• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ سال ہماری قومی قباامریکہ مخالف جذبات کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی جبکہ قومی سلامتی کے تحفظ کے نعروں سے وطن ِ عزیز کے درودیوار گونج رہے تھے ۔ لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد یکے بعد دیگرے پیش آنے والے دو واقعات، ایبٹ آباد میں بن لادن کے ٹھکانے پر امریکی کمانڈوز کی کارروائی اور سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے فوجیوں کی شہادت ،کے بعد گفتار کے غازی، حصہ بقدر جثہ، حب الوطنی کی شمشیر برہنہ ہاتھ میں لئے ہر ٹاک شو کو پانی پت بنائے ہوئے تھے جبکہ ہراول دستے کے طور پر ہمارے دفاعی اداروں کی من پسند تنظیم ”دفاع ِ پاکستان کونسل“ کے شعلہ بیان مقررین فضا کو گرما رہے تھے۔ ایسالگتا تھا کہ بیچاری تنہا (واحد) رہ جانے والی سپر پاور ابھی کھیت رہے گی۔
حب الوطنی کے جذ بات سرآنکھوں پر لیکن جائے حیرت ہے کہ اب جب قومی مفاد کے لئے اقامت کا وقت آیا تو بیشتر مجاہدین سجود میں گم ہیں۔ امریکہ پاک ایران گیس پائپ لائن، جو ہمارے لئے بے حد اہمیت کی حامل ہے، کے حوالے سے ہم پر دباؤ ڈال رہا ہے لیکن آج حب الوطنی کے میدان ِ کارزار میں بلند ہونے والے سب ترانے خاموش ہیں۔ آج یہ سکوت کیوں طاری ہے ؟امریکہ کے خلاف دھواں دھار تقاریر کرنے والے دائیں بازو کے خطیبان ِ عظام نے آج چپ کا روزہ کیوں رکھ لیا ہے، دفاع پاکستان کونسل والے اور حب الوطنی کی تبلیغ میں رات دن ایک کرنے والے بریگیڈ کہیں دکھائی کیوں نہیں دیتے ہیں، سب کو کون ساسانپ سونگھ گیا ہے، کس ساحر نے ان کی لب بندی کر دی ہے؟کیا وہ امریکہ کے ڈر سے خاموش ہیں؟ہر گزنہیں، یہ جری جوان” باطل“ سے دبنے والے ہر گزنہیں ہیں اور وہ فاٹا اور افغانستان میں طالبان کی عظمت کے گن گاتے ہوئے اس معروضے کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے اگرانہیں امریکی ڈر نہیں ہے تو پھریہ آگے بڑھ کر ایران سے گیس درآمد کرنے کے منصوبے پر حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اسے امریکی دباؤ برداشت کرنے کی ہمت عطا کیوں نہیں کرتے؟کیااس سکوت کی وجہ یہ تو نہیں کہ گیس ایران سے درآمد کی جاتی ہے اور ایران فقہ جعفریہ کے ماننے والوں کاملک ہے ؟اگر یہ معاملہ واقعی ایسا ہی ہے، جو مجھے شک ہے کہ ایسا ہی ہے، تو پھر آئیے اے اہل وطن اس بدقسمتی پر ”مل کے کریں آہ و زاریاں“ ۔ ٹھیک ہے کہ ہم مذہب کے نام پر خونریزی کے ماہر ہو چکے ہیں اور ہم نے فرقہ پرستی کے نام پر بہت بھیانک افعی پالے ہوئے ہیں لیکن آج معاملات اس قدر زہر آلود ہو چکے ہیں کہ قومی اہمیت کے معاملات کو بھی ہم مسلک کے متعصبانہ ترازو پر تولنے لگے ہیں۔
