• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخری منٹ کی امریکی دھمکی کہ وہ پاکستان پر پابندیاں لگا دیں گے، پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے پاک ایران گیس پائپ لائن پر ایرانی صدر کے ساتھ معاہدہ کرلیا جو پورے خطے کے لئے انتہائی سودمند ہے اور پاکستان ایران دوستی کو مضبوط کرنے اور پاکستان، چین، ایران اور روس کا بلاک بنانے کا راستہ ہموار کرے گا۔ اس خطہ میں اب نئے کھلاڑی آئے ہیں پہلے امریکہ، برطانیہ اور یورپ تھے، اب چین، ایران، پاکستان اور روس اپنے اپنے ممالک کی پوزیشن مستحکم کرنے کا کام کریں گے۔ پاکستان اور ایران دونوں کو اس منصوبے سے باہمی فائدہ پہنچے گا، بلوچستان اور سیستان میں علیحدگی کی تحریکوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ پاکستان اپنی معدنی دولت نکال سکے گا اور چین کی موجودگی سے اِن خطرات میں کمی آئے گی جو پاکستان کو لاحق ہوسکتے ہیں۔ اب پاکستان تنہا نہیں رہا ہے بلکہ اُس کے ایران اور چین کی شکل میں ساتھی پیدا ہو گئے ہیں جو پاکستانی خارجہ پالیسی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ پاکستان افغانستان سے بھی اتنے ہی قریبی تعلقات کا خواہاں ہے جتنا کہ ایران یا چین سے اُس کی دوستی برسوں سے چل رہی ہے۔ اِس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں چاہے جو حکومت بھی ہو، پاکستان میں اس سے دوستی کی خواہش موجود ہے۔ پاکستان نے سابقہ شمالی اتحاد سے بھی مراسم قائم کر لئے ہیں، برہان الدین ربانی کے صاحبزادے صلاح الدین ربانی کو خوش کر کے بھیجا اور پاکستان نے کئی قیدیوں کو اُن کے کہنے سے رہا کر دیا۔ اس پر حامد کرزئی خوفزدہ ہوئے کہ پاکستان کی نئی پالیسی سے پاکستان نے شمالی اتحاد کی مخالفت کا خاتمہ کر دیا ہے اور شمالی اتحاد کے اکثر لیڈر پاکستان کے دورے پر آنا چاہتے ہیں جن کو حامد کرزئی حیلے بہانے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی خوفزدہ کر کے پاکستان جانے سے روک دیتے ہیں، اگرچہ پاکستان نے حامد کرزئی کو یقین دلایا ہے کہ وہ حکومت نہ تو ان کی گرانا چاہتے ہیں اور نہ ہی افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں جو بھی حکومت ہوگی ہم اس کا ساتھ دیں گے۔ ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں اور اس کے لئے ہر حکومت کے ساتھ تعاون کے لئے دستیاب ہیں مگر حامد کرزئی بہت نروس ہوچکے ہیں، امریکی اُن پر اعتماد نہیں کررہے ہیں مگر پاکستان نے اُن کو ہر طرح کا یقین دلایا ہے کہ وہ اُن کی حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اسی طرح پاکستان انڈیا کے ساتھ بھی تعلقات معمول پر لانا چاہتا ہے مگر انڈیا، افغانستان کے معاملے میں نظر انداز کئے جانے پر بہت مشتعل ہے اور پاکستان کی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی بار بار کررہا ہے، اس نے ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کو واپس کر دیا، اس نے پاکستان کی خواتین کی ٹیم کو دہلی اور ممبئی کی جگہ کلکتہ بھیج دیا اور اُن کے ساتھ سردمہری کا رویہ اختیار کیا۔پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر دستخط اس وقت ہوئے ہیں جب صدر آصف علی زرداری کی حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے بعد جا رہی ہے اس لئے اُن کو ہٹائے جانے کا خطرہ درپیش نہیں ہے اور امریکہ افغانستان سے نکلنے کا خواہاں ہے، پاکستانی راستے کو استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ اس کے لئے بہت سستا ہے، اگرچہ امریکی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے کہا ہے کہ پاکستان پابندیوں کی زد میں آسکتا ہے تو پاکستان امریکہ کے لئے اپنا راستہ بند کر دے گا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اُن کے پاس متبادل راستہ ہے۔ ماضی کا تجربہ کہتا ہے کہ امریکہ یہ نہیں کر سکے گا۔ اس کی ایک وجہ تو تکنیکی جواز ہے، پاکستان اس منصوبے کو امام خمینی کے خیراتی فنڈز سے مکمل کر رہا ہے جس میں کوئی بینک ملوث نہیں ہے۔ دوسرے 1984ء میں جب ہم ایٹمی قوت بن چکے تھے تب بھی امریکہ نے پاکستان پر پابندیوں سے گریز کیا جہاں تک 1989ء آپہنچا جب روس نے افغانستان سے واپسی شروع کی۔ اس کے بعد اس سے ذرا پہلے امریکہ نے اسلامی بم، انڈیا منی سپر پاور کی اصطلاحات کا ورد شروع کیا۔ سو سمجھ میں یہی آتا ہے کہ جولائی 2014ء تک امریکہ شورشرابہ کے علاوہ کوئی بڑی غلطی یا قدم نہیں اٹھائے گا ۔
جبکہ مارچ 2014ء میں پاک ایران گیس پائپ لائن مکمل ہوجائے گی انشاء اللہ اور پاکستان کی گیس کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔ اس وجہ سے بھی امریکہ کو پاکستان پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے کہ پاکستان کو گیس اور بجلی کی کتنی ضرورت ہے۔ امریکہ دنیا بھر سے تیل و گیس کے حصول کے لئے جنگ کرنے، حکومتیں تبدیل کرنے اور کسی ملک میں خونریزی کرانے سے باز نہیں آتا تو ہم اپنے مفاد کی خاطر اور اپنی اشد ضرورت پوری کرنے کے لئے کیوں ایران سے گیس حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ ایران ہمیں بجلی بھی فراہم کرنے کو تیار رہے اور جب تک ہمارا تھرکول منصوبہ مکمل ہو اس وقت تک ہم ایران سے بجلی لے سکتے ہیں۔ TAPI منصوبہ کے ذریعے بھی حاصل کر سکتے ہیں اگر یہ منصوبہ تاجکستان، افغانستان اور پاکستان تک محدود اور اس میں سے انڈیا کو نکال دیا جائے تو یہ منصوبہ پاکستان کے لئے اچھا ہوگا اور پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقوں کے لئے بجلی دستیاب ہو جائے اور خصوصاً سردیوں کے مہینوں میں جب یہ علاقہ بہت سرد ہوتا ہے۔ TAPI کا اجلاس اپریل یا مئی2013ء کو ہوگا اور اس میں یہ طے کیا جائے گا کہ کسی طرح اِس منصوبے کو پایہٴ تکمیل کو پہنچائے۔ پاکستان کے حصے میں صرف 2000 ملین ڈالرز کی ضرورت ہوگی جبکہ افغانستان کو 350ملین ڈالرز کی اِن رقوم کا کہاں سے بندوبست ہوگا۔ اس پر غور ہوگا تاہم پاک ایران گیس پائپ جو پہلے امن گیس پائپ لائن تھی کہ ایران، پاکستان اور انڈیا تینوں اس پائپ لائن سے استفادہ کریں۔ امریکہ نے سول ایٹمی ٹیکنالوجی کے بدلے میں انڈیا کو اس معاہدے سے دور کر دیا تو اب صرف ایران پاکستان معاہدہ رہ گیا اور یہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کا مظہر ہے۔
تازہ ترین