• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موقع بہت خوشی کا ہے،مگر دل بے حد افسردہ اور بوجھل ہے۔ خوشی کی بات یہ کہ ہماری اسمبلیاں اور حکومتیں دوسری بار اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہیں اور انتخابات کی آمد آمد ہے۔ ہماری تاریخ میں پہلی بار جناب زیڈ اے بھٹو کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے ، مگر انتخابات اُن کے گلے کا ہار بن گئے تھے اور بہت بڑا سیاسی سانحہ پیش آیا تھا۔ حکومت نے پانچ سال تو جنرل پرویز مشرف کے عہدِ اقتدار میں بھی پورے کیے  لیکن آخر میں انتخابی مہم کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کر دی گئیں جن کے قاتلوں کا آج تک سراغ نہیں لگ سکا حالانکہ اُن کے بعد اُن کے شوہر جناب آصف زرداری سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ یہ دکھ جب یاد آتے ہیں تو خوشی کے لمحے کافور ہو جاتے اور کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ میں جب 65سال پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سینے میں تیر پیوست ہونے لگتے ہیں جو اپنے ہی دوست کمین گاہوں سے مشقِ ناز کرتے رہتے ہیں۔ مجھے وہ دن یاد آتے ہیں جب حضرت قائد اعظم کی قیادت اور علامہ اقبال کی بصیرت کی روشنی میں برصغیر کے مسلمانوں نے زبردست سیاسی جدوجہد کے ذریعے ایک آزاد وطن حاصل کیا تھاتب ہماری اُمنگوں اور ولولوں کا بھی کچھ اور عالم تھا۔ منزلِ مراد تک پہنچتے پہنچتے لاکھوں مردوزن شہید ہو چکے تھے اور کروڑوں آگ اور خون کے دریا عبور کر کے ارضِ پاک تک پہنچے تھے۔ سب سے بڑی تباہی اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے باوجود ہم اپنی تمام اذیتیں اور ساری مصیبتیں بھول کر تعمیروطن کے عظیم الشان کام میں جت گئے اور چند ہی برسوں میں پاکستان عالمی برادری میں ایک اہم اور بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیاتھا۔
ہم نے بیسویں صدی کے اِس معجزے کا کیا حشر کر دیا ہے  اِس خیال سے میرا پورا وجود کانپ اُٹھتا ہے۔ یہ سارا کیا دھرا اُن خواص کا ہے جو عوام کے نام پر اقتدار و اختیار کے مالک رہے  مگر اُنہوں نے شہریوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت پر خاطر خواہ توجہ دی نہ اُن کو نظم و ضبط کا پابند بنایا اور نہ ملکی سمت کا صحیح تعین کیا۔ اِسی اشرافیہ نے اپنے عمل سے قوم کو طبقات میں تقسیم کر دیا اور اپنے مفادات کی خاطر وہ تمام سیاسی اخلاقی اور سماجی اصول توڑ ڈالے جن کی طاقت کے بل بوتے پر برصغیر کے مسلمان انگریزوں اور ہندووٴں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ مغربی سیاست وافکار سے متاثر ہمارے بعض دانشوروں اور سیاست دانوں نے یہ بحث چھیڑ دی کہ آبائے قوم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے  چنانچہ جب مارچ 1949ء میں وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد پیش کی تو سیکولر ذہن رکھنے والے اراکینِ اسمبلی نے اُس کی شدید مخالفت کی۔ اُن میں کانگریسی ہندو پیش پیش تھے  مگر قراردادِ مقاصد کی حمایت میں عوام کے جوش و خروش کی قیادت مولانا شبیر احمد عثمانی کر رہے تھے جنہوں نے قائد اعظم کی خواہش پر پاکستان کی پہلی تقریب ِآزادی میں پرچم کشائی کی تھی۔ قراردادِ مقاصد میں جدید اسلامی اور جمہوری تصورات کا ایک حسین امتزاج تھا اور اِس میں امورِ ریاست چلانے کے اصول طے کر دیے گئے تھے۔ آئینی طور پر اعلان ہوا کہ پوری کائنات پر حاکمیت الله تعالیٰ کی ہے اور عوام کے منتخب نمائندے اُس کے عطا کردہ اقتدار کو ایک مقدس امانت کے طور پر استعمال کرنے کے پابند ہیں۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدار و اختیار کے مالک صرف عوام کے نمائندے ہوں گے اور اُن کے علاوہ جو شخص بھی اقتدار پر قابض ہو گا وہ آئین کا مجرم قرار پائے گا۔
اِس قراردادِ مقاصد میں عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ یہ بھی درج تھا کہ ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا جس میں مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر قرآن و سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل ہوں گے۔ آزادیٴ اظہار ،رواداری اور فرد کے بنیادی حقوق صراحت سے بیان کیے گئے تھے۔ اُس میں یہ بھی لکھا تھا کہ ایسے انتظامات کیے جائیں گے جن میں اقلیتیں اپنے مذہب پر آزادی سے کاربند رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے کلچر کو بھی فروغ دے سکیں گی۔ ریاست کی طرف سے اُن کے مفادات کے تحفظ کے لیے خصوص اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ دستاویز میگناکارٹا کی حیثیت رکھتی ہے جس میں پاکستان کی سمت کا تعین بھی ہے اور طرزِ حکمرانی کا بھی  مگر ہمارے طاقت ور عناصر نے صراطِ مستقیم پر چلنے کے بجائے نئے نئے تجربات کی مہم جوئی اختیار کی جس کے نتیجے میں معاشرے کا توازن بگڑنے لگا۔ وہ میانہ روی  مذہبی رواداری  دلجوئی اور خیر خواہی جو ہمارے معاشرے کا خاصہ تھی  اُس میں خلل پڑتا گیا۔ بعض خودسر عناصر نے شعائرِ اسلام کا مذاق اُڑانا شروع کیا  تو ردعمل میں ایسے گروہ وجود میں آئے جن کے اندر مذہبی شدت پسندی سرایت کر چکی تھی اور اُن کی طرف سے نفاذِ شریعت کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سپاہ صحابہ  سپاہ محمد  تحریکِ نفاذِ شریعت اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کی تنظیمیں انتہا پسندی اور تشدد کے راستے پر چلی نکلیں اور اب شدت پسند عناصر علمدار روڈ  عباس ٹاوٴن اور جوزف کالونی پر ٹوٹ پڑے ہیں اور پروین رحمان جیسی عظیم خواتین شہید کی جا رہی ہیں۔
بادامی باغ کی ایک مسیحی بستی میں جو ہولناک واقعہ پیش آیا  اِس میں دو شرابیوں کی آپس میں ہاتھا پائی  پولیس کی بے بصیرتی اور حکومت کی کوتاہ بینی کے علاوہ آئمہ مساجد کی غیر معمولی غفلت بھی شامل ہے۔ اُن پر فرض عائد ہوتا تھا کہ وہ لاوٴڈ اسپیکر پر بلوائیوں کو گھر اور دکانیں جلانے سے روکتے اور اُن پر واضح کرتے کہ اسلام ایسی انسان دشمن حرکتوں کی اجازت نہیں دیتا اور اقلیتوں کی حفاظت ہر مسلمان کی ذمے داری ہے۔ جوزف کالونی کے اِس انتہائی المناک واقعے نے پاکستان کو عالمی برادری میں رسوا کر دیا ہے جس کے سبب اسلام کا چہرہ گہنا گیا ہے  البتہ یہ بات کسی قدر حوصلہ افزا ہے کہ تمام دینی جماعتوں نے اِس واقعے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے مسیحی بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے اِس ہولناک واقعے کا ازخود نوٹس لے کر معاملات کو مزید بگڑنے سے بچا لیا ہے۔ بلاشبہ پولیس نے مشتعل ہجوم کو ٹھیک طور پر ہینڈل کیا جس کی بدولت کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے خود بستی کا دورہ کیا  گھروں اور دکانوں کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے اور متاثرین کو خطیر رقم کے چیک بھی تقسیم کیے جا چکے ہیں اور زخم بھرتے جا رہے ہیں  مگر مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا اور اُن اسباب کا سراغ لگانا ضروری ہے جو اِس دہشت ناک حادثے کے پیچھے کارفرما ہیں۔
اِن قانونی کارروائیوں کے علاوہ ہمیں عوام کے اندر یہ شعور بیدار کرنا چاہیے کہ رسول اللهﷺ کی بے حرمتی کے معاملے میں بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ جب تک کوئی ٹھوس شہادت سامنے نہ آئے  اُس وقت تک مسجد کے لاوٴڈ اسپیکر کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے پائیں اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی کی جائے۔ علمائے کرام اپنے وعظ میں یہ حقیقت بار بار اُجاگر کریں کہ اسلام امن  رواداری اور خیرخواہی کا دین ہے اور اقلیتوں کی حفاظت مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔ اُنہیں اقلیتوں کی بستیوں میں جانا اور مذہبی رواداری کو فروغ دینا چاہیے اور مساجد سب مسالک کے لیے کھول دی جائیں۔ وہ قوم جس کا چہرہ صبحِ آزادی کے وقت عزم و یقین سے دمک رہا تھا  اب وہ لہولہان ہے اور اُسے دیکھ کر عصرِ حاضر کے عظیم شاعر جناب سید ضمیر جعفری کا یہ مصرع بے اختیار یاد آتا ہے
اے ارضِ وطن! تیرے غم کی قسم، تیرے دشمن ہم  تیرے قاتل ہم
تازہ ترین