اب معاملہ یہ ہے کہ ہمارے دو دوست ممالک ، امریکہ اورایک برادر اسلامی ملک ، ایران کے ساتھ مسائل رکھتے ہیں، امریکہ سیاسی طور پر جبکہ یہ ا سلامی ملک نظریاتی لحاظ سے ، لیکن یہ مسائل ہمارے لئے درد ِ سر کیوں بن گئے؟ ہمارے لئے اس برادر اسلامی ملک کی دوستی بھی اہم ہے اور امریکہ کی بھی لیکن قوموں کی دوستی کو مسلکی بنیادوں پر استوار کرنا کہاں تک روا ہے؟ اور پھر ایران بھی ہمارا دوست ملک ہے اور یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے کہ ہم ایران سے کیا تجارت کرتے ہیں… بالکل جس طرح یورپ کو روس سے گیس لینے کی ضرورت ہے، ہمیں ایران سے گیس لینے کی ضرورت ہے۔ کیا توانائی کا بحران ہمارا قومی مسئلہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر اس کے حل کے لئے قومی کوشش درکار ہے۔ یہ گیس پائپ لائن اس ضمن میں ایک اہم قدم ہے، چنانچہ سیاسی اورمذہبی سطحوں سے بالا تر ہوکر ہمیں اس کے لئے حکومت کی حمایت کرنی ہے تاکہ وہ ہر قسم کا دباؤ برداشت کر سکے۔امریکہ کی ایران پر پابندیاں ایٹمی تجربات کی وجہ سے ہیں اور اس کے اپنے سیاسی مسائل ہیں جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایران ایٹمی طاقت حاصل کرے یا نہ کرے، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ اگر امریکہ اپنی کسی خودساختہ منطق کے مطابق پاکستان کو آنکھیں دکھائے یا دھمکی دے تو حکومت اور عوام کو ایک صف میں کھڑے ہو کراس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس کے لئے ضروری نہیں کہ ہم خطیبانہ انداز اپنائیں بلکہ اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑے ہو کرامریکی دباؤ کا مقابلہ کریں اور دلیل اور منطق سے بات کریں۔ اگر ہمارے دوست ہمارا موقف سمجھنے کی زحمت نہ کریں تو پھر دبے لفظوں میں اُن سے معذرت کرلیں ۔
یہ بھی درست ہے کہ ہم امریکی پابندیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے لیکن یہ بھی غلط نہیں ہے کہ ہمیں بطور قوم کسی کی دھمیکوں سے مرغوب ہونے کی پالیسی بدلنی چاہیے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ امریکہ کی ہر بات دانشمندی کے مطابق ہے؟تاریخی شواہد، جن سے ویت نام سے لے کر عراق ، افغانستان اور اسرائیل کی بلاچوں چراں حمایت کے ابواب رقم ہیں، امریکی دانائی کی تصدیق نہیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکہ نے ہمارے ایٹمی پروگرام کی بھی پوری شد ومد سے مخالفت کی تھی اور پاکستان کو صرف پابندیوں کی دھمکی ہی نہیں، پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا․․․ اور انواع واقسام کی پابندیوں کی زد میں آنے میں دنیا میں ہمارا حریف کوئی نہیں ہے۔ تاہم ہم نے ایٹمی پروگرام پر ثابت قدمی دکھائی کیونکہ تمام ملک میں اس بات پر اتفاق پایا جاتا تھاکہ قومی سلامتی کے لئے ایٹمی ڈیٹرنس کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ہمیں قومی محاذوں پر بہت سی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑالیکن اس محاذ پرہم نے کامیابی کو اپنے قدم چومنے پر مجبور کر دیا۔
