• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1977ء کے انتخابات میں تاریخی دھاندلی ہوئی، شرمناک جھرلو پھرا اور ساون کے اندھوں کے سوا سب نے پشاور سے کراچی تک ووٹ کا تقدس پامال ہوتے دیکھا تو اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے دکھی دل کے ساتھ ذومعنی جملہ کہا” ہم نے تو انتخابات کی دکان سجاد ی تھی، اس پر ڈاکہ پڑ گیا تو ہمارا کیا قصور ؟“
موجودہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم جب تک جنرل الیکشن کی دکان سجانے میں مصروف رہے ہماری مقبول سیاسی جماعتوں نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے، سب للچائی نظروں سے دکان کو دیکھتے اور ڈکیتی کی تدبیریں سوچتے رہے مگر جس دن سے فخرو بھائی نے ساتھیوں سے مل کر حفاظتی انتظامات پر توجہ دی اور عادی ڈاکوؤں، نقب زنوں اور لیٹروں کو دکان میں داخلے سے روکنے کے انتظامات شروع کئے ہیں۔ ”آزاد“”خود مختار“ ”غیر جانبدار“ الیکشن کمیشن کے قیام کا کریڈٹ لینے والوں کے ہاں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ پہلے حکومتی صفوں میں کھلبلی مچی، سینٹ میں مخالفانہ آوازیں بلند ہوئیں اب ٹی وی ٹاک شوز میں مسلم لیگ (ن) بھی وہی ڈفلی بجانے لگی ہے، اچھے بھلے معقول لوگوں کو انتخابی اصلاحات اور نئے کاغذات نامزدگی سے الیکشن کمیشن کے متنازعہ ہونے کاخدشہ محسوس ہونے لگا ہے۔ فیا للعجب۔
لگتا یوں ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں نے چیف الیکشن کمشنر اور ان کے ساتھیوں سے یہ امیدوابستہ کرلی تھی کہ اپنی نامزدگی کے بدلے میں احسان شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نیک نام ریٹائرڈ جج انتخابی عمل کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لئے سہل اور دھن، دھونس، دھاندلی کے ذریعے انتخاب جیتنے کے قابل بنائیں گے اور سارے قاعدے ضابطے صرف مخالفین کی ناکامی کو یقینی بنانے کے لئے استعمال ہوں گے۔
ہمارے ہاں حکمران اور سیاستدان تقرر اور ترقی میں ذاتی وفاداری اور جوابی احسان بندی کو ترجیح دیتے ہیں ورنہ جیالے جنرل ضیاء الحق اور متوالے جنرل پرویز مشرف کی احسان فراموشی کا رونا نہ روتے کہ دونوں کو منتخب حکمرانوں نے آؤٹ آف ٹرن پروموٹ کیا اور بے انصافی کا نتیجہ بھگتا۔ الیکشن کمیشن کاقیام بھی شائد لین دین کے تجارتی اصول پر ہوا ورنہ الیکشن کمیشن کی آزاد روی اور خودمختاری پر صف ماتم نہ بچھتی۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی اصلاحات اور کاغذات نامزدگی میں تبدیلی پر ڈھنگ کا کوئی اعتراض کسی سیاستدان اور قلمکار کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔ شک وشبہ، وہم اور بدگمانی کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا۔ آئین کے آرٹیکل 218(3) میں واضح ہے ”الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ انتخابات کا بندوبست کرے اور اس امر کو یقینی بنانے کے لئے ضروری اقدامات کرے کہ ازروئے قانون دیانتدارانہ، صاف ستھرے انتخابات منعقد ہوں اور ہر طرح کے ناجائز ہتھکنڈوں کی روک تھام کی جائے۔“
