• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اس کالم کے ذریعے چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی اور ”چوہدری“ مشاہد حسین کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کرتا ہوں! اس کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ روز ان کی جماعت مسلم لیگ (ق) نے ایک عدد ”صوفیانہ دھمال“ کا اہتمام کیا جس کا انتظام و انصرام ان کی جماعت کے کلچرل ونگ کی ایک خاتون کے سپرد تھا اور مجھ تک اس دھمال کی دھمک تک نہ پہنچنے دی گئی جسے ہمارا میڈیا ”مجرا“ قرار دے رہا ہے، پاکستان کے (آج سے) سابق نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی کا سیکرٹری شفیق یوں تو آئے دن مجھے یہ ٹیلیفونک پیغام دیتا رہتا ہے کہ آج فلاں چینل پر چوہدری صاحب کا انٹرویو ملاحظہ فرمائیں۔ مگر جو کام کی اطلاع تھی، وہ ”پی“ گیا۔ خود چوہدری برادران بھی اپنے بچوں کی شادیوں میں مجھے مدعو کرتے رہے ہیں۔ متعدد بار میرے غریب خانے پر بھی تشریف لائے ہیں، بلکہ چوہدری پرویز الٰہی نے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننے کے فوراً بعد میرے ہاں قدم مرنجہ فرمایا، اس دوران کھانے کا وقت ہوا تو مجھے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا، مگر انہوں نے بھی خوبرو حسینہ کی مجھے ہوا تک نہیں لگنے دی۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
مگر بھلا ہو میڈیا کا کہ جس محفل کو چوہدری صاحبان نے مجھ سے خفیہ رکھا تھا، اس کی جھلک میڈیا نے ساری دنیا کو دکھا دی بلکہ اس کی ”کاپیاں“ الیکشن کمیشن کے پاس بھی پہنچ گئیں اور مجھے یقین ہے کہ اس کے معزز ارکان یہ ویڈیو بار بار چلا کر دیکھ رہے ہوں گے، صرف یہ جاننے کے لئے کہ رقاصہ کا کون کون سا انگ ایسا ہے جس کے ظاہر کرنے پر انتخابی قوانین کی دفعہ 62-63 کی خلاف ورزی ہوتی ہے؟ بلکہ ممکن ہے کہ اگر یہ خلاف ورزی کچھ زیادہ مقدار میں پائی گئی تو چیف جسٹس سپریم کورٹ عزت مآب چوہدری افتخار محمد بھی سوو موٹو نوٹس لینے کے لئے یہ ویڈیو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کریں اور اگر یہ سب کچھ ہوا تو یقینا یہ میری بددعا کا اثر ہو گا! بہرحال مجھے زیادہ افسوس بلکہ غصہ چوہدری شجاعت حسین صاحب پر ہے جو عمر میں مجھ سے بھی زیادہ بزرگ ہیں۔ وہ اس رقاصہ کی دھمال بہت انہماک سے دیکھ رہے تھے، رقاصہ نے غالباً عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی فرمائش پر کالی قمیص پہنی ہوئی تھی اور اس کے انگ انگ میں بجلیاں بھری ہوئی تھیں! چوہدری شجاعت حسین صوفی کونسل کے صدر ہیں۔ یہ صوفی کونسل ان کے مشہورِ زمانہ خاص صوفی کے نام کے حوالے سے قائم نہیں ہوئی بلکہ اس کا تعلق خالص تصوف کے حوالے سے ہے اور کئی امریکی صوفی بھی اس کونسل سے وابستہ ہیں۔ میں نے مان لیا کہ اس حوالے سے چوہدری صاحب کے لئے یہ صوفیانہ رقص دیکھنا ان کی منصبی مجبوری تھی مگر کیا انہیں علم نہیں کہ خود میں بھی ایک صوفی ہوں۔ ”پیرزادہ“ میرے نام کا حصہ ہے اور ایک طویل عرصے تک میں اپنا پورا نام ”پیرزادہ عطاء الحق قاسمی“ لکھتا رہا ہوں بلکہ ضیاء الحق کے زمانے میں جب حکومت مخالف کالم لکھنے میں میری سرکاری نوکری آڑے آئی تو میں نے ”پیرزادے کے قلم سے“ کالموں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ٹھیک ہے میں چوہدری صاحب کی ”صوفی کونسل“ کا عہدیدار نہیں ہوں۔ مگر ”تصوف“ کی اس قسم کی ”برکات“ میں سے کچھ حصہ مجھے ملنا تو چاہئے تھا جو رقاصہ نے جسمانی تبرک کے طور پر حاضرین میں وافر مقدار میں تقسیم کیا۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج کل کے صوفی بھی نجی ملکیت کے قائل ہوتے جا رہے ہیں!
رقاصہ نے جس گیت پر رقص کیا۔ اس کے بول تو مجھے یاد نہیں رہے اور رقاصہ نے یاد رکھنے کی کوئی گنجائش بھی نہیں چھوڑی تھی کیونکہ وہ تودراصل اعضاء کی شاعری کر رہی تھی، تاہم یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کون سے اعضاء کی شاعری تھی، موقع ملا تو میں یہ بات برادرم مشاہد حسین سے پوچھوں گا کہ وہ بھی اس شاعری کا بغور مطالعہ کر رہے تھے، لیکن جو جھلکیاں میں نے ٹی وی چینلوں پر دیکھیں، اس کے تناظر میں میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کوئی شعر اخلاق کا تو پتہ نہیں، وزن سے گرا ہوا نہیں تھا بلکہ دو ایک منظر تو خاصے وزنی تھے مگر وہ بھی ”قائم بالذات“ … ایک دو باتیں البتہ مجھے سمجھ نہیں آئیں اور وہ یہ کہ دھمالیں بزرگوں کے مزاروں پر ڈالی جاتی ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ مسلم لیگ (ق) خود کو مرحوم سمجھنے لگی ہے، اگر ایسا ہے تو کم از کم سیاسی طور پر اس کا اعتراف انہیں عین الیکشن کے دنوں میں نہیں کرنا چاہئے تھا، دوسرے یہ کہ آخر آج تک میری قسمت میں صرف ملنگوں کی دھمالیں ہی کیوں لکھی ہوئی ہیں ۔میں الجھی ہوئی داڑھی اور بالوں، گردن میں مالائیں ہاتھوں میں کڑے پہنے اور پیوند لگے کرتوں میں ملبوس ملنگوں ہی کو دھمالیں ڈالتے دیکھتا رہا ہوں۔ چوہدری صاحبان نے اگر انہیں پارٹی کا ثقافتی اور صوفیانہ تاثر دینا ہی تھا تو ”مقالہ قسم کی رقاصہ کی دھمال کی بجائے کسی ملنگ کو زحمتِ دھمال دیتے، جس کا فائدہ یہ ہوتا کہ ایک تو وہ میرے حاسدانہ اور مفسد قسم کی خیالات سے محفوظ رہتے اور الیکشن کمیشن کو اس رقاصہ کے خدوخال کا بغور معائنہ بوجہ 62-63 نہ کرنا پڑتا۔ تاہم چوہدری برادران کو اس رقاصہ کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ایک حوالے سے انہیں ایمبیرسیمنٹ (EMBARRASSMENT) سے بچا لیا یہ ”سانحہ“ اس صورت میں ہوتا اگر یہ رقاصہ مسلم لیگ (ق) کی محفل میں
”شہباز“ کرے پرواز تے جانے راز دلاں دے
کے بول پہ دھمال ڈالنے لگتی! بیشک یہ اللہ ہی ہے جو انسان کو ناگہانی آفتوں سے بچاتا ہے!
تازہ ترین