• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لکھنے کو بہت سے موضوعات نوک قلم پر تڑپ رہے ہیں لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ آج میں آ پ کو ایک دلچسپ واقعہ سناؤں جو کئی روز سے میرے ذہن کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ یہ واقعہ بھی ہے اور ہماری تاریخ کا ایک اہم ورق بھی۔
یادش بخیر… جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگایا تو ظاہر ہے کہ وہ اس میدان میں نووارد تھے، سیاست کی باریکیوں، محرکات، چالوں اور ضروریات کا ادراک نہیں رکھتے تھے اگرچہ بعد ازاں وہ اتنے گھاگ ہو گئے تھے اور سیاست پر ان کی گرفت اتنی مضبوط ہو گئی تھی کہ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ بے ساختہ ایک ہی فقرہ کہتے ”بھائی۔ اس جنرل نے تو حد ہی کر دی ہے۔“ ظاہر ہے جب فوجی حکمران نئے نئے اقتدار میں آتے ہیں تو وہ مشیروں کے مشوروں کو بڑے غور سے سنتے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں خوابیدہ یا پوشیدہ سیاسی صلاحیتیں جوان ہو جاتی ہیں، تجربہ گل کھلانے لگتا ہے، اقتدار میں لطف آنے لگتا ہے اور انہیں ہر لمحے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ حکم ہے، ہر لفظ قانو ن ہے کیونکہ ملک ایک ایسے خلاء میں چلا جاتا ہے جہاں عدلیہ بے بس اور پارلیمنٹ سے لے کر عوامی نمائندگی کے تمام ادارے ختم ہو چکے ہوتے ہیں اور انتظامیہ، حکمرانوں کی مطیع و فرمانبردار بن جاتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم ٹھیک ہی کہتے تھے کہ انتظامیہ حکمران کے ہاتھ میں بھرے ہوئے پستول کی مانند ہوتی ہے جس سے وہ جس پر چاہے فائر کر سکتا ہے، جسے چاہے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ ”حکیمانہ“ فقرہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے کئی برس بعد کہا تھا، شروع شروع میں وہ صرف یونیفارم کے زور پر حکومت کیا کرتے تھے۔
ہوا یوں جب جنرل ضیاء الحق صاحب ایک رات ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد (جو بعد ازاں دھڑن تختہ ثابت ہوا) اقتدار میں تشریف لائے تو میں ایک سویلین خفیہ ایجنسی میں اہم عہدے پر تعینات تھا یہاں سے حکومت کی کارکردگی، انداز اور فیصلوں کو قریب سے دیکھا جا سکتا تھا۔ جنرل صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی محترم غلام اسحاق خان کو حکومت کا سیکرٹری جنرل تعینات کیا، حکومتی اور انتظامی معاملات اُن کے سپرد کئے اور نوے دنوں میں انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔ بعد ازاں جب ان کی نیت بدل گئی اور انہوں نے نوے ایام کی بجائے ”نوے برس“ حکومت کرنے کا ارادہ کر لیا تو انہوں نے سیاستدانوں کو حکومت میں شامل کرنے اور انکی حمایت حاصل کرنے کیلئے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ دراصل ہوتا یوں ہے کہ جب فوجی حکمران اقتدار میں آتا ہے تو کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ حکومت چلانے کیلئے سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت ہے۔ پھر وہ سیاستدانوں سے رابطوں کی دکان سجاتا ہے اور عام طور پر کوشش کرتا ہے کہ جس حکمران یا پارٹی کو اقتدار سے محروم کر کے حکومت میں آیا تھا، اس کے مخالفین کو اکٹھا کرے اور اسکے ذریعے اپنے دشمن کو سیاسی طور پر کمزور کرے۔
ضیاء الحق صاحب پیپلز پارٹی کو نکال کر آئے تھے چنانچہ جلد ہی انہوں نے پی پی پی کو کمزور کرنے کے لئے حکمت عملی بنانی شروع کی۔ فوجی حکمرانوں کی مانند ضیاء الحق نے بھی سکیورٹی کونسل بنائی جس کا سیکرٹری لیفٹیننٹ جنرل حسن کو مقرر کیا گیا۔ آغاز کے اس دور میں تین بیورو کریٹ مل کر حکومت چلا رہے تھے اور وہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اتنے قریب تھے کہ لگتا تھا جیسے انہوں نے کرسی اقتدار پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہ تین بیورو کریٹ تھے سیکرٹری جنرل غلام اسحاق خان صاحب، سیکرٹری سکیورٹی کونسل جنرل غلام حسن خان اور سیکرٹری داخلہ روئیداد خان اسے محض اتفاق ہی سمجھئے کہ ان تین خان صاحبان کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا اور ان کے قریبی رشتے دار ولی خان کی نیپ میں عہدے دار تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بھٹو صاحب اپنے دور حکومت میں نیپ پر پابندی لگوا چکے تھے اور ولی خان کو اپنے ساتھیوں سمیت پابند سلاسل کر چکے تھے۔ ان پر مقدمہ چلانے کے لئے حیدر آباد ٹربیونل قائم ہو چکا تھا جو نہایت سست رفتاری سے کام کر رہا تھا کیونکہ نیت یہ تھی کہ ان کو جیل میں ہی رکھا جائے۔ ایک روز اوپر سے حکم ملا کہ حاکم اعلیٰ یعنی سی ایم ایل اے نے نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کے ضمن میں مشورہ مانگا ہے اور اس ضمن میں سمری بہرحال کل تک بھجوانی ہے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اب حکومت پی پی پی کے دشمن اور سب سے بڑے سیاسی مخالف پر ڈورے ڈالنا چاہتی ہے تاکہ اسے پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا جا سکے لیکن مجھے یقین تھا کہ نیپ زیادہ عرصہ مارشل لاء کے ساتھ نہیں چل سکے گی کیونکہ اس کا مزاج سیاسی اور جمہوری ہے۔ ہم نے بار بار یہی دیکھا ہے کہ فوجی حکومتیں جن مقبول اور منظم سیاسی جماعتوں کو اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں وہ زیادہ دیر تک حکومت کیساتھ نہیں چل سکتیں کیونکہ کوئی سیاسی جماعت بھی اپنے اوپر مارشل لاء یا فوج کا لیبل لگوانا پسند نہیں کرتی۔ چنانچہ بالآخر فوجی حکمران کو کرسی پرست آزمودہ وفاداروں پر مشتمل اپنی ہی پارٹی بنانی پڑتی ہے جو فوجی حکمران کے ساتھ معرض وجود میں آتی ہے اور اس کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ ہماری طرف سے حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ چونکہ تحریک پاکستان کے حوالے سے عبدالغفار خان اور نیپ کا ایک خاص کردار ہے اور اس پر پابندی عدالتی عمل کے ذریعے یعنی سپریم کورٹ کے ذریعے لگائی گئی ہے اس لئے مارشل لاء حکومت اپنی طرف سے یکطرفہ فیصلہ کرنے کی بجائے اس مقدمے کو ری اوپن کر دے۔ خان ولی خان کو اعتراض تھا کہ انہیں سارا مواد سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا موقع نہیں ملا تھا چنانچہ انہوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کئے رکھا اس لئے انہیں موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف عدالت عالیہ کے سامنے پیش کریں اور پھر عدالت جو فیصلہ سنائے اسے قبول کر لیا جائے۔ ظاہر ہے فیصلہ وہی ہو گا جو حکومتی چاہتی ہے۔ اس دور میں ایسا ہی ہوتا تھا۔
جنرل ضیاء الحق کی مجبوری یہ تھی کہ وہ جلد از جلد نیپ کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے مشیروں نے ان کو یہی سمجھا رکھا تھا۔ چنانچہ اسی سازش کے تحت ہمارے محکمے کی سمری کو راستے میں ہی دبا دیا گیا تھا۔ جنرل حسن خان، جن کے ذریعے یہ سمریاں جاتی تھیں نہیں چاہتے تھے کہ جنرل ضیاء الحق کے سامنے نیپ کے ضمن میں کوئی اور نقطہ نظر یا آپشن بھی رکھا جائے۔ بعد ازاں خود ضیاء الحق صاحب نے تسلیم کیا بلکہ ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہیں یہ سمری نہیں دکھائی گئی تھی۔ بہرحال ان کے مشیروں نے ان سے یکطرفہ فیصلہ کروا لیا اور ایک روز ہم نے اخبارات میں پڑھا کہ نیپ سے پابندی اٹھا لی گئی ہے۔ اس روز ملک کے اخبارات کی شہ سرخی جنرل ضیاء الحق کا بیان تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ غفار خان محب الوطن ہیں۔ جس دن اخبارات میں ضیاء الحق کا جاری کردہ محب الوطنی کا سرٹیفکیٹ اخبارات میں شہ سرخی بن کر بھی چھپا اسی روز معمول کے مطابق نیپ کے مخصوص کارکن پختون زلمے خان عبدالغفار خان مرحوم سے ملنے گئے اور نیپ سے پابندی اٹھنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ اگلے دن جب ہم نے خان عبدالغفار خان کے مخصوص کارکنوں سے خفیہ خطاب کی ٹیپ سنی تو ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ ایک روز پہلے ضیاء الحق سے حب الوطنی کا فتویٰ حاصل کرنے کے بعد خان صاحب اپنے کارکنوں سے کہہ رہے تھے کہ ”تم سے تو بنگالی ہی زیادہ غیرت مند نکلے جنہوں نے آزادی حاصل کر لی اور اپنا ملک بنا لیا“ میرا جی چاہا کہ اگر مجھے جنرل ضیاء الحق تک رسائی ہو تو عرض کروں حضور ”ہور چوپو“۔ویسے خان عبدالغفار خان کی اپنے نظریئے سے کمٹ منٹ اور خلوص کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے وفات کے بعد بھی پاکستان کی مٹی میں دفن ہونا پسند نہ کیا۔
تازہ ترین