• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کپتان کا ہر جلسہ ”تاریخی“ ہوتا ہے، بینظیر و بے مثال۔ کپتان کا مدح سرا تو ”عہدِ حاضر کے عظیم ترین صوفی “کی بصیرت کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کر سکتا ہے کہ آئندہ کئی صدیوں تک نہیں تو کم از کم رواں صدی کی حد تک کوئی اور لیڈر اس طرح کا جلسہ نہیں کر پائے گا، اپنا ریکارڈ کپتان خود ہی توڑے گا۔ 30 اکتوبر (2011) کا لاہور کا جلسہ بلاشبہ بہت بڑا تھا لیکن 18 دسمبر کا دفاعِ پاکستان کونسل کا جلسہ بھی کم نہیں تھا۔ بعض تجزیہ نگار اسے کپتان کے جلسے سے بڑا بھی قرار دے رہے تھے۔ کراچی میں کپتان کے 25 دسمبر کے جلسے کے بعداسی جگہ مولانا فضل الرحمن کا جلسہ دوگنا نہیں تو ڈیڑھ گنا ضرور تھا۔ اب پشاور میں کپتان کے جلسے کو کہنہ مشق رحیم اللہ یوسف زئی سے لے کر نوجوان سلیم صافی تک ایک بڑا جلسہ ضرور قرار دے رہے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسے جلسے یہاں اس سے پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ ٹی وی سکرین پر مناظر بھی اصل حجم کو ظاہر کر رہے تھے۔ کپتان اسے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ بنانا چاہتا تھا چنانچہ اس کے لئے ہفتوں سے تیاریاں جاری تھیں۔ فاٹا سمیت پورے صوبے سے لوگ لائے گئے تھے۔انہی دنوں صوبے کے دوسرے بڑے شہر مردان میں مختصر نوٹس پر کہیں کم تیاریوں کے ساتھ نواز شریف کا جلسہ بھی بہت بڑا تھا۔ کپتان نے چیرٹی اور پالیٹکس کو ملا جلا دیا ہے۔ پالیٹکس بھی عوامی خدمت ہی کی ایک صورت ہے لیکن کیا چیرٹی اداروں کو اپنی سیاست کے لئے استعمال کرنا ایک مستحسن عمل ہے؟ جماعت اسلامی اپنے قیام کے روزِ اول سے رفاہی خدمات بھی انجام دیتی آ رہی ہے۔ سیلاب اور زلزلے جیسی آفاتِ ناگہانی میں اس کی رفاہی سرگرمیاں دو چند ہو جاتیں ہیں۔ رفاہی خدمات کے لئے وہ قربانی کی کھالیں، صدقات، زکوٰة اور عطیات جمع کرتی ہے لیکن یہ اس کا الگ شعبہ ہے جسے وہ سیاست سے آلودہ نہیں کرتی۔ یہ بات ضرب المثل بن گئی کہ لوگ جماعت اسلامی کو قربانی کی کھالیں تو دیتے ہیں، اپنی زکوٰة ، خیرات اور صدقات کے لئے اس پر اعتماد کرتے ہیں لیکن اسے ووٹ نہیں دیتے۔ اس کے لئے ان کی ترجیحات اور معیارات کچھ اور ہوتے ہیں۔ یورپ سمیت دنیا کے مہذب ملکوں میں بھی این جی اوز کو سیاست سے الگ رکھا جاتا ہے۔ لیکن کپتان نے پاکستان میں خیراتی ہسپتال کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا۔ پشاور میں حالیہ جلسہ عام سے ایک روز قبل اس نے وہاں کینسر ہسپتال کا سنگِ بنیاد رکھا جس کے لئے زمین وزیرِ اعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے عطیہ کی۔ لاہور میں شوکت خانم ہسپتال کے لئے 15 ایکڑ زمین وزیرِ اعلیٰ نواز شریف نے دی تھی۔ بعد میں درویش صفت وزیرِ اعلیٰ غلام حیدر وائیں نے اس میں 5 ایکڑ کا اضافہ کر دیا۔ کپتان نے اپریل 1991 میں ہسپتال کا سنگِ بنیاد نواز شریف سے رکھوایا (تب وہ وزیر اعظم تھے)۔لیکن 1996 میں تحریکِ انصاف کے قیام کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ نواز شریف کے نام والے سنگ بنیاد کو اکھاڑ پھینکا ( شاید انصاف کا تقاضا یہی تھا)۔ شریف فیملی اپنے خیراتی اداروں کے باوجود (جنہیں وہ اپنی سیاست کی تشہیر استعمال کرتی ہے، نہ ان کے لئے قربانی کی کھالیں، زکوٰة، صدقات و عطیات جمع کرتی ہے) شوکت خانم کے کارِ خیر میں بھی مقدور بھر حصہ ڈالتی رہی۔ شہباز شریف نے جلاوطنی کے دنوں میں بھی 25 لاکھ روپے بھجوائے۔ برسوں بعد ایک ٹی وی ٹاک شو میں اس کا ذکر ہوا تو مدح سرا نے لکھا، یہ زکوٰة کی رقم تھی ، شوکت خانم کو دے دی تو کیا احسان کیا؟ یاد آیا شوکت خانم کے لئے بیرونِ ملک جمع کئے گئے ان 30 ملین ڈالرز کی، امتیاز حیدری کی کمپنی سے، وصولی کس مرحلے میں ہے جس کے متعلق کپتان نے کافی عرصہ پہلے کہا تھا کہ یہ رقم ڈوب گئی تو وہ زمان پارک والا گھر بیچ کر شوکت خانم کو ادا کر دے گا تو کیا زمان پارک والا گھر 30 ملین ڈالرز کا ہے؟ اور کیا اس کے لئے ہمارے دوست حفیظ اللہ نیازی کو بے گھر کرنا ضروری ہے؟
