• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ)حکومت کی نالائقیوں کا حساب پھر کسی اور وقت۔ آج کے دن بڑی بات جمہوری حکومت کا پانچ سال مکمل کرنا ہے وہ بھی بغیر کسی آمرکی چھتری کے۔ یہ جمہوریت کی فتح ہے۔ جب جمہوری نظام تسلسل سے چلتا رہے گا تو صفائی ہوتی رہے گی۔ اگرچہ یہ بدترین جمہوریت تھی کیونکہ ملک ہر شعبے میں برسوں پیچھے دھکیل دیا گیا مگر پھر بھی یہ بہترین آمریت سے بہت اچھی تھی۔ اب ایک بار سب طرّم خانوں کوکڑے احتساب کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ احتساب کوئی جانبدار ادارہ نہیں کرے اور نہ ہی ایف آئی اے اور پولیس سیاستدانوں کا پیچھا کرے گی بلکہ وہ لوگ کریں گے جن کے پاس آئین کی رو سے اقتدار اعلیٰ ہے، یعنی اس ملک کے عوام۔ پاکستان میں جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں قاف لیگ کی حکومت نے اپنی معیاد پوری کی تھی ورنہ جمہوری حکومتوں کو تو دو تین سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا ۔ یہ سلسلہ 1985ء میں شروع ہوا اور 1999ء تک جاری رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پیپلزپارٹی مکمل پانچ سال اقتدار میں رہی۔ اب اس کے پاس کوئی یہ جواز بھی نہیں ہے کہ اسے کام نہیں کرنے دیا گیا اور اس کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے رہے۔ اب اس کے پاس کوئی نیا شہید بھی نہیں ہے جس کے نام پر یہ ووٹ حاصل کرسکے ۔ یوسف رضا گیلانی کی ”شہادت“ بے کار گئی ہے۔ اس حد تک کہ پیپلزپارٹی بھی اس کا ذکر شاید ہی کرتی ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کے سہارے کچھ ووٹ نہیں ملیں گے بلکہ بڑے نقصان کا خدشہ ہے۔ ان کے دور کی سب سے بڑی خصوصیت کرپشن تھی۔
بلاشبہ جمہوری نظام کے پانچ سال پورے کرنے کے پیچھے تین اہم اداروں اور سیاسی قوتوں کا کردار نمایاں ہے جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ ان کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو ایک بار پھر ”شہادت“ کا رتبہ نہیں مل سکا اور یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ سب سے اہم کردار چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ادا کیا ہے۔ جنہوں نے ہر لمحہ کھل کر یہ اعلان کیا کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیا جائے گا اور ہر فرد اور ادارہ اپنے دل سے یہ بات نکال دے کہ وہ اس نظام کو چلتا کرے گا۔ یہ کہہ کر وہ لگاتار غیر جمہوری قوتوں کو پیغام دیتے رہے کہ اب وقت گزر چکا جب سپریم کورٹ مارشل لاء کو جائز قرار دیتی تھی اور یہ کہ نظریہ ضرورت ہمیشہ کیلئے دفن ہوچکا۔ نہ صرف انہوں نے جمہوری حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے میں اہم مدد دی بلکہ ساتھ ساتھ اس کا کڑا احتساب بھی کرتے رہے۔ مگر افسوس کہ حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ لوٹ مار میں مگن رہی اور اعلیٰ عدلیہ خصوصاً چیف جسٹس کا مذاق اڑاتی رہی۔ اس کے علاوہ جسٹس افتخار چوہدری ان تمام قوتوں بشمول پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کے سامنے ایک ناقابل تسخیر دیوار بن گئے جب وہ جو عام انتخابات کو ملتوی کرانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کئی بار اعلان کیا کہ الیکشن میں ایک دن کی تاخیر بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔ جب کچھ نا عاقبت اندیشوں نے الیکشن کمیشن پر حملہ کردیا تو چیف جسٹس نے اپنا پورا وزن اس آئینی ادارے کے پلڑے میں ڈال دیا جس سے اسے نیا حوصلہ ملا۔ ہمارے ہاں ماضی میں ہمیشہ غیر آئینی اقدامات فوج اور عدلیہ کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہوتے رہے ہیں مگر 65 سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ اعلیٰ عدلیہ نے ایسے اقدامات کا حصہ نہ بننے کا صاف اعلان کر دیا۔ پیپلزپارٹی کو تو چیف جسٹس کا مشکور ہونا چاہئے کہ بے شمارمواقع پر جب اس کی حکومت چلتی نظر آئی تو انہوں نے اپنے انداز میں اس کو سہارا دیا۔ اس کی ان پر ظالمانہ تنقید احسان فراموشی ہے۔
جمہوری نظام کے پانچ سال مکمل ہونے میں نوازشریف کا کردار بھی کسی لحاظ سے کم نہیں۔ جب بھی ملک میں حکومت کے مختلف اقدامات مثلاً کیری لوگر بل، میمو گیٹ وغیرہ کی وجہ سے ایسا ماحول پیدا ہوا کہ فوجی مداخلت ہوتی نظر آ رہی تھی تو انہوں نے ڈٹ کر نظام کے تسلسل کی حمایت کی اور ساتھ ساتھ وارننگ بھی دی کہ ایسا کوئی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سنیٹ کے پچھلے انتخابات سے کئی ماہ قبل حکومت نے رٹ لگا رکھی تھی کہ بہت سی قوتیں اسے ایوان بالا میں اکثریت حاصل نہیں کرنے دیں گی ا ور اس کیلئے وہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس وقت بھی نوازشریف نے اعلان کیا کہ وہ ایسی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیں گے اور نہ صرف سنیٹ کے بلکہ عام انتخابات بھی وقت پر ہی ہوں گے۔ انہیں اپنی جماعت میں بھی سخت مخالفت کا سامنا تھا کیونکہ سخت گیر عناصر انہیں بار بار اس بات پر مجبور کر رہے تھے کہ اگر پیپلزپارٹی نے پورے پانچ سال مکمل کر لیے تو ملک کا مزید بیڑہ غرق ہو جائیگا۔ ان کے سگے بھائی شہبازشریف بھی ان میں شامل تھے۔ مگر انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور اس موقف پر ڈٹے رہے کہ چاہے کچھ بھی ہو انہوں نے حکومت کو غیر مستحکم نہیں کرنا۔ وہ بار بار اپنے ساتھیوں سے کہتے رہے کہ وہ 90ء کی دہائی کی سیاست کی طرف نہیں لوٹنا چاہتے جس میں محلاتی سازشوں کے ذریعے وقت کی حکومت کو الٹا دیا جاتا تھا۔ وہ اصولی سیاست کرنا اور ماضی سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہی ان کے مخالفین انہیں بار بار فرینڈلی اپوزیشن کا خطاب دیتے رہے۔ حکومت کی معیاد پوری کرانے میں ان کے کردار کے پیچھے ان کی یہ خواہش بھی پنہاں تھی کہ اگر وہ اقتدار میں آگئے تو پیپلزپارٹی بھی ان کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھے گی مزید یہ کہ اگر فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا تو وہ پھر ایک بار کئی سال تک اقتدار میں رہے گی اور وہ خود حکومت میں نہیں آسکیں گے۔
جمہوری نظام کے تسلسل میں فوج کے کردار کو نہ ماننا ناانصافی ہوگی۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں یہ ملک کئی سال پیچھے چلا گیا، باوجود اس کے کہ متعدد مواقع ایسے آئے جب حکومت کی وجہ سے مارشل لا لگتا نظر آرہا تھا اور باوجود اس کے کہ ہر طرف افرا تفری کا عالم رہا جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کسی بھی مہم جوئی سے پرہیز کیا۔ تاہم اندرون خانہ وہ حکومت کو اپنے انداز میں سمجھاتے رہے ۔ لہٰذا جمہوری نظام کے پانچ سال مکمل ہونے کا کریڈٹ ان اداروں اور سیاسی قوتوں کو جاتا ہے اس میں پیپلزپارٹی کا کمال نہیں ہے۔ خود اس کے سرکردہ رہنما بھی نجی محفلوں میں اپنی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں جو زبان زد عام ہے۔
تازہ ترین