• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر خزانہ نے گزشتہ ہفتے دانستہ طور پر یہ غلط بیانی کی کہ اگر پارلیمینٹ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم منظور کرلے تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ وزیر خزانہ خود بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ موجودہ اقتصادی پالیسیوں کے تناظر میں پاکستان 2013ء میں آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرے گا وگرنہ واجب الادا بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگی ہوہی نہیں سکے گی ۔ پاکستان کو بجٹ خسارے کے بڑھتے ہوئے حجم اور ادائیگیوں کے منفی توازن جیسے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ بجٹ خسارے یعنی آمدنی اور اخراجات کے فرق کوپورا کرنے کے لئے حکومت ملکی کرنسی میں داخلی قرضے حاصل کرسکتی ہے اور بڑے پیمانے پر نوٹ بھی چھاپ سکتی ہے مگر بیرونی شعبے کے واجبات کی ادائیگی کے لئے بیرونی قرضوں اور امداد پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک ملکی کرنسی میں نوٹ چھاپ سکتی ہے مگر ڈالر نہیں۔ آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے سے بچنے کا واحد طریقہ موجودہ حالات میں صرف یہ ہے کہ پارلیمینٹ قانون سازی کرے جس کے تحت ممبران پارلیمینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران سمیت سول وملٹری بیوروکریسی کو پابند کیا جائے کہ وہ چند ہفتوں کے اندر اپنے اور اپنے زیر کفالت افراد کے بیرونی ملکوں میں رکھے ہوئے کھاتے پاکستان میں بینکوں میں منتقل کرالیں۔ اسی طرح بے تحاشہ داخلی قرضے لیتے چلے جانے سے بچنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ ایک مقررہ آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر انکم ٹیکس نافذ اور وصول کیا جائے اور ان رقوم کو دیانتداری سے استعمال کیا جائے۔ یہ ملک وقوم کی بدقسمتی ہے کہ پارلیمینٹ اس ضمن میں قانون سازی کرنے کے لئے تیار ہی نہیں کیونکہ اس سے طاقتور طبقوں بشمول ٹیکس چوری کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے ۔ حکومت کی پالیسی یہ نظر آتی ہے کہ موجودہ مالی سال میں ٹیکسوں کی بڑے پیمانے پر چوری ہونے دی جائے اور اس کے نقصانات نام نہاد ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے حاصل ہونے والی رقوم سے پورے کئے جائیں اور2013ء میں آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لیا جائے۔ حکومت پاکستان نے امریکی ایجنڈے کے تحت نومبر2008ء میں آئی ایم ایف سے پاکستان کی تاریخ کاسب سے بڑا قرضہ حاصل کرنے کے لئے قوم سے متعدد غلط بیانیاں اور دروغ گوئیاں کی تھیں۔ 20نومبر2008ء کی دستاویز کے مطابق آئی ایم ایف کے قرضوں سے معیشت میں بہتری لاکر جو اہداف حاصل کئے جانے تھے ان کی صورتحال یہ رہی:۔
2009-10(1)ء تک بجٹ خسارے کو کم کرکے3.3فیصد اور 2012-13ء تک 2.5فیصد کیا جانا تھا۔ تعلیم ، صحت اور ترقیاتی اخراجات میں زبردست کمی اور بجلی، گیس اور پیڑولیم کی مصنوعات کے نرخوں میں زبردست اضافے کے باوجود2011-12ء میں یہ خسارہ 8.5فیصد رہا جبکہ 2012-13ء میں یہ7فیصد رہ سکتا ہے ۔
2009-10(2)ء میں معیشت کی شرح نمو5فیصد رہے گی اور اس کے بعد بڑھتی ہی چلی جائے گی یعنی توقع تھی کہ2011-12ء میں شرح نمو تقریباً6فیصد رہے گی مگر یہ شرح صرف 3.7فیصد رہی۔(3)مارچ2009ء تک گردشی قرضوں کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ چار برس بعد مارچ2013ء میں ان قرضوں کا حجم کئی سوارب روپے ہے۔
(4)مجموعی ملکی پیداوار اور ٹیکسوں کی وصولی کے تناسب میں ہر سال 0.6فیصد اضافہ کیاجائے گا۔ 2007-8ء میں تناسب10.6فیصد تھا مگر یہ تناسب بڑھنے کے بجائے گرگیا ۔
2008-09 (5)ء اور2011-12ء کے چار برسوں میں بجٹ خسارہ مجموعی طور سے2955/ارب روپے رہا جبکہ تخمینہ1535/ارب روپے تھا ۔