اسے کہتے ہیں، کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ کپتان کے گھریلو کالم نگار نے 6 مارچ کے کالم میں سعودی عرب میں ”نواز ، مشرف ملاقات “ اور سعودی حکمرانوں کی وساطت سے دونوں میں طے پانی والی مفاہمت پر جو افسانہ تخلیق کیا تھا اس کی حقیقت ہم گزشتہ ہفتے بے نقاب کر چکے کہ مسجدِ نبوی میں یہ ملاقات یونس بٹ کے مقبول پروگرام ”ہم سب امید سے ہیں“ میں مشرف کا کردار ادا کرنے والے وسیم انصاری سے ہوئی تھی۔ جس خبر کی بنیاد پرکالم نگار موصوف نے جھوٹ کی یہ عمارت تعمیر کی ، خود اس میں یہ تفصیل موجود تھی۔ خبر کی سرخی میں پرویز مشرف پر انورٹڈ کوماز سے بھی عیاں تھاکہ یہ اصلی والے پرویز مشرف نہیں۔ واقفانِ حال یہ بھی کہتے ہیں کہ جوں جوں الیکشن قریب آرہے ہیں، فاضل کالم نگار کے مشقتی پر کام کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت چنانچہ معاملات کی تفصیل میں اسے جانے کی فرصت نہیں۔ اپنے تازہ کالم میں موصوف کا کہنا ہے کہ پاکستان ایمبیسی سے کنفرم کرلیں کہ مشرف کے پاکستان آنے کا محفوظ راستہ کہاں اور کیسے طے پایا؟ تو کیا ”نواز، مشرف ملاقات“ پاکستان ایمبیسی میں ہوئی تھی؟ لیکن کس ایمبیسی میں؟ کیا ریاض میں؟ لیکن عمرے اور روضہ رسول پر حاضری کے لئے سعودی عرب کے حالیہ سفر میں میاں صاحب ریاض تو گئے ہی نہیں، نہ اس دوران مشرف کے سعودی عرب جانے کی کوئی خبر آئی اور یہ بھی کہ کیا نواز، مشرف ملاقات اور مفاہمت حنا ربانی کی وزارتِ خارجہ کے سفارت خانے میں ہونا تھی؟ اپنے حالیہ انٹرویوز میں خود پرویز مشرف ایسی کسی ڈیل کی تردید کر چکے ہیں۔ کالم نگار موصوف مزید فرماتے ہیں، محترمہ کے قتل کی تحقیقات یو این اوسے کرائی گئی، جنگلہ ایکسپریس کو کلین چٹ جرمنی کا ادارہ دے گا۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل یہ کلین چٹ دے چکا۔ کالم نگار موصوف پاکستانی اداروں سے تحقیقات کروانا چاہتے ہیں تو کرپشن کے ثبوتوں کے ساتھ نیب اور سپریم کورٹ سے رجوع کر لیں۔ آخر رینٹل پاور کیس سمیت کتنے ہی معاملات ہیں جن میں مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ رینٹل پاور کیس میں ق لیگ کے فیصل صالح حیات بھی مدعی تھے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بھی میٹرو بس کا معاملہ ہاتھ میں لیتے ہوئے جناب قمرالزمان کائرہ، چوہدری پرویز الہٰی اور خود کپتان کو لکھا تھا کہ ان کے پاس کوئی ثبوت موجود ہے تو مہیا کریں تا کہ تحقیقات میں آسانی ہو۔
تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں روا رکھی جانے والی دھن، دھونس اور دھاندلی پر کپتان کے لئے جذبہ خیر خواہی رکھنے والے کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں، یہاں تک کہ خود مدح سرا نے جو کچھ لکھا ،کیا اس کے بعد بھی ان انتخابات کو تحریک کے لئے کوئی فخر کی چیز کہا جاسکتا ہے؟ اب خود گھر کی گواہی ملاحظہ ہو۔ ایک انٹرویو میں پی ٹی آئی پنجاب کے سابق صدر اور کپتان کے معتمد خاص سعید اللہ خاں نیازی کا کہنا تھا کہ پارٹی میں چند کالی بھیڑیں عمران خان کو اصغرخاں کے نقشِ قدم پر چلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہیں پارٹی الیکشن منسوخ کر کے عام انتخابات پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ عمران خان اپنے اصل ایجنڈے پر رہیں تو 90 روز میں ملک کو مسائل سے نکال کر ترقی کے راستے پر ڈال سکتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، حامد خاں اور ان کے ساتھی ان کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ عمران خان ان لوگوں سے پارٹی اور خود کو بچا لیں۔ پارٹی الیکشن میں ہونے والی دھڑے بندیوں کا پی ٹی آئی کو عام انتخابات میں بہت نقصان ہوگا۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ پارٹی میں تمام چیزیں شفاف طریقے سے ہوں تو جعلی ڈگری کے ساتھ پارٹی میں شامل ہونے والوں کے خلاف بھی ایکشن لیں۔ خاص طور پر عائلہ ملک روس سے جو ڈگری لے کر آئی ہے اس کی تصدیق ایچ ای سی سے کروائیں۔ ہم کلین کپتان کو کلین ٹیم کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین