• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی نئی جگہ پر سونا بہت مشکل کیوں ہوتا ہے؟

لندن ( جنگ نیوز) یقیناً ہر انسان اس تجربے سے گزرا ہے کہ جب وہ شہر سے باہر یا کسی کام کی وجہ سے رشتے دار یا دوست کے گھر رات کو رکے یا نئے گھر میں پہلی رات سونے کیلئے لیٹے تو نیند اس کی آنکھوں سے غائب ہو جائے ۔ حقیقت میں بیشتر افراد کو کسی نئی جگہ پر پہلی رات نیند نہیں آتی ۔ اس کے پیچھے چھپی وجہ کا پتہ امریکہ کی براؤن یونیورسٹی نے ایک ریسرچ میں لگایا گیا ہے۔ نیند اب بھی سائنس دانوں کیلئے کسی معمے سے کم نہیں کیونکہ وہ اب تک مکمل طور پر یہ نہیں جان سکے کہ نیند کا آنا ضروری کیوں ہے۔ انہیں بس یہ ضرور معلوم ہے کہ نیند کی کمی صحت کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ جانور بھی سونے کے عادی ہوتے ہیں اگر کسی جانور کا کئی گھنٹے تک اپنے تحفظ کے لیے سونا مشکل ہو تو کچھ جانوروں نے ایک آنکھ کھول کر سونے کی صلاحیت پیدا کرلی ہے جیسے ڈولفن، گھریلو مرغیاں اور دیگر جن کے دماغ کا نصف حصہ ایک وقت میں سوتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی نئی جگہ نیند نہ آنے کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے یعنی جانوروں جیسا چوکنا پن ۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ کسی خطرناک اور ناقابل قبول ماحول میں سونے کا موقع ملے تو ذہن کس حد تک ہوشیار اور چوکس ہوسکتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارا دماغ ہوٹل کے کمروں، رشتے داروں یا دوستوں کے کمروں اور نئے گھر کو بھی اس خطرے میں شامل کردیتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں پہلی رات سونا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ تحقیق کے دوران 35 صحت مند افراد کی خدمات حاصل کی گئیں اور انہیں ایک سلیپ لیب میں ایک ہفتے کے فرق سے 2 رات سونے کی ہدایت کی گئی۔ ان رضاکاروں کے ساتھ ایسی مشینیں بھی منسلک کی گئیں جو دل کی دھڑکن، خون میں آکسیجن لیول، سانس، آنکھوں اور ٹانگوں کی حرکت کے ساتھ دماغ کے دونوں حصوں کی سرگرمیوں کو مانیٹر کر رہی تھیں ۔سائنس دانوں نے زیادہ توجہ دماغ کے ایک ایسے رویے پر مرکوز کی جس سے عندیہ ملتا ہے کہ کوئی فرد کتنی گہری نیند سو رہا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ کمرے میں مداخلت نیند کی گہرائی کو کس حد تک متاثر کرتی ہے۔ سائنس دانوں دماغ کے دونوں حصوں میں فرق کو نہیں دیکھ رہے تھے مگر انہوں نے دریافت کیا کہ پہلی رات نیند کے دوران رضاکاروں کے دماغ کے بائیں حصے میں زیادہ چوکنا تھا ۔یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ دماغ کا بایاں حصہ اجنبی آوازوں کے حوالے سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ ایک ہفتے بعد رضاکار دوبارہ اس جگہ آئے اور دماغی سرگرمیوں سے عندیہ ملا کہ اب دماغ اس ماحول سے شناسا ہو چکا ہے اور دماغ کے دونوں حصوں میں چوکنا پن کی سطح برابر تھی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دماغ میں وہیلز اور ڈولفن جیسا سسٹم موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکثر شہر یا مک سے باہر جانے والے افراد لاشعوری طور پر اپنے دماغوں کو اس اثر سے بچانے کی تربیت دیتے ہوں کیونکہ ہمارے دماغ بہت لچک دار ہوتے ہیں یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ نئی جگہوں پر جانے والے بیشتر افراد کو پہلی رات نیند نہ آنے کے مسئلے کا سامنا ہو ۔
تازہ ترین