2007-08(6)ء میں ملک پر قرضوں و ذمہ داریوں کا مجموعی حجم 6691/ارب روپے تھا لیکن اب ان قرضوں کا حجم15000/ارب روپے سے زائد ہوچکا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ نومبر2008ء میں منظور کیا جانے والا پروگرام پاکستان کی تاریخ کاسب سے بڑا اور سب سے ناکام پروگرام ثابت ہوا ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی امریکی جنگ اب ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے اور اس میں امریکی نقطہ نظر سے پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہوگا چنانچہ اس مدت میں وہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام کے اندر رکھنا چاہتا ہے۔ موجودہ حکومت نے دانستہ معیشت کوخراب ہونے دیا تاکہ امریکی ایجنڈے کے تحت آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کاجواز پیدا ہوسکے ۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ2013ء میں اس قرضے کی شرائط کے تحت روپے کی قدر گرائی جائے گی ۔ بجلی اور پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیاجائے گا اور جنرل سیلز ٹیکس کادائرہ وسیع کیا جائے گا ۔ اس طرح غریب عوام کومزید نچوڑا جائے گا جبکہ ٹیکس چوری کرنے والے اور قومی دولت لوٹنے والے بدستور مزے اڑاتے رہیں گے ۔ یہی نہیں، آنے والے برسوں میں بھی معیشت کی شرح نمو خطے کے ملکوں کے مقابلے میں سست رہے گی ۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے ملک میں کرپشن اور ٹیکس چوری کی حوصلہ افزائی ہوگی اور معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ موجودہ مالی سال میں ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 2381/ارب روپے رکھا گیا تھا۔ ناقابل قبول اور شرمناک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے اجرأ کے باوجود یہ ہدف حاصل نہیں ہو گا ۔ وفاقی ٹیکس محتسب نے اس اسکیم کو بددیانتی کا کھلا لائسنس قرار دیتے ہوئے بالکل صحیح کہا ہے کہ اگر 50بڑے ٹیکس چوروں کا پیچھا کرلیں تو بقیہ خودبخود ٹیکس نیٹ میں آجائیں گے ۔ بدقسمتی سے حکمران، سیاستدان ، ممبران پارلیمینٹ ، مذہبی ودینی جماعتیں ، علماء اور تبدیلی کانعرہ لگانے والی سیاسی قوتیں، وکلاء برادری اور سول سوسائٹی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے خلاف سخت موقف نہیں اپنا رہے کیونکہ اس اسکیم سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں میں وہ خود یاان کے حمایتی شامل ہوسکتے ہیں ۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ٹیکس چوری کرنے والے ( بشمول قومی دولت لوٹنے والے) جو افراد اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے ان کے نام ایگزٹ کنڑول لسٹ میں ڈالے جاسکتے ہیں، ان کے پاسپورٹ اور قومی شناختی کارڈ منسوخ اور بینکوں کے کھاتے منجمد کئے جاسکتے ہیں ۔ یہ بیان ناقابل فہم ہے کیونکہ جب حکومت کے پاس ٹیکس چوری کرنے والے 38لاکھ افراد کے کوائف موجود ہیں تو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کااجراء کرنے کے بجائے حکومت ان افراد سے مروجہ قوانین کے تحت انکم ٹیکس وصول کرنے سے کیوں گریزاں ہے ۔ اس اسکیم کے اجراء سے جوکہ دراصل مالیاتی این آراو ہے قومی خزانے کوتقریباً دوہزار ارب روپے کی آمدنی سے محروم ہونا پڑے گا۔ اگر دسمبر2009ء میں این آر او کو کالعدم قرار دیئے جانے کے فیصلے کے بعد اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا تو وطن عزیز میں این آر او سیٹ اپ برقرار رہ ہی نہیں سکتا تھا اور نہ ہی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء ممکن ہوتا۔ اگر سپریم کورٹ اس مالیاتی این آر او کا نوٹس لے تو معیشت کو پہنچائے جانے والے زبردست نقصان سے بچا جاسکتا ہے ۔
تازہ ترین