انتخابات کے دیانتدارانہ انعقاد میں ناجائز ہتھکنڈے کیا ہوسکتے ہیں؟ کسی فریب کار، جھوٹے، جرائم پیشہ، ٹیکس چور، قرضہ خور، سزا یافتہ، بدنام، عادی دروغ گو، اور بدنام زمانہ شخص کا عوام اور الیکشن کمیشن سے معلومات چھپا کر انتخابی عمل میں شریک ہونا اور انتخابی عمل کی ساکھ خراب کرنا، ناجائز دولت کا انتخابی مہم میں بے تحاشا استعمال، دوٹروں کی وفاداریاں خریدنا اور دھوکہ دہی سے پارلیمینٹ میں پہنچ کر صاف ستھرے انتخاب کی قلعی کھولنا۔
اگر الیکشن کمیشن کو احساس ہے کہ اس نے کاغذات نامزدگی کی وصولی اور سکروٹنی کے وقت عادی مجرموں کا راستہ نہ روکا، موجودہ اسمبلیوں کی طرح نئی اسمبلیوں کو بھی نکمے،نالائق، فریب کار اور قومی وسائل لوٹ کر ملک کو کنگال اپنے آپ کو خوشحال کرنے والوں سے بھر دیا تو قوم معاف کرے گی نہ آئندہ نسلیں چیف اور ارکان کو اچھے لفظوں سے یاد کریں گی تو اس پر سب کو خوش ہونا چاہیے یا حیلوں بہانوں سے ان آئینی، قانونی اور حالات وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ اقدامات پر تنقید کے نشتربرسانے کی ضرورت ہے؟ معترضین اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ کس طرف کھڑے ہیں۔
فاروق نائیک اوراس قبیل کے دیگر لوگوں کا گزر بسر ہی حیل و حجت اور ہر اچھے کام میں رکاوٹ ڈالنے پر ہے الفاظ چبا کر دور کی کوڑی لانا ان کا وطیرہ ہے ججز بحالی کے خلاف ان کے بودے دلائل ہر ایک کو یاد ہیں اور پھر راتوں رات کسی آئینی ترمیم کے بغیر بحالی بھی بھولنے والی بات نہیں۔ حیرت مگر گزشتہ رات ایک ٹی وی پروگرام میں برادرم احسن اقبال کو یہ کہتے سن کر حیرت ہوئی کہ ”مجھے کاغذات نامزدگی اور بیان حلفی پر کوئی اعتراض نہیں البتہ الیکشن کمیشن کو متنازعہ معاملات میں پڑنا نہیں چاہیے۔“عوامی نمائندگی کے کسی امیدوار سے اس کی تعلیمی قابلیت، ذریعہ آمدن، سابقہ کارگزاری، بیرون ملک دوروں اور ٹیکس ادائیگی کے علاوہ اپنے خلاف درج مقدمات، عمومی شہرت، غیر ملکی شہریت اور مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں کے بارے میں پوچھنا کوئی جرم ہے ؟ آئین اور قانون کی خلاف ورزی؟ جمہوریت کے منافی اقدام؟ کہ الیکشن کمیشن اس پر متنازعہ قرار پائے جس کا دامن صاف ہے اسے بھلا نامزدگی فارم اور بیان حلفی میں تفصیلات درج کرتے ہوئے تکلیف کیوں ہوگی۔ نائب قاصد تک درخواست فارم میں تعلیمی قابلیت درج کرتے ہیں عوامی نمائندے مبرا کیوں؟اگر فارم نامزدگی ایف بی آر، ایف آئی اے اور نیب کے لئے کارآمد ثابت ہوتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم یافتہ، نیک نام احسن اقبال کا بھلا کیا جاتا ہے؟
کم از کم اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہمارے سیاستدان اور ان کے حامی قلمکار عوام کو یہ باور تو نہ کرائیں کہ وہ اگلی اسمبلیوں کو جاہل ڈھور ڈنگروں، عادی مجرموں، بدنام زمانہ افراد اور لوٹوں لٹیروں سے بھر دینا چاہتے ہیں، اسی غرض سے الیکشن کمیشن کے معقول اقدامات کی مخالفت میں پیش پیش ہیں اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی نامزدگی کی قیمت اپنی مرضی کے انتخابی ضابطوں اور من پسند انتخابی عمل کی صورت میں وصول کرنا چاہتے ہیں۔ فخرو بھائی اور ان کے قابل احترام ساتھ اگر انتخابی دکان سجانے سے پہلے حفاظتی انتظامات کر رہے ہیں کہ سجی سجائی دکان میں کوئی سرکاری سانڈ نہ گھس سکے تو اس پر اعتراض کیوں اور شعور و غوغا کس بات کا؟ کریڈٹ کو کریڈٹ ہی رہنے دیں مینگنیاں ڈال کر دودھ کو خراب نہ کریں۔
تازہ ترین