• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

درآمدات میں کمی، ایف بی آر نے آئی ایم ایف کو ڈیٹا دیدیا

اسلام آباد (مہتاب حیدر) معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو درآمدات میں کمی کے متعلق اعداد و شمار فراہم کر دیے ہیں اور ساتھ ہی درخواست کی ہے کہ مجموعی درآمدات میں کمی کے تناظر میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ٹیکس جمع کرنے کے سالانہ اہداف پر نظرثانی کی جائے۔ 

ایف بی آر نے درخواست کی ہے کہ یہ اہداف 5.238؍ ٹریلین روپے سے کم کرکے 4.8؍ ٹریلین روپے تک لائی جائے کیونکہ رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ کے دوران درآمدات میں 5.5؍ ارب ڈالرز کی زبردست کمی کی گئی ہے۔ 

سرکاری ذرائع نے دی نیوز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کی ٹیم نے گزشتہ ہفتے دو مرتبہ ٹیلی کانفرنس کی لیکن دونوں فریقین اختلافات کو کم نہ کر سکے۔ 

اسٹاف کی سطح پر معاہدے کیلئے دونوں فریقین آئندہ چند ہفتوں کے دوران مزید مشاورت کریں گے۔ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ ایف بی آر اپنا 5.5؍ ٹریلین روپے سے کم کرکے 5.238؍ ٹریلین روپے تک لایا جانے والا نظرثانی شدہ ہدف پورا کرے تاکہ ملک میں موثر مالیاتی انتظامات کو یقینی بنایا جا سکے۔ 

پاکستان اور آئی ایم ایف کے حکام کے درمیان گزشتہ ہفتے دو مرتبہ ٹیلی کانفرنس ہوئی جس میں ایف بی آر کی جانب سے ایچ ایس کوڈ بیس کی بنیاد پر درآمدی اعداد و شمار پیش کیے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ خام مال، مشینری اور دیگر اشیاء (Intermediary Goods) وغیرہ جیسے سامان کی درآمد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ 

درآمدات میں مجموعی کمی 5.5؍ ارب ڈالرز تک ہوئی ہے لہٰذا اس قدر زبردست کمی کو دیکھتے ہوئے رواں مالی سال کیلئے ٹیکس جمع کرنے کے اہداف پر نظرثانی کرکے کمی کی جائے۔ 

اتفاق رائے نہ ہونے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ توانائی سے جڑی یوٹیلیٹی بالخصوص بجلی اور گیس کے نرخوں میں بڑھتا اضافہ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے جون 2020ء تک بجلی کے نرخوں کو منجمد کرنے کیلئے حکمت عملی مرتب کر لی ہے۔ 

گیس ٹیرف کے حوالے سے آر ایل این جی کی بقایہ جات کو شامل کرنے پر تنازع برقرار رہے کیونکہ یہ فیصلہ اب تک نہیں ہو پایا کہ آیا ماضی کی بقایہ جات پر سبسڈی 19؍ ارب روپے ہونا چاہئے یا نہیں اور اگر یہ بات مان لی جائے تو موجودہ اور آئندہ بقایہ جات کے لحاظ سے یہ رقم 50؍ ارب روپے تک جا پہنچے گی جو صارفین سے وصول کی جائے گی یا پھر حکومت اسے سبسڈی کی شکل میں جذب کر لے گی۔ 

اسٹاف کی سطح پر اتفاق رائے کیلئے دونوں فریقین کے پاس دو ہفتوں کا وقت ہے تاکہ اختلافات کو کم سے کم سطح پر لایا جاسکے کیونکہ اس کے بعد آئی ایم ایف کے پاس رپورٹ کی تیاری میں چار سے چھ ہفتوں کا وقت درکار ہوگا اور یہ رپورٹ پھر ایگزیکٹو بورڈ کے ارکان کو فراہم کی جائے گی تاکہ دوسرے جائزے کی منظوری لی جا سکے اور 452؍ ملین ڈالرز کی تیسری قسط کا اجراء ممکن ہو سکے۔ اسٹاف سطح پر اتفاق رائے نہ ہونے کی ایک وجہ بروقت چائنیز قرضہ جات کے رول اوور بھی بتایا گیا ہے۔ 

اب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کا آئندہ اجلاس واشنگٹن ڈی سی میں 13؍ سے 19؍ اپریل 2020ء کو منعقد ہوگا جس میں آئندہ 6؍ سے 7؍ ہفتوں کے دوران فریقین کے درمیان اختلافات ختم نہ ہونے کی صورت میں حفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کے پاس موقع ہوگا کہ وہ جمود کو توڑنے کیلئے کوششیں کریں۔ 

اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی پروگرام کے تحت 6؍ ارب ڈالرز کی دوسری اور تیسری قسط رک سکتی ہے جس سے پاکستانی حکام کیلئے آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے پورے کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لہٰذا بہترین انتخاب یہ ہوگا کہ اسٹاف لیول معاہدے کیلئے کوئی درمیانہ راستہ زیادہ سے زیادہ مارچ 2020ء تک تلاش کرلیا جائے۔

تازہ ترین