• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحافیوں، وکلاء اور سول سوسائٹی نےسوشل میڈیا رولز مسترد کر دئیے

کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)بلوچستان کے صحافیوں وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں نافذ کردہ سوشل میڈیا رولز کو مسترد کرتے ہوے اسے شہریوں کو آئین میں دیئے گئے حقوق کو پامال کرنے کے مترادف قرار دیا اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ضوابط کو فوری طور پر واپس لے اور مستقبل میں سوشل میڈیا ریگولیشن کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز سمیت عوامی مشاورت کے عمل کا ٹھوس پلان جاری کرے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بلوچستان چیپٹر کے سربراہ حبیب طاہر ایڈوکیٹ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد ایڈوکیٹ، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر سید باسط شاہ ایڈوکیٹ، بلوچستان بار کونسل کے نائب صدر سلیم لاشاری ،کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر آصف ریکی، کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضاالرحمٰن اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر ایوب ترین نے جمعہ کو کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار نے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی ایف یو جے نے سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا رولز کے خلاف ملک گیر احتجاج کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنسز کی جارہی ہیں اور جمعرات 27 فروری کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں قومی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے جس میں وکلاء سمیت سول سوسائٹی کے نمائندے شرکت کریں گے، انہوں نے کہا کہ مذکورہ کانفرنس میں باہمی مشاورت سے سوشل میڈیا رولز کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا جاے گاانہوں نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے رولز پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی یقین دہانی کو سراہا تاہم انہوں نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت کی جانب سے باہمی اعتماد سازی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر تحریری حکم نامے کے ذریعے ان رولز کو منسوخ کرے، انہوں نے کہا کہ حکومت نے مشاورت کے عمل کے حوالے سے کوئی ٹھوس پلان عوام کے ساتھ شیئر نہیں کیا جو تشویش کا باعث ہے جس سے نہ صرف سول سوسائٹی کی تنظیموں میں بلکہ عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نئے سوشل میڈیا رولز کے نفاذ سے آزادی اظہار رائے سے متعلق شہریوں کے آئینی حقوق، میڈیا کی آزادی اور خودمختاری سلب ہوکر رہ گئے ہیں اور اس سے قومی ڈیجیٹل معیشت کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ جس سے یقینی طور پر جہاں قومی معیشت متاثر ہوگی وہاں حکومت کی ساکھ بھی عالمی سطح پر متاثر ہوگی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد ایڈووکیٹ نے کہا کہ موجود دور پوری دنیا میں سیاسی و شہری آزادی کا ہے، پوری دنیا میں شہریوں کو اظہار رائے کی نہ صرف مکمل آزادی دی جاتی ہے بلکہ اس کو اچھی نظروں سے بھی دیکھاجاتا ہے کہ شہری اپنے حقوق کے بارے میں سوچتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میڈیا کی آزادی کیلئے صحافیوں نے بہت سی مشکلات اور تکالیف کا سامنا کیا ،اظہار رائے کی آزادی صحافی اپنے لئے نہیں بلکہ عوام کیلئے چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ماضی میں جنرل ایوب خان کے دور سے لیکر ہر دور میں وکلاء نے ملک میں نہ صرف ہر تحریک کا آغاز کیا بلکہ اس میں بھرپور کردار ادا کیا، انہوں نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کو طاقت کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا کیونکہ اظہار رائے کی آزادی ہمیں آئین دیتا ہے جسے کسی رول یا آرڈیننس سے نہیں روکا جاسکتا حکومت اپنی تبدیلی کے نعرے کو بہتری کیلئے استعمال کرے، انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا عام آدمی کی آواز ہے جو ان کے اظہار رائے کا بہترین ذریعہ ہے ، انہوں نے پی ایف یو جے کو ہر ممکن تعاون کا یقین اور 24فروری کو بلوچستان اسمبلی کے سامنے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے احتجاجی کیمپ میں بھرپور اظہار یکجہتی کا یقین دلایا، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بلوچستان چیپٹر کے سربراہ حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کہا کہ سوشل میڈیا سے متعلق جو رولز بنائے جائے گئے ہیں انہیں تمام اسٹیک ہولڈرز کے سامنے لایا اور پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے وہاں مشاورت سے قانون سازی کی جائے انہوں نے کہاکہ رولز کو قانون کی شکل دینے کی کوشش دراصل سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے کی کوشش ہے کوئی بھی قانون بنانے کا واحد راستہ پارلیمنٹ ہے انہوں نے کہا کہ جو اقدام آمریت میں ہوتے رہے وہ اگر جمہوری دور میں بھی ہوں تو یہ افسوسناک بات ہوگی انہوں نے کہا کہ رولز بنانے کا مقصد میڈیا میں سچ کا راستہ روکنا ہے۔
تازہ ترین