• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بتایا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں بیس مارچ سے کٹائی کی زد میں آنے والی گندم کی فصلیں کم از کم ایک کروڑ پچاسی لاکھ ٹن پیداوار کی صلاحیت رکھتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ رواں سال پاکستان میں ہماری بنیادی خوراک دو کروڑ چالیس لاکھ ٹن کی مقدار میں پیدا ہوگی جو بہت ہی اچھی فصل کا واضح ثبوت ہے جس کے لئے پاکستان کے کاشت کار ،کسان اورکھیت مزدور مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اس سلسلے میں تھوڑا بہت کریڈٹ شاید حکومت کو بھی دیا جاسکتا ہے جس نے گندم کی سرکاری قیمت خرید میں نمایاں اضافہ کرکے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کی اور زرعی پیداوار کے کچھ فائدے وطن عزیز کی کم از کم ستر فیصد اکثریت پر مشتمل دیہی آبادی کے لئے پہلی بار”ٹریکل ڈاؤن“ ہونے کی گنجائش پیدا کی جس کو قومی زندگی کے 65سالوں میں کبھی بھی سکھ کا سانس لینے کا موقع نہیں ملا۔
محض ایک گندم کی سرکاری قیمت خرید میں نمایاں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے دیہات سے شہروں میں روزگار کی تلاش میں بھاری تعداد میں مراجعت کرنے والے دیہاتیوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی بتائی جاتی ہے اور دیکھنے میں بھی آرہی ہے۔بیرون ملک کی روزگار کی منڈیوں میں روزگار کی تلاش میں جانے والے بے روزگار محنت کشوں سے دیہاتیوں سے زیادہ شہری علاقوں کے ضرورت مند دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ یہ کوئی بہت بڑی انقلاب آفریں بات نہیں ہے مگر اتنی سی مثبت تبدیلی بھی اس سے پہلے ہمارے سماج کو دیکھنے کو نہیں ملی ہوگی۔
یقینی طور پر یہ جمہوریت کا کمال ہے کہ کوئی فائدہ ملک کی اکثریتی بلکہ غالب اکثریتی آبادی تک بھی پہنچنے لگا ہے جو اس سے پہلے براہ راست فوجی حکومتوں کے مجموعی طور پر33سالوں میں بھی اپنے بنیادی انسانی اور شہری حقوق کو ترستی ہی رہی۔ ہوسکتا ہے کہ قومی آئین کو غیر جمہوری ا ور آمرانہ آلائشوں سے پاک کرنا کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں ہوگا مگر پانچ سالوں کے ایک ہزار آٹھ سو پچیس دنوں اوراتنی ہی راتوں کو متواتر اور مسلسل خطرات کے ڈراؤوں سے گزر کر جمہوری نظام حکومت کو بچائے رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا اور حکومتی اختیارات کا فراز کی بلندیوں سے نشیب کی گہرائیوں تک اترنے کا کرشمہ بھی پاکستان کی قومی زندگی میں پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے۔ پہلی بار کسی حکمران نے اپنے اختیارات اپنے سے نچلی سطح اور درجے کے لوگوں کے حوالے کرنے کی ہمت دکھائی ہے اور پہلی بار کسی عام کارکن کو سربراہ حکومت بنانے کی جرات اور جوانمردی سے کام لیا گیا ہے۔ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ملک کی اقتصادی اور عوام کی معاشی حالت کو تسلی بخش ہرگز نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ حالات میں اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے وہ تباہی اور بربادی کے آخری کنارے تک پہنچ چکے ہیں۔گڈ کورننس اور غیر ضروری عدم مداخلت سے گریز کرتے ہوئے قومی اداروں کو آئین اور قانون کے تحت کام کرنے کی آزادی فراہم کی جائے تو مایوسی کو امید اور یقین میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ فیض احمد فیض نے صحیح فرمایا تھا کہ #
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
کوئی شام کتنی بھی لمبی کیوں نہ ہو اگر یقین رہے کہ یہ محض شام ہے تو اس کے ڈھل جانے اور روز روشن میں تبدیل ہوجانے کی امید برقرار رہتی ہے۔ ہماری تقریباً ہر حکومت نے اقتدار میں آنے کے پہلے دو سال ان مشکلات کے بوجھ کی باتیں کی ہیں جو پچھلی حکومت ا س کے لئے چھوڑ گئی ہے۔ ہماری آنے والی حکومت شاید یہ کہنے کی ہمت کا مظاہرہ کرے کہ وہ سابقہ حکومت کی شکر گزار ہے کہ جس نے بیشتر مشکل فیصلے کرکے نئی حکومت کی مشکلیں آسان کردیں اور ترقی کی راہوں کو ہموار کرنے کا فراض ا دا کیا۔
تازہ ترین