• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جن کے پاس چاندی کے بنگلے تھے آج سونے کے محلات ہیں۔ ستم یہ کہ ان محلات کی تعمیر کیلئے انہوں نے غریب کی کٹیا بھی گرادی ہے۔ جمہوریت کے محافظوں اور حامیوں کا ایران کے شہنشاہ، مصر کے شاہ فاروق اور فلپائن کے صدر مارکوس سے مقابلہ ہے۔ وہ جن کی دیانت پر رینٹل پاور پروجیکٹ گواہ ہے پچھلے ماہ کے اوائل لندن دورے پر گئے۔خبر آئی کہ لندن کا دورہ اس لئے رکھا ہے کہ وہ برطانوی دارالحکومت کے مہنگے ترین علاقےMAYFAIRمیں اپنا فلیٹ معائنہ کر سکیں۔ ایک راجہ پرویز اشرف کا کیا مذکور پورے حکمران طبقے نے زمین پر ایسی بہشت ایجاد کی ہے جس میں عوام کے لہو، ٹیکس دہندگان کے پیسے اور بیرونی سودوں سے حاصل کمیشن کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ لوگوں پر عرصہٴ حیات تنگ کرنے والے سمجھتے ہیں کہ عوام کی ناراضی کے باوجود وہ ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر روٹی،کپڑا اور مکان۔ اس سے کام نہ چلے تو کوئی اور نعرہ،کوئی اور فریب۔ روٹھے ہوؤں کو منانے میں صدر زرداری کی مہارت کمال ہے۔ وہ پہلے ناراض کرتے ہیں پھر منا کر برباد کردیتے ہیں۔ ان دنوں پورے حکمران طبقے کی طرف سے عوام کو منانے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ یہ الیکشن کے روزوشب ہیں۔ جمہوریت کی اندھی وحشی اور منہ زور طاقت ایک بار پھر شہریوں کے درپے ہے۔ وہ جن کے نشانے مستند ہیں۔کمانوں پر تیر چڑھائے لوگوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پورا عرصہٴ اقتدار تو عوام کی طرف رخ نہ کیا آخر وقت عوام کی بہبود اور ملک کے مستقبل کیلئے دوررس فیصلے کئے جارہے ہیں۔ اربوں روپے کے منصوبے اعلان کئے جارہے ہیں۔گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کردی گئی ہے،ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے عزائم کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پنجاب میں ایک لاکھ ملازمین مستقل کئے جارہے ہیں۔میٹرو بس سروس سے آنکھیں خیرہ ہیں۔ تو سندھ میں مستحق تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کاروبار کرنے کیلئے فی کس 3لاکھ روپے فراہم کئے جارہے ہیں۔ سندھ کے23/اضلاع میں120گز کے پلاٹس مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ اس سے قبل دو مرحلوں میں10/ارب50کروڑ بانٹے جاچکے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں حکومت پہلے لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرتی ہے اس کے بعد بڑے بڑے خوشنما منصوبوں کا نمبرآتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کارکردگی دکھانے کا یہ خیال ابتدائی سالوں میں کیوں نہ آیا۔آخری سالوں میں یہ ہنگامہ کیوں؟نزع کے عالم میں تو توبہ بھی قبول نہیں ہوتی لیکن انہیں یقین ہے کہ ان کی توبہ قبول ہو جائے گی، وہ سمجھتے ہیں کہ عوام بہت گہری سوچ نہیں رکھتے۔وہ گھاگ شکاریوں کے جال میں پھنس جائیں گے۔ حکومت صوبائی ہو یا وفاقی اس کی کارکردگی پانچ سوالوں کے جوابات سے جانچی جاسکتی ہے جو صدر رونالڈ ریگن نے امریکی عوام کے سامنے رکھے تھے۔
