• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حافظ محمد عبدالاعلیٰ درانی۔۔۔بریڈفورڈ
حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہر لحاظ سے کامل و اکمل تھے ۔ جس طرح آپ کا اخلاق باکمال تھا اسی طرح آپ کی تخلیق بھی ہر طرح مکمل تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر تو دنیا میں انوکھی تحریک اصلاح اٹھائی کہ جس کی کوئی مثال موجود نہ تھی ۔ کوئی لیڈر ریفارمر کوئی مصلح آج تک اتنا کامیاب نہیں ہوسکا جس تحریک اسلام کے ایک ایک پہلو سے دنیا میں عدل و انصاف قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ اللہ کی محبت ، واطاعت فرمانبرداری کو عنوان مل گیا ۔ اسی طرح آپ اپنے وجود مقدس میں بھی بے مثال تھے ۔ آپ کے رخ انور اور قد و کاٹھ کے بارے میںصحابہ کرام ؓسے لے کر آج تک اپنوں اور غیروں نے وہ مدح سرائی کی ہے جس کاکوئی اندازہ نہیں ہے ۔خاص طورپرام معبد خزاعیہ نے جو الفاظ حضورکا سراپا بیان کرتے ہوئے بولے محدثین علماء ادب و لغت ان کا ترجمہ کرتے کرتے تھک گئے لیکن الفاظ کاسحر اور تعبیرکی جادوگری انسان کوحیران کردینے کیلئے کافی ہے ۔صحابہ کرام میں سے حضرت براء بن عازب ، حضرت ابوہریرۃ، حضرت علی المرتضی،حضرت سلمان الفارسی ، حضرت قرہ بن ایاس المزنی ، حضرت جابربن سمرہ ، حضرت ابورمشہ ، حضرت بریدہ اسلمی، حضرت عبداللہ بن سرجن ، حضرت عمرو اخطب، حضرت ابو سعید خدری، حضرت سائب بن یزید ،حضرت حسان بن ثابت اور ام المومنین سید ہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق نے سراپا اقدس کو بیان کیا ہے رضی اللہ وارضاہ عنھم اجمعین ۔ محدثین نے آنحضرت اقدس کے حسن کو بیان کرنے کیلئے حدیث کی مستقل کتابیں لکھیں جنہیں شمائل کہا جاتا ہے ۔ حضرت امام ترمذی نے شمائل ، قاضی عیاض نے الشفا بتعریف حقوق المصطفی ، امام ابن قیم الجوزیہ کی زاد المعاد بہت نمایاں اور مشہور ہیں ۔غیر مسلموں میں ہری چند اختر ، لال کنہیاجیسے شاعروں نے بھی والہانہ انداز میں خاتم النبین کو خراج تحسین پیش کیا۔ شیخ سعدی نے لایمکن الثناء کما کان حقہ ۔بعدازخدا توئی قصہ مختصر ، ہندوستان کے مردقلندر غالب نے تو ایک ہی شعر میں کمال کردیا’’غالب ثنائے خواجہ را بہ یزداں گزاشتیم…کہ آں ذات پاک مرتبہ دان محمد است ۔حضرت مولانا احمد رضا نے تو عقیدت کے ساتھ منقبت و مدحت مصطفوی کے دریابہا دیے ۔ حضرت پیر مہر علی شاہ کی معروف نعت’’اج سک متراں دی ودہیری ایہہ ، کیوں جندڑی ادا س گھنیری اے‘‘ وجد طاری کردیتی ہے۔ توحید و سنت کے معروف شاعر مولانا حکیم علی محمد صمصمام کا تو جواب ہی نہیں ان کی توپوری شاعری مدحت سید الانبیاء سے عبارت ہے ۔کوئی کہاں تک گنتا جائے ۔ ناممکن ہے۔ لاتحصوھا… صحابہ کرام میں سے حضرت براء بن عازب ؓسے مروی ہے کہ میں نے سرخ لباس میں لمبی زلفوں والے کسی شخص کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔ آپ کی زلفیں کندھوں تک ہیں اور آپ کے دونوں شانوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا ۔ آپ کا قد نہ چھوٹا تھا نہ بہت لمبا(ترمذی)چاند جیسا چہرہایک آدمی نے حضرت براء بن عازب سے پوچھا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور تلوار کی طرح (چمکدار) تھا فرمایا نہیں چاند کی طرح تھا روشن تھا(ترمذی ۔مولانا حکیم محمد علی صمصام نے اس حدیث کا والہانہ ترجمہ کیا ’’میں چاند کہوں انصاف نہیں ،چاند کا تو چہرہ ہی صاف نہیں)حضرت ابوہریرہؓ کابیان ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی حسین نہیں دیکھا ۔ رخ مبارک میں لگتاتھا جیسے سورج رواں ہو ۔ چلنے میں آپ بہت تیزچلتے تھے گویا زمین آپ کیلئے لپیٹ دی جاتی تھی گویاآپ بلا تکلف چلتے تھے ۔حضرت جابرؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن وجمال میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مشابہہ تھے ۔بے مثال حسینحضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو بہت لمبے قد والے تھے اور نہ ہی بہت چھوٹے قد والے تھے ۔ آپ کی ہتھیلیاں اور قدم پر گوشت تھے ۔ سر مبارک بڑا ، ہڈیوں کے جوڑ بڑے تھے ، سینے اور ناف کے درمیان بالوں کی لمبی سی لکیر تھی ۔ آپ چلتے تو آگے کی طرف جھکاؤ ہوتا گویا کہ بلندی سے اتر رہے ہوں میں نے آپ سے پہلے اور بعد آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔(ترمذی)حضرت علیؓ سے دوسری سند کے ساتھ ترمذی نے ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک نہ تو بہت گھنگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ تھوڑے تھوڑے گھنگھریالے تھے ۔ چہرہ مبارک نہ تو بالکل پر گوشت تھا اور نہ ہی مکمل طور پر گول تھا بلکہ کچھ گولائی تھی ۔ رنگ سرخی مائل سفید تھا، آنکھیں سیاہ ، پلکیں دراز ، جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں ۔ مونڈھوں کے سرے اور ان کے درمیان کی جگہ پرگوشت تھی ۔ جسم اطہر پر معمول سے زیادہ بال نہ تھے ، سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی ۔ ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں پر گوشت تھے ۔ چلتے وقت پاؤں جما کر چلتے گویا بلندی سے اتر رہے ہوں ۔ کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو نظر بھر کر پوری توجہ ملتفت فرماتے ۔ دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی ۔ آپ خاتم النبیین تھے ۔ سب سے زیادہ سخی دل اور سب سے زیادہ سچ بولنے والے تھے ۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے زیادہ شریف گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کو اچانک دیکھنے والا مرعوب ہوجاتا اور آپ کے ساتھ رہنے والا مانوس ہوکر فدا ہوجایا کرتاتھا۔ آپ کا وصف بیان کرنے والا کہتا ہے میں نے آپ سے پہلے اور آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔مہرنبوتحضرت سائب ؓبن یزید کابیان ہے کہ میں نے آپ کے دونوں کاندھوں کے درمیان مہرنبوت کو دیکھا تو وہ چھپرکھٹ کے درمیان گھنڈی کی طرح تھی حضرت جابرؓ بن سمرہ کہتے ہیں کہ کبوتری کے انڈے کی طرح سرخ ابھرا ہواگوشت تھا۔اس موضوع پر حضرت سلمان ، قرہ بن ایاس مزنی ، جابربن سمرہ ، ابورمشہ ، بریدہ اسلمی، عبداللہ بن سرجن ، عمرو اخطب اور ابو سعید سے بھی روایات ہیں(ترمذی)کشادہ روئیحضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دہن مبارک کشادہ ، آنکھوں کے کنارے لمبے اور ایڑیاں باریک تھیں۔تکلم نبوتام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی طرح جلدی جلدی گفتگو نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ آپ کی گفتگو نہایت نکھری ، واضح ہوتی تھی سننے والا یاد کرلیتاتھا۔حضرت انسؓ کابیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عموماً ایک بات تین بار دہراتے تاکہ اچھی طرح سمجھ آجائے ۔حضرت ام المؤمنین عائشہؓ کابیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ْ کی صاحبزادی شہزادی جنت سیدہ فاطمہ ؓ سے بڑھ کر کسی کو عادات ، حسن سیرت اور وقار نیز اٹھنے بیٹھنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہہ نہیں دیکھا۔ جب فاطمہ آتیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے انہیں چومتے اور اپنی جگہ بٹھاتے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لیجاتے تو وہ کھڑی ہوجاتیں ، حضور کو چومتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم علیل ہوئے تو فاطمہ آئیں اور آپ پر جھک گئیں آپ کا بوسہ لیا پھر سر اٹھایا اور رو پڑیں ۔ دوبارہ جھکیں اور سر اٹھایا تو ہنس رہی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ بتاؤ کہ آپ جب حضور پر جھکی تھیں اور رو پڑی تھیں دوسری دفعہ ہنس پڑی تھیںاس کی کیا وجہ تھی ۔ فاطمہ ؓنے جواب دیا اب راز فاش کیے دیتی ہوں ۔ حضور نے مجھے بتایا تھا کہ اس مرض سے میں جانبر نہ ہوسکوں گاتو میں رو پڑی تھی ۔ پھر بتایا کہ اہل بیت میں سے سب سے پہلے تم مجھے ملو گی یہ سن کر میں خوش ہوگئی ۔