• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہاں عقل ساتھ نبھانے پر تیار نہ ہو وہاں تاریخ بڑے کام کی چیز ہے۔ ہر طرف غارت گری ہے، سب مانتے ہیں مگر ہماری سر زمین پر یہ کوئی نئی یا پہلی غارت گری تو نہیں۔ لوگوں نے لوگوں کو پہلے بھی بڑے دکھ دیئے ہیں، پہلے بھی بہت ستایا ہے اور پہلے بھی بہت سر اُتارے ہیں مگر پہلے سر کچلے بھی گئے ہیں۔ پہلے بھی ظلم کو مٹایا گیا ہے اور پہلے بھی بے رحموں کو اس زمین سے یوں اٹھایا گیا کہ ان کی ٹانگیں کئی کئی روز ہوا میں جھولتی رہیں، دنیا دیکھتی رہی اور عبرت پکڑتی رہی اور پھر یہ ہوا کہ اگلے وقتوں کے لوگ ایک پُرامن دنیا استوار کر کے ہمیں سونپ گئے لیکن دنیا کا حال کب ایک سا رہا ہے۔ کہیں کوئی روزن کھلا رہ گیا جس کے رستے صرف جرم ہی نہیں، جہل بھی چلا آیا اور ایک بار پھر ہمارے ناتواں سینوں پر چڑھ کر ہمیں ذبح کرنے کے درپے ہے اور وہ بھی اس شان سے کہ ساتھ ہی ہمارا ویڈیو بنا کر یوٹیوب پر اپ لوڈ کر رہا ہے۔ وقت اپنے چولے ہمیشہ ہی بدلتا رہا ہے لیکن اس دھج سے شاید ہی کبھی بدلا ہو۔
وہ جو اس تلاطم کو چپ چاپ دیکھ رہی ہے وہ تاریخ ہے اور تاریخ بھی ایسی جو گواہی دے رہی ہے اور گواہی ایسی کہ جو صاف کہے کہ معاملہ سنگین ہو تو گھسے پٹے روایتی حربوں سے کام نہیں چلنے والا۔ ہر طرف آگ بھڑک اٹھے تو آپ کے سامنے دو ہی راستے ہیں، ایک یہ کہ اسے بھڑکنے دیجئے یہاں تک کہ ہر چیز بھسم ہوجائے اور آگ خود ہی بجھ جائے۔ دوسرا یہ کہ اس سے پہلے کہ سب کچھ راکھ کا ڈھیر بن جائے، آگ کو بجھایا جائے۔ ایک بات طے ہے کہ ایسی آگ پھونکوں سے نہیں بجھا کرتی۔اب سنئے، پورے دو سو سال ہوئے۔ انیسویں صدی کے یہی شروع کے برس تھے۔ انگریزوں نے بنگال میں قدم جمانے کے بعد وسیع و عریض برصغیر میں پاؤں پھیلانے شروع کئے تو انہوں نے ایک عجب منظر دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کو ہلاک کر رہے ہیں، وہ تمام چھوٹی بڑی سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں، وہ آتے جاتے مسافروں کو باتیں بنا کر پھنسا لیتے ہیں پھر موقع پاتے ہی ان کی گردن میں رومال ڈال کر ایسا پھندا کستے ہیں کہ غریب مسافر کا نرخرہ ٹوٹ جاتا ہے وہ وہیں قاتل کے قدموں میں گر کر جان دے دیتا ہے۔ اس کے بعد یہ سفاک لوگ اس کا مال اسباب لوٹتے ہیں، اس کی لاش کو وہیں کہیں گاڑ دیتے ہیں یا کنوؤں اور باؤلیوں میں پھینک کر نئے شکار کی تلاش میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مغلوں کے زمانے میں ایسے لوگ پھانسی گر کہلاتے تھے، انگریزوں کے دور میں یہ خود کو ٹھگ کہنے لگے ۔کیا ہندو، کیا مسلمان ، یہ سارے کے سارے کالی مائی کو اپنی دیوی مانتے تھے، اس کی پرستش کرتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ راہ گیروں کو ہلاک کرنا کارِ ثواب ہے اور ان کے ہاتھوں مرنے والا ہر راہ گیر اصل میں دیوی کی مرضی سے قتل ہوتا ہے، اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ بلا کے بے رحم ہو گئے اور اوپر سے غضب یہ ہوا کہ عدالتیں انہیں بری کرنے لگیں۔ وہ ثبوت مانگتی تھیں، یہ لوگ ثبوت مٹا دیتے تھے۔ ججوں کے سامنے وعدہ معاف گواہ پیش کئے جاتے تھے ، عدالتیں انہیں بے اعتبار قرار دے کر کبھی کبھی خود انہی کو سزا سنا دیتی تھیں۔ مرشد آباد میں کمپنی بہادر نے مسلم دور کی سب سے اعلیٰ عدالت کو بر قرار رکھا تھا جو ’عدالت سلامت‘ کہلاتی تھی۔ اس میں بیٹھے ہوئے قاضی کہتے تھے کہ یہ کیسا قتل ہے جس میں خون نہیں بہتا۔ انگریز مجسٹریٹ اپنا انگلستان کا قانو ن ساتھ اٹھا لائے تھے، وہ جس طرح کے ثبوت مانگتے تھے ان کا ملنا محال تھا۔ کتنے ہی سلطانی گواہ تیار کر کے لائے گئے، عدالتوں نے انہیں حقارت سے ٹھکرا دیا۔ آخر کار وہ کام ہوا جس نے جرم کو تہ و بالا کر ڈالا۔ حکام نے نیا قانون بنا کر پوری قوت سے نافذ کردیا۔ قانون یہ تھا کہ باریکیوں میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جرم جرم ہے جس کا علاج سزا کے سوا کچھ نہیں۔ اس قانون کی تاویل بھی مسلمانوں کے عہد سے چلے آنے والے اصول سے لی گئی۔ وہ اصول سیدھا سادہ تھا ’ خون کا بدلہ خون‘۔ اس وقت تک ٹھگ اپنی کارروائیاں اس شان سے کر رہے تھے جیسے ملک کی سڑکوں پر انہی کا راج ہو۔ 1833ء میں ایک معتبر اطلاع کے مطابق یہ لوگ ہر مہینے اوسطاً آٹھ سو افراد کو ہلاک کر رہے تھے۔ سید امیر علی سات سو سے زیادہ قتل کر چکا تھا۔ اودھ کا ٹھگ رمضان اٹھارہ سو ہلاکتوں میں شریک تھا۔ فتح خان، سردار، تیجا اور اعلیٰ ذات کا برہمن فرنگیا سیکڑوں راہ گیروں کو موت کی نیند سلا چکے تھے۔ نئے قانون نافذ ہوتے ہی عدالتیں اور حکام دلیر ہو گئے۔ طے یہ پایا کہ جو ایک بار ٹھگ ہوا وہ عمر بھر ٹھگ رہے گا لہٰذا اسے عمر بھر کے لئے ٹھکانے لگا دیا جائے۔ اب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی، بڑے بڑے نامور ٹھگ جب ہاتھ نہ آئے تو ان کے بیوی بچوں کو پکڑ لیا گیا۔ آخر کار ٹھگوں نے ہتھکڑی کے لئے خود ہی ہاتھ آگے بڑھا دیئے۔ یہ لوگ وعدہ معاف گواہ بن گئے اور انہوں نے اپنی برادری کے ایسے ایسے راز کھولے اور حکام کو اتنا کچھ بتایا کہ بعد میں پکڑے جانے والے ٹھگ ان افسروں کی معلومات سنتے تو حیرت سے ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے تھے۔ایک ایک ٹھگ کے نام کا اندراج ہوگیا۔
ان کے شجرے تک بن گئے اور کوئی بھی قانون کی گرفت سے محفوظ نہ رہا۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ سارے ٹھگ پکڑ لئے گئے۔ ان کے لئے تین قسم کی سزائیں تجویز ہوئیں۔ اوّل سیدھا سیدھا پھانسی کا پھندا۔ دوم کالا پانی اور سوم عمر بھر کی قید، آخری سانس تک۔ میدانوں میں پھانسیاں گاڑی گئیں اور دس دس بارہ بارہ ٹھگوں کی ٹولیاں بڑے بڑے مجمعوں کے سامنے لٹکائی گئیں۔ بعض ہندو ٹھگوں نے تو جلّادوں کو بھی زحمت نہیں دی کیونکہ جلّاد نیچ ذات تھے۔
ان لوگوں نے خوشی خوشی دیوی کے گُن گاتے ہوئے اپنی گردنوں میں پھندے اپنے ہاتھوں ڈالے اور خود ہی جھول گئے۔ باقی کئی ہزار ٹھگ کالے پانی بھیجے گئے۔ ہزاروں کے لئے جیلوں کے احاطوں میں بستیاں بنادی گئیں اور وہ اگر کبھی باہر گئے تو مر کر ہی گئے۔ اب تک یہ حکم تھا کہ جہاں کہیں بھی ٹھگی کی واردات ہو، حکام بالا کو فوراً اطلاع کی جائے پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ اطلاعات آنی بند ہو گئیں۔ مسافر اپنی منزلوں تک پہنچے اور اپنے کام سرانجام دے کر زندہ سلامت واپس گھروں کو آنے لگے، ٹھگ نیست و نابود ہو گئے، دنیا حیران رہ گئی۔
یہ پوری داستان پڑھنے والوں کے سامنے اب ایک بڑا سوال سر اٹھاتا ہے، وہ سوال یہ ہے کہ آپ کیا سمجھتے ہیں،کیا ٹھگ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئے؟جواب آسان ہے، اتنا آسان کہ یہاں لکھنے کی ضرورت تک نہیں۔
تازہ ترین