• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب وقت آ پہنچا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کو کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک کر کے اُس کا تقدّس بحال کیا جائے۔ صلحِ حدیبیہ کے باعث سرزمینِ عرب میں کسی حد تک امن و سکون قائم ہو چُکا تھا، لیکن مشرکینِ مکّہ سے معاہدۂ حدیبیہ بھی نہ نبھ سکا اور عہد شکنی اُن کی مکمل تباہی کا باعث بنی۔ قبیلہ بنو خزاء مسلمانوں کا حلیف تھا، جب کہ بنو بکر قریش کا۔ اِن دونوں قبائل میں قدیم دشمنی تھی، لیکن بغضِ اسلام نے دونوں کو قریشِ مکّہ کا حلیف بنا دیا ۔ مسلمانوں سے امن معاہدہ ہوا،تو بنوبکر نے بنو خزاء سے پرانا انتقام لینے کی ٹھانی اور ایک رات اُن پر اچانک حملہ کر دیا۔ بنو خزاء نے اپنے کافی جانی نقصان کے بعد مجبور ہو کر حرمِ مکّہ میں پناہ لے لی۔ روسائے قریش نے بھی اعلانیہ بنو بکر کے ساتھ مل کر اس لڑائی میں حصّہ لیا۔

بنو خزاء نے مشکل کی اِس گھڑی میں مسلمانوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا، چناں چہ اُن کا سردار، بدیل بن ورقاء اور عمرو بن سالم چالیس سواروں کے ساتھ مدینے کی جانب روانہ ہو گئے۔ اللہ کے رسولﷺ اپنے صحابہؓ کے ساتھ مسجدِ نبویؐ میں تشریف فرما تھے کہ اچانک صدا گونجی’’اے پروردگار! مَیں(حضرت) محمّد(ﷺ) کو وہ معاہدہ یاد دِلانا چاہتا ہوں، جو ہمارے اور اُن کے آبائو اجداد کے درمیان ہوا تھا۔ جس کی ہم نے ہمیشہ پاس داری کی اور کبھی اُس سے دَست کش نہیں ہوئے۔ اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ ہماری مدد کیجیے اور اللہ کے بندوں کو بُلا کر جہادی اعانت کا حکم فرمائیے۔ یقیناً قریش نے آپؐ کے عہد کی خلاف ورزی کی ہے اور آپؐ کا پیمان توڑا ہے۔‘‘ نبی کریمﷺ نے جب یہ دردناک صدا سُنی تو فرمایا’’اے عمرو بن سالم! تیری مدد کی گئی۔‘‘ پھر آپؐ کی نظر آسمان میں بادل کے ٹکڑے پر پڑی، تو فرمایا‘‘ یہ بادل بنو کعب کی مدد کی بشارت سے دَمک رہا ہے۔‘‘ قریش کی بدعہدی سے آپؐ بہت افسردہ ہوئے، تاہم آپ ؐ نے ضبط فرمایا اور ایک قاصد کے ذریعے قریش کے پاس تین شرائط بھیجیں کہ ان میں سے کسی ایک کو منظور کر لیں (1)مقتولین کا خون بہا دیا جائے(2)قریش، بنوبکر کی حمایت سے دَست بردار ہو جائیں (3)اعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ قریش کی جانب سے مشرک سردار، قرطہ بن عُمر نے کہا’’ صرف تیسری شرط منظور ہے۔‘‘ لیکن قاصد کے جانے کے بعد اُنہیں اپنی غلطی کا شدّت سے احساس ہوا، چناں چہ اُنہوں نے اپنے سردار، ابوسفیان کو سفیر بناکر مدینہ روانہ کیا تاکہ صلحِ حدیبیہ کی تجدید کر لی جائے، مگر قریش کی لگاتار بدعہدیوں، گستاخیوں اور شرانگیزیوں کے پیشِ نظر آپؐ ؐاس پر آمادہ نہ ہوئے۔

اسلامی لشکر کی مکّہ مکرّمہ روانگی

آنحضرتﷺ نے مسلمانوں کو مکّہ جانے کی تیاری کا حکم فرمایا، لیکن اِس بات کی احتیاط کی گئی کہ اس کی اطلاع اہلِ مکّہ کو نہ ہو۔ صحابہ کرامؓ نہایت خاموشی سے تیاریوں میں مصروف تھے کہ ایک صحابی، حضرت حاطب ؓنے ایک خط کے ذریعے قریش کو اِس کی اطلاع بھجوا دی۔ آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اِس کی اطلاع دے دی۔لہٰذا آپﷺ نے حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدارؓ کو روانہ کیا، جنہوں نے راستے میں اُس عورت کو پکڑ لیا، جو یہ خط لے کر جا رہی تھی۔ صحابہ کرامؓ کو حضرت حاطب ؓ کے افشائے راز پر حیرت تھی۔ حضرت عُمر ؓ غم و غصّے میں اُن کا سَرقلم کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ تاہم، نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ اے عُمرؓ ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ نے اہلِ بدر کو مخاطب کر کے کہہ دیا ہے’’ تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔‘‘دراصل، حضرت حاطبؓ کے تمام عزیزو اقارب مکّے میں مقیم تھے اور اُن کا خیال تھا کہ اِس احسان کی بدولت کفّار اُن کے عزیزوں کے ساتھ بہتر سلوک کریں گے۔ اُنہوں نے یہ عذر آنحضرت ؐ کے حضور پیش کیا، جسے آپﷺ نے قبول فرمالیا۔10؍رمضان المبارک، 8ہجری کی صبح سرکارِ دو عالم ؐ کی قیادت میں دس ہزار مجاہدینِ اسلام کا لشکر نہایت شان و شوکت اور جوش و خروش کے ساتھ مدینہ منوّرہ سے روانہ ہوا۔ قبائلِ عرب راستے میں ملتے رہے اور کارواں بڑھتا رہا۔ 16رمضان کو مکّے سے کچھ دُور مرالظہران(وادیٔ فاطمہ) پہنچ کر لشکر نے پڑائو ڈالا۔ جنگی حکمتِ عملی کے تحت فوج کو وادی میں دُور دُور تک پھیلا کر الگ الگ آگ روشن کرنے کا حکم فرمایا۔ 

یوں صحرا روشن قندیلوں کے شہر میں تبدیل ہو گیا۔ ابوسفیان عموماً مکّے سے باہر نکل کر خبروں کی سُن گن لیتا تھا۔ چناں چہ جب اُس نے رات کی تاریکی میں مکّے کے دشت و جبل کو روشنیوں سے منوّر دیکھا، تو بے اختیار کہہ اٹھا’’ خدا کی قسم! مَیں نے آج جیسی روشنی اور ایسا عظیم الشّان لشکر کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ اتفاق سے رسول اللہﷺ کے چچا، حضرت عبّاسؓ اُس کے پاس سے گزر رہے تھے۔ اُنہوں نے ابوسفیان کی آواز سُنی، تو بولے’’اے ابو حنظلہ! یہ عظیم الشّان لشکر، اللہ کے رسولﷺ کا ہے اور واللہ! اب قریش کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔‘‘ ابوسفیان یہ سُن کر کانپ اٹھا۔ حضرت عبّاس ؓ نے اُسے خچر پر ساتھ بٹھایا اور دونوں آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔صحیح بخاری میں ہے کہ ابوسفیان نے وہاں اسلام قبول کر لیا۔

مکّہ فتح ہو گیا

منگل 17؍رمضان کی صبح یہ لشکر وادی ’’ذی طویٰ‘‘ پہنچا۔ یہاں آپ ؐ نے لشکر کی ترتیب و تقسیم فرمائی۔ اہلِ قریش نے اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو اپنی جانب آتے دیکھا، تو ڈر کے مارے اپنے گھروں میں بند ہوگئے۔ حضور ؐ کے حکم کے مطابق اسلامی فوج تین جانب سے مکّے میں داخل ہوئی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ زیریں علاقے سے داخل ہوئے اور قریش کے اوباش نوجوانوں سے نبردآزما ہوتے کوہِ صفا پہنچے۔ حضرت ابو عبیدہؓ پیادہ دستے پر مقرّر تھے۔ وہ وادیٔ بطن کے راستے مکّے میں داخل ہوئے۔ نبی کریمﷺ، صحابۂ کرامؓ کے بہت بڑے جلوس کے درمیان بیت اللہ کی جانب بڑھے۔ جس شہر سے رات کی تاریکی میں ہجرت پر مجبور کیا گیا، آج اُسی شہر میں دن کی روشنی میں حکم ران کی حیثیت سے رونق افروز ہو رہے تھے۔ حرمِ کعبہ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ بیت اللہ کا طواف فرمایا۔ اُس وقت آپﷺ کے ہاتھ میں کمان تھی۔ بیت اللہ کے آس پاس اور چھت پر تین سو ساٹھ بُت تھے۔ 

کمان سے بُتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے اور کہتے جاتے، ترجمہ’’حق آگیا اور باطل مِٹ گیا۔ بے شک باطل مٹنے والی چیز ہے۔‘‘آپ ؐ کی ٹھوکر سے بُت منہ کے بَل گرتے جاتے، اُن میں بُتوں کا سردار ’’ہبل‘‘ بھی تھا، جو انسانی شکل میں یاقوت احمر سے بنایا گیا تھا۔ کعبہ کے کلید بردار، حضرت عثمان ؓ بن طلحہ سے چابی لے کر کعبہ شریف کا دروازہ کھولا،اندر تشریف لے گئے اور تصاویر مٹانے کا حکم دیا۔ باہر تشریف لائے، تو دیکھا کہ اہلِ قریش شرمندہ چہروں کے ساتھ اپنی قسمت کا فیصلہ سُننے کے لیے بے تاب ہیں۔ اُن میں وہ ظالم و جابر سردار، امراء، روساء بھی ہیں، جن کے ہاتھ معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ وہ سفّاک بھی ہیں، جو حضورﷺ کے راستوں میں کانٹے بچھاتے تھے۔ ان میں و ہ بھی ہیں کہ جو مسلمانوں کو اذیّتیں دیتے، اُن کے جسموں کو دہکتی آگ سے داغتے، گلے میں رسّا ڈال کر بازاروں میں کھینچتے۔ 

ایک ایک کے ظلم و استبداد کی تفصیل سرکارِ دو عالم ؐ کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ اُن کے جو رو ستم کی بھیانک داستانوں کے عوض موت کی سزا بھی اُن کے لیے کم تھی اور یہی وجہ تھی کہ اُن میں سے ہر شخص اپنے بدحواس اور کانپتے وجود کے ساتھ سخت سے سخت سزا کا منتظر تھا۔ نبیٔ رحمتﷺ نے مجمعے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور پھر اچانک یوں لگا کہ جیسے جِھلملاتے ستاروں سے حرم جگمگا اُٹھا ہے۔ کعبے کے دروازے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے اللہ کے محبوبﷺ کی رُوح پرور آواز گونجی’’اے مکّے کے لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ آج مَیں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘اگرچہ قریش ظالم اور بے رحم تھے، لیکن بنی کریمﷺ کے مزاجِ مبارک سے بخوبی واقف تھے۔ 

سو، پکار اُٹھے ’’آپؐ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘ جواباً سرکارِ دوعالمﷺنے فرمایا’’تو مَیں تم سے وہی بات کہتا ہوں، جو حضرت یوسف علیہ السّلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی ’’ آج تم پر کوئی گرفت نہیں‘‘، جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘ ہجرت کے وقت رسول اللہﷺ کے گھر کا محاصرہ کرنے والے چودہ سرداروں میں سے گیارہ غزوۂ بدر میں مارے جا چُکے تھے، تین شرکت نہ کرنے کی وجہ سے زندہ بچ گئے تھے اور آج وہ بھی اپنی قسمت کا فیصلہ سُننے کے لیے بے قرار تھے۔ اللہ کے رسولﷺ نے جب ان تینوں یعنی ابوسفیان بن حرب، حکیم بن جزام اور جبیر بن مطعم کا نام لیا، تو جیسے ایک بار پھر مجمعے کو سانپ سونگھ گیا، ہر شخص کو اُن کے بھیانک انجام کا یقین تھا۔ رحمت العالمینﷺ کی آواز نے سکوت توڑا’’ان تینوں کو بھی امان دی جاتی ہے اور جو حرمِ کعبہ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ جائے، اُسے بھی امان دی جاتی ہے۔ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے، اُسے بھی امان ہے۔ 

جو ہتھیار پھینک دے، اُسے بھی امان ہے۔‘‘ قریش کے سرداروں سمیت سب نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ابوجہل کا بیٹا، عکرمہ یمن فرار ہو گیا تھا، اُس کی بیوی اپنے بچّوں کے ساتھ بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضر ہوئی اور اُس کے لیے امان طلب کی، تو آپﷺنے اُسے بھی امان دے دی۔ پھر حضورﷺ نے خانۂ کعبہ کی چابی حضرت عثمان ؓ بن طلحہ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا’’اب یہ ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔ اللہ نے تم کو اپنے گھر کا امین بنایا ہے۔‘‘نماز کا وقت ہو چُکا تھا، لہٰذا آپﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ کعبے کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں اور پھر اذانِ بلالیؓ سے پورا شہر جھوم اُٹھا۔

انصارِ مدینہ کو یہ فکر لاحق ہو گئی تھی کہ مکّہ، رسول اللہﷺ کی جائے پیدائش ہے، آبائو اجداد کا مسکن ہے، اسی شہر میں بیت اللہ ہے، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ رسول اللہﷺ اب یہیں مستقل قیام فرمالیں؟ اس پر آپﷺ انصار کے پاس تشریف لائے اور فرمایا’’اے انصارِ مدینہ! واللہ، اب زندگی اور موت تمہارے ہی ساتھ ہے۔‘‘ آپ ؐمکّے میں انیس روز قیام کے بعد واپس مدینہ منوّرہ تشریف لے گئے۔

سَرِیّہ حضرت خالدؓ بن ولید

عُزّیٰ، قبیلہ بنو کنانہ کا سب سے بڑا بُت تھا، جس کے مجاور بنو شیبان تھے۔ فتحِ مکّہ سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺ نے حضرت خالد ؓ بن ولید کی امارت میں تیس سواروں کا دستہ اُس بُت کو منہدم کرنے کے لیے روانہ کیا۔ جب وہ اُسے منہدم کر کے واپس آئے، تو نبی کریمﷺ نے فرمایا’’کیا تم نے وہاں کچھ دیکھا؟‘‘ جواب ملا’’نہیں۔‘‘ اس پر آپﷺ نے فرمایا‘‘ پھر تو درحقیقت تم نے اُسے منہدم نہیں کیا۔ واپس جائو اور اُسے منہدم کرو۔‘‘ حضرت خالد بن ولیدؓ دوبارہ گئے۔ اُنھوں نے تلوار میان سے نکالی ہی تھی کہ اُس میں سے ایک برہنہ، سیاہ اور پراگندہ سَر عورت نکلی۔ اس پر مجاور چیخنے چلانے لگا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے تلوار کے ایک ہی وار سے اُس کے دو ٹکڑے کر دیئے۔

سَرِیّہ حضرت عمرو بن العاصؓ

سواع، مکّے سے تین میل کی مسافت پر رہاط میں بنو ہزمل کا ایک بُت تھا۔ حضرت عُمروؓ بن العاص اُسے ڈھانے پہنچے، تو مجاور نے کہا’’ تم اسے ڈھانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ غیبی قوّتیں تم کو ایسا نہیں کرنے دیں گی۔‘‘اس پر اُنھوں نے کہا’’ اے شخص! تجھ پر افسوس ہے کہ تُو ابھی تک کافر ہے۔‘‘ اس کے بعد بُت توڑ ڈالا۔ مجاور نے جب دیکھا کہ بُت کے توڑنے پر کچھ بھی نہ ہوا، تو وہ بھی مسلمان ہو گیا۔

سَرِیّہ حضرت سعید ؓ بن زید الشہلی

مناۃ بھی ایک بڑا بُت تھا، جسے کئی قبائل پوجتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فتحِ مکّہ کے بعد حضرت سعیدؓ بن زید کو بیس صحابہ کے ساتھ اُسے ڈھانے کے لیے بھیجا۔ وہ وہاں پہنچے، تو مجاور نے اُن سے پوچھا’’ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ اُنہوں نے کہا’’ مَیں اسے ڈھانا چاہتا ہوں۔‘‘ مجاور بولا’’ تم جانو اور تمہارا کام۔‘‘ حضرت سعیدؓ بُت کی جانب بڑھے، تو اُس میں سے ایک سیاہ، برہنہ، پراگندہ سَر عورت نکلی، جو اپنا سینہ پیٹ پیٹ کر کوس رہی تھی۔ مجاور نے اُسے مخاطب کرکے کہا ’’اے مناۃ! ان نافرمانوں پر اپنا غضب ڈھا۔‘‘ اتنے میں حضرت سعید ؓ آگے بڑھے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اُس کے دو ٹکڑے کر دیئے۔

سَرِیہ حضرت خالد ؓ بن ولید ،جانبِ بنو جذیمہ

بنو جذیمہ، قبیلہ بنو کنانہ کی ایک شاخ تھی۔ یہ لوگ مکّے سے ایک شب کی مسافت پر رہائش پذیر تھے۔ نبی کریمﷺ ابھی مکّے ہی میں مقیم تھے۔ حضرت خالد ؓبن ولید عُزّیٰ کو منہدم کرکے واپس آچُکے تھے۔ آپ ؐ نے اُنہیں تین سو پچاس صحابہ ؓکے ساتھ بنو جذیمہ کی جانب روانہ کیا۔ اس سَرِیّہ کا مقصد اسلام کی دعوت دینا تھا۔ حضرت خالد ؓ بن ولیدوہاں پہنچے اور پوچھا’’ تم کون لوگ ہو؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا ہے اور اسلام قبول کر لیا ہے۔‘‘ اس پر حضرت خالد ؓنے دریافت کیا’’پھر تمہارے پاس ہتھیار کیوں ہیں؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ ہماری قبائل سے لڑائی رہتی ہے، اِس لیے اپنی حفاظت کے لیے رکھے ہیں۔‘‘ حضرت خالد ؓبن ولید نے اُن سے ہتھیار لیے اور گرفتار کرکے اپنے ہر ساتھی میں ایک ایک آدمی تقسیم کر دیا ۔ دوسرے دن اُنہوں نے حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ بنو سلیم نے اپنے قیدیوں کو قتل کر دیا، لیکن حضرت ابنِ عُمر ؓاور اُن کے ساتھیوں (انصار و مہاجرین) نے حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ واپس آکر رسول اللہﷺ کو تفصیل بتائی گئی، تو آپ ؐ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دو بار فرمایا ’’اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا، مَیں اس کے اس فعل سے تجھ سے برأت چاہتا ہوں۔‘‘ پھر آپ ؐنے حضرت علیؓ کو بنو جذیمہ کی جانب روانہ کیا، جنہوں نے مقتولین کا خون بہا ادا کیا اور دیگر نقصان کی تلافی کی۔

تازہ ترین