ابواب المناقب میں امام ترمذی نے یہ روایت حضرت ام سلمہ سے ذکر کی کہ فتح مکہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہزادی فاطمہؓ کو بلایا اور ان کے کان میں کچھ کہا اور ہنسنے کاسبب یہ بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے کہا کہ وہ مریم بنت عمران کے سواتمام جنتی عورتوں کی سردارہوں گی۔(ترمذی)جب خیمہ ام معبد میںچاند نبوت چمکا ۔سفر ہجرت میں نبی اقدس کا گزر ایک خاتون کے خیمہ سے گزرا جو خزاعی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ مسافروں کو کھلاتی پلاتی تھیں ۔مسافر ان سے کھانے کاسامان بھی خریدتے تھے ۔ ام معبدسے نبی ﷺ سے کھجوریں خریدنے کاارادہ فرمایا لیکن ان کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔خیمے میں ایک جانب بکری بندھی ہوئی تھی جو کمزوری کی وجہ سے ریوڑ کے ساتھ نہیں گئی تھی ۔آپ نے اس سے دودھ نکالنے کی اجازت مانگی۔گھر کے سارے برتن بھر گئے ۔ شام کو ان کا خاوند گھرآیا توانہوں نے اپنے خاوندکوبتایا کہ آج ایک ایسا مہمان آیاجس کاسراپا کچھ یوں تھا ۔’’وہ ظاہری وضع و قطع کے حامل تھے ۔جسمانی بناوٹ بڑی معتدل تھی ۔ چمکتا رنگ ۔تابناک چہرہ ، خوب صورت ساخت ۔ نہ پیٹ باہر کو نکلا ہوا تھا نہ سر کے بالوں میں گنج ۔ جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر ، سرمگیں آنکھیں ، لمبی پلکیں، بھاری بارعب آواز ، صراحی دار گردن ، سیاہ اور سفید آنکھیں ، باریک اور باہم ملے ہوئے ابرو، چمکدار سیاہ بال ، خاموش ہوں تو وقار جھلکتاتھا بولتے تو موتی رولتے ،گفتگو میں شیرینی، دور سے دیکھو تو جمال جہاں آراء ، قریب سے دیکھو تو سب سے حسین سراپا ، بات کرتے تو دوٹوک اور بالکل واضح ، نہ بہت مختصر نہ بہت لمبی ، انداز ایسا کہ لڑی سے موتی جھڑ رہے ہوں ۔ درمیانہ قد ، نہ چھوٹا جو نگاہ میں نہ جچے ۔نہ لمبا کہ ناگوار لگے ، دو شاخوں کے درمیان کی ایسی شاخ کی طرح جو سب سے خوشگوار محسوس ہو۔آپ کے ساتھی ہمیشہ آپ کے گرد جیسے چاند کے گرد تارے ۔ بولیں تو کائنات تھم جائے ، حکم دیں تو سب بجا لانے کو تیار۔مطاع و مکرم ۔ نہ ترش رو نہ لغو گو ( اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد ) البدایہ والنہایہ 6/29زاد المعاد2/54)حضرت عائشہ ؓ اور رخ انورایک دفعہ آنحضور ؐ اپنا جوتا مرمت کررہے ہیں ۔ اور پسینے کاایک شوخ قطرہ رخ انور سے بہہتاہوا ناک مبارک کی نوک پر آ ٹھہر گیا ۔سورج کی کرنیں بھی رخ مبارک کو چوم رہی تھیں ۔ جن سے یہ قطرہ ایک موتی کی طرح چمک رہاتھا ۔حضرت عائشہ نے یہ لذتبھرانظارہ دیکھ کر عرض کیا ۔ حضور اگر اس حالت کو مشہور شاعر ابوکبیر ہذیلی دیکھ لیتا تو یہ شعر آپ ہی کیلئے خاص کردیتا۔ پوچھا کیساشعر اور کیسی کیفیت ۔ عائشہ نے عرض کی اور شعر پڑھا۔٭’’پس جب میں نے محبوب ے چہرے کی رگوںاور گزرگاہوں کادیکھا تو ایسے لگا جیسے پانی ٹپکتے ہوئے بادل ہیں۔‘‘آنحضورﷺ حضرت عائشہ کی ان محبت پاش نگاہوں سے بڑے محظوظ ہوئے اور اپنی مصروفیت چھوڑ کر عائشہ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایاعائش اللہ تجھے اسی طرح خوش کرے جس طرح تو نے مجھے سرشار کیاہے ۔٭ اندھیری شب میں ان کی پیشانی یوں نظر آتی ہے … تو اس طرح چمکتی ہے جیسے روشن چراغ٭زلیخا کی ملامت گر عورتیں اگر ان کی پیشانی دیکھ لیتیں ۔ تو اپنے ہاتھ پر نہیں دلوں پر چھریاں چلا لیتیں۔٭ احمد مجتبیٰ کے بعد ان جیسا کون تھا یا ان جیسا کون ہوسکتاہے …حق کے نظام کو قائم کرنے والا ملحدوں کو سراپا عبرت بنادینے والا ۔روضہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مواجہہ شریفہ کی جالیوں پر کندہ نعتیہ اشعارکا ترجمہ٭ اے بہتر ان سب سے جن کے اجساد شریفہ خاک میں مدفون ہوئے ہیں٭ اور ان کی خوشبو سے جنگل اور پہاڑ مہک گئے٭ میری جان اس پاک قبر پر فدا جس میں آپ سکونت فرما ہیں۔٭اس قبر شریف میں پاکبازی ہے اور اس میں جود اور کرم ہے۔یا صاحب الجمال و یا سید البشرمن وجہک المنیر لقد نور القمرلا یمکن الثناء کما کان حقہبعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
تازہ ترین