امریکہ میں الیکشن کے ہنگام صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثہ (debate) بہت اہم سمجھاجاتا ہے۔ بسا اوقات اتنا اہم کہ اسے گریٹ ڈیبیٹ کانام دیا جاتا ہے۔ ووٹرز کی بڑی تعداد ان مباحثوں کو دیکھ کر اپنی رائے کا تعین کرتی ہے۔ 28/اکتوبر1980ء کو الیکشن سے چند دن پہلے صدر کارٹر اور صدارتی امیدوار رونالڈریگن کے درمیان مقابلہ تھا۔ جمی کارٹر نے اپنی کامیابیاں گنوانی شروع کیں۔ انہوں نے لمبے چوڑے دلائل دیئے، معیشت، صحت، تعلیم اور ماحولیات کے حوالے سے ثابت کیا کہ آج امریکی عوام پچھلے برسوں کی نسبت زیادہ خوشحال اور مستحکم ہیں۔ رونالڈ ریگن جواب دینے کیلئے اٹھے تو ان پر بہت دباؤ تھا مگر انہوں نے پانچ فقروں میں کارٹر کی مہینوں کی زوردار انتخابی مہم کا خاتمہ کردیا۔ اگلے دن تمام پول سروے ریگن کے حق میں تھے۔ ریگن نے سامعین کو مخاطب کرکے پانچ سوال پوچھے۔کیا آپ لوگ آج پچھلے چار برسوں کی نسبت زیادہ بہتر محسوس کررہے ہیں؟بازار جاکر خریداری کرتے ہوئے آپ کو رقم کم خرچ کرنی پڑ رہی ہے؟ ملک میں بیروزگاری کم ہوچکی ہے؟ امریکہ کی عزت دنیا میں بڑھ چکی ہے؟ پچھلے چار برسوں کی نسبت آج آپ خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں؟
ان سوالات کے حوالے سے زرداری حکومت کی کارکردگی یقینا صفر ہے۔ ان کے نزدیک عوام کے معاملات کی چنداں اہمیت نہیں ہے۔ اس کا بدترین مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب پورا ملک سیلاب کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور وہ یورپ کے دورے کی دلچسپیوں میں مصروف تھے۔ ان پانچ برسوں میں قوم کی قسمت زرداری حکومت کے ذاتی مفاد کی سولی پر لٹکی رہی۔ حکمرانوں کے ازسرنو تعین کے حوالے سے آنے والے انتخابات کی بہت اہمیت ہے۔ حکومت کی مدت پوری ہونے اور نگراں سیٹ اپ کے قیام سے پہلے ہی نئی نئی صف آرائیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ ایک سیاستدان آج ن لیگ کے ساتھ ہے تو کل پیپلز پارٹی کے ساتھ، خواہ اس کے ویژن اور منشور سے ہم آہنگ ہو یا نا ہو۔ ہر حلقہٴ انتخاب میں ایسے افراد ڈھونڈے جارہے ہیں جو جیت سکیں، پیسے کی سیاست زوروں پر ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین سمندر کو لوٹے میں بند کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ایک نئی سیاسی بدعت ہے۔ یہ سب کچھ کیا جارہا ہے قوم کے بہترین مفاد میں۔ غالب گمان یہ ہے کہ آئندہ حکومت بھی مخلوط ہوگی۔عدم اعتماد کے ووٹ کے خوف سے حکمران جماعت کی توجہ عوام کے بجائے اراکین اسمبلی کی اکثریت کو خوش رکھنے پر مرکوز رہے گی۔کبھی ترقیاتی بجٹ،کبھی وزیروں مشیروں کی فوج میں شامل کرکے اراکین اسمبلی کو نوازا جائے گا۔ حکومت عدم استحکام اور سیاسی بحران کا شکار رہے گی۔ لسانی اور علاقائی جماعتیں اپنے چند اراکین کے ذریعے پریشرگروپوں کی صورت حکومت کو بلیک میل کرتی رہیں گی۔ سو اگلے الیکشن ہونے جارہے ہیں مگر کس کیلئے؟ عوام کیلئے تو ہرگز نہیں۔ یہ لینے اور دینے کا معاملہ ہے۔تم نے اپنے چاندی کے بنگلے سونے کے محلات میں تبدیل کرلئے اب ہماری باری ہے۔
تازہ ترین