مارچ کو وہ لاہور میں اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔ ن لیگ کو دو کام بہت مہنگے پڑیں گے ایک کالعدم تنظیم سے محبت کے صلے میں ن لیگ ایک خاص مسلک کے ووٹوں سے محروم ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس مسلک کے لوگ قومی اسمبلی کے ہر حلقے میں آٹھ سے دس ہزار ووٹوں کے حامل ہیں۔ ن لیگ نے دوسرا کام بھی اپنے خلاف کر لیا ہے۔
گوجرہ ، سانگلہ ہل اور بادامی باغ لاہور کے واقعات نے عیسائیوں کو ن لیگ سے دور کر دیا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ عیسائی آبادی کی اکثریت سینٹرل پنجاب میں ہے جہاں آباد عیسائی ووٹرز بہت اثر انداز ہوں گے۔ دو طبقوں کی ناراضی کے باعث ن لیگ قومی اسمبلی کے ہر حلقے سے تقریباً بیس ہزار ووٹوں سے محروم ہو گئی ہے۔ اس کا فائدہ سراسر تحریک انصاف کو ہو گا۔تحریک انصاف کی جیت میں سات مختلف وجوہات اہم کردار ادا کریں گی۔ ساڑھے چار کروڑ نوجوانوں کا ووٹ عمران خان کی جھولی میں ہے، نوجوانوں کی اکثریت نہ تو پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے اور نہ یہ ن لیگ کے ساتھ۔ عورتوں کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے، عورتوں میں تحریک انصاف مقبول ترین ہے۔ پیپلز پارٹی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سبب دوسرے نمبر پر ہے۔ درمیانی عمر کے وہ لوگ جو پرانی پارٹیوں کے چہرے دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں اور تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ بھی تحریک انصاف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ خیال ہے کہ عمران خان، طاہر القادری سے اتحاد کریں گے اس طرح تحریک انصاف کو ہر حلقے سے قریباً پانچ ہزار ووٹ مل جائے گا۔23 مارچ کے جلسے میں وحدت المسلمین کے رہنماؤں کے خطاب کے بعد آٹھ سے دس ہزار ووٹ ہر حلقے سے تحریک انصاف کے حصے میں آئے گا۔ اسی طرح عیسائی ووٹ پی ٹی آئی کا مقدر بنے گا یوں بائیسں سے پچیس ہزار ووٹ ہر حلقے میں تحریک انصاف کو مل جائے گا۔ وہ جو تین کروڑ72 لاکھ جعلی ووٹ ضائع کیا گیا ہے اس کا فائدہ بھی تحریک انصاف کو ملے گا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں تحریک انصاف مقبول ترین جماعت ہے۔ وہ لوگ جو اپنے پیاروں کو زرمبادلہ بھیجتے ہیں وہ یقینا اثر انداز ہوں گے۔ ایسے پاکستانی جنہوں نے تحریک انصاف کی پالیسیوں کو بغور پڑھا ہے وہ تبدیلی کی خواہش میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ وہ لوگ جو پاکستان کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ تحریک انصاف کے الٹرا پارٹی الیکشن نے اسے جمہوریت پسندوں میں بھی مقبول بنا دیا ہے۔ الیکشن مہم میں عمران خان کو مخدوم جاوید ہاشمی، ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید احمد جیسے چوٹی کے مقررین کا ساتھ بھی میسر ہوگا اور پھر الیکشن کمیشن کی تیز تلوار موجودہ پارلیمینٹ کے اراکین کی اکثریت پر چلے گی اس کا فائدہ بھی تحریک انصاف ہی کو ہو گا۔ اب پاکستانی ووٹ کے ذریعے پاکستان کو بدل دیں گے
تازہ ترین