• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راجہ محمد عبدالقیوم مسعود خالق کیانی ،یہ ایک ہی شخص کے نام کے اجزائے ترکیبی ہیں جنہیں اجزائے توصیفی کے ذیل میں دیکھیں تو اس ایک نام میں موصوف کا حسب نسب، ذات پات اور ولدیت پوشیدہ ہے۔ راجہ صاحب سائنس کی دنیا کا معتبر حوالہ ہیں،ہمارا ان سے نوجوانی کا سابقہ ہے وہ 1980ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں حکومت پاکستان کے محکمہ اٹامک انرجی کمیشن کی طرف سے سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک سے گئے تھے پھر لوٹ کر نہیں آئے اور یہی ہمارے وطن کا المیہ ہے، ہماری نوجوان ذہانتیں یورپ اور امریکہ کی لیبارٹریوں میں غیروں کی سیوا کرنے میں لگی رہتی ہیں اور جب چشمے کا نمبر آٹھ تک پہنچتا ہے، کمر خمیدہ ہونے لگتی ہے تو وہ پلٹ آتے ہیں گویا وہ پاکستان جیسے نوجوانوں کا وطن سمجھا جاتا ہے وہ اندر سے بوڑھوں کا دیس بنتا جا رہا ہے اور زمانہ حال میں پاکستان کی ترقی میں بوڑھوں کا وہی کردار ہے جو پاکستان ریلوے میں انجنوں کا ہے۔ آج راجہ عبدالقیوم تین چار عشروں بعد اس لئے یاد آ گیا کہ معروف فلمی اداکارہ آسیہ کا کینیڈا میں انتقال ہو گیا۔آسیہ کے کیریئر کے عروج کا زمانہ بھی وہی ہے جو ہماری جوانی کے عروج کا تھا، راجہ عبدالقیوم کے دو ہی شوق تھے ،آسیہ کی فلمیں دیکھنا اور دوستوں کی راجہ ظفر الحق سے ملاقات کرانا۔ مسلم لیگ (ن) کے موجودہ چیئرمین اور ممتاز مسلم لیگی رہنما راجہ ظفر الحق ان دنوں راولپنڈی ضلع کچہری میں وکالت کیا کرتے تھے یہ وہ دور تھا جب وکیلوں کے چیمبر کو پھٹہ کہا جاتا تھا، آج کل پھٹے کو چیمبر کہتے ہیں۔ راجہ عبدالقیوم ، راجہ ظفر الحق کا کزن ہے وہ ہمیں راجہ ظفر الحق سے ملاقات کرانے کے بعد واپسی پر دو تین بار پوچھا کرتا تھا کہ ”میرا کزن خوبصورت ہے نا، ہم کہا کرتے راجہ صاحب خالی خوبصورت نہیں بلکہ بہت زیادہ خوبصورت ہیں، اس پر وہ ہم سب کو آسیہ کی فلم دکھانے لے جایا کرتا۔ وہ ایک فلم بیسیوں مرتبہ دیکھا کرتا تھا، سینما بدل بدل کے دیکھتا تھا، فلم انڈسٹری کے ذمہ داروں کو خط لکھ کر تاکید کرتا رہتا تھا کہ آسیہ کی فلمیں شہر کے خوبصورت سینما گھروں پر لگایا کرو، بسا اوقات وہ دھمکی آمیز خط بھی لکھ جایا کرتا، آسیہ کی فلموں کا وہ بے ہودگی کی حد تک دیوانہ تھا۔ کئی دفعہ تبلیغی دوروں کے دوران بسترا ریلوے اسٹیشن پر ہی چھوڑ کر وہ شہر کے اس سینما پر پہنچ جایا کرتا جہاں آسیہ کی فلم چل رہی ہوتی تھی، اس زمانے میں فلموں کی مشہوری کے لئے چھوٹے شہروں میں ٹانگے پر بیٹھا شخص ”ٹلی“ بجا کر لوگوں کو فلم کے پوسٹر کی طرف متوجہ کیا کرتا تھا اور بڑے شہروں میں ٹیکسی کار کی چھت پر لاؤڈ اسپیکر باندھ کر متعلقہ فلم کے گیت بلند آواز میں چلائے جاتے تھے۔ ایک دفعہ راولپنڈی عیدگاہ کی مسجد میں ہم نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک ٹیکسی کار گزری جس پر بندھے لاؤڈ اسپیکروں سے ایک ایسے گانے کی آواز آئی جو فلم میں آسیہ پر فلمایا گیا تھا، راجہ عبدالقیوم اس لمحے سجدے میں گرا ہوا تھا مگر اس نے اسی حالت میں جسم کو جنبش دے کر آسیہ سے یکجہتی کا اظہار کر ڈالا، سلام کے بعد میں نے اس سے کہا کہ تم نے سجدے کے دوران وہ کیا حرکت کی تھی! تو اس نے کہا کہ عشق حقیقی اور عشق مجازی کے تار باہم مل جائیں تو اس قسم کی کیفیت ہو جایا کرتی ہے۔ سائنس کی زبان میں اس کو ”کولڈ ٹیسٹ“کہتے ہیں۔میں نے کہا لیکن تمہارے ایمان کا تو Fissionہو گیا، راجہ نے کہا ہمارے ایمان کی فکر نہ کرو ،آنے والے دنوں پر نگاہ ڈالو جب آسیہ جیسی فنکارہ اور ہم جیسے دیوانے کہیں دکھائی نہیں دیں گے۔ مجھے راجہ محمد عبدالقیوم مسعود خالق کا وہ جملہ الہامی دکھائی دیتا ہے، ہماری فلم انڈسٹری کو واقعی آج راجہ جیسے فلم بین چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، یہی وجہ ہے کہ سینما گھر شاپنگ مال اور فلم اسٹوڈیو پہلوانوں کے اکھاڑے اور اخباری کاغذ کے گوداموں کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں، پاکستان کی دیگر انڈسٹری کی طرح فلم انڈسٹری کا بھی بھٹہ بیٹھ گیا مگر حالت میری ایک غزل کے مقطع میں بیان کی گئی اس کیفیت جیسی ہے کہ
کہر سی شہرِ وفا پر چھا گئی مرزا مگر
تم ہو ایسے بے خبر جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
تازہ ترین