ایٹمی طاقت کے حصول کے بعد گیس پائپ لائن ہمارے لئے ایک اور سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور چاہے امریکہ یا کو ئی اور ملک اس پر جتنے بھی اعتراضات اٹھائیں یا اس کی مخالفت کریں، ہمیں اسے حاصل کرنا ہے۔ چونکہ توانائی کا بحران ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے، اس لئے ہمیں نہ صرف ایران بلکہ قطر ، یا جہاں سے بھی دستیاب ہو، سے گیس کا حصول ممکن بنانا ہے۔ لیکن امریکی جن کی جمہوریت کے لئے ترجیحات کا پیمانہ ان کے اپنے مفاد کے خطوط سے وضع پاتا ہے ، بھی اس کے لئے دوستانہ جذبات نہیں رکھتے ہیں۔ چنانچہ آج ہماری خارجہ پالیسی کا بھی امتحان ہے… ایران سے گیس، چین سے دوستی اور دیگر اسلامی ملکوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات، بھارت کے ساتھ معتدل روئیے اور اسی دوران امریکہ کے ساتھ مضبوط تعلق۔خارجہ پالیسی کسی دوٹوک فارمولے کی بنیاد پر نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ ہمیں اپنے قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے اور تمام ممالک کے ساتھ مختلف جہتوں میں تعلقات قائم رکھنے ہیں۔ کیا کوئی پاکستانی حکمران جنرل ضیاء الحق، جو بڑی حد تک پاکستان میں فرقہ وارانہ جذبات کو سیاست کے میدان میں لانے کے ذمہ دار تھے، سے زیادہ سنی عقیدے کا حامل تھا؟اگرچہ ضیاء کوایک اسلامی ملک کی سیاسی اور مالی حمایت حاصل تھی پھر بھی اُن کے ایران سے گہرے تعلقات تھے۔ اُن کے جنازے میں بہت سے سربراہان ِ مملکت نہیںآ ئے تھے لیکن ایرانی صدر ضرور موجود تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گیس پائپ لائن منصوبے پر سب سے بڑا اور بجا اعتراض یہ ہے کہ اس کی پیش رفت میں بہت دیر کر دی گئی ہے اور اسے اُس وقت بنایا گیا ہے جب یہ حکومت چند ساعتوں کی مہمان ہے۔ اس کے بہت سے جواز پیش کئے جا سکتے ہیں ، مگر یہاں اُن کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ میں بہت سی چیزیں بروقت کر نی چاہیے تھیں مگر ہم نے تاخیر کر دی۔ دراصل ہم تاریخی طور پر ایسی قوم ہیں جو اُس وقت تک آمادہ ٴ عمل نہیں ہوتی جب تک خطرے کی سرخ لائٹ نہ جل اٹھے۔ ہم انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب پانی سر سے گزرے اور ہم کشتی بنانے کا قصد کریں۔ چنانچہ یہی کچھ ہمارے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے اٹھائے اقدامات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔ باقی معاملات کو چھوڑیں، سڑکوں کی تعمیر میں تو کوئی عالمی طاقت مانع نہیں ہوتی پھر بھی اگر اسلام آباد، جو حکومتی سرگرمیوں کا مرکز ہے، سے پشاور کشمیر ہائی وے کی توسیع گزشتہ تیس برسوں سے جاری ہے جبکہ اسلام آباد سے روات کی سڑک کی تعمیرمیں (اگر میری یادداشت ساتھ دے رہی ہے)بیس سال لگ گئے ہیں تو ایک ملک سے دوسرے ملک تک گیس پائپ لائن بچھانا تویقیناً پیچیدہ منصوبہ ہوتا ہے۔ ہمارے امریکی دوستوں کے بابت توقع ہے کہ وہ ایران سے معاملے پر آپے سے باہر ہوجائیں گے۔ وہ ہمیں بہت سی لالی پاپ دینے کی کوشش بھی کریں گے۔ ہمیں غیر جذباتی ہوئے بغیر ان کا جائزہ لینا چاہیے، اسی دوران ہمارے دفترِ خارجہ کے افسران کو چاہیے کہ وہ امریکی سفیر مسٹر اُلسن (Olson) کے ساتھ اعتماد سے بات کریں۔ اس سلسلے میں اگر مزید بات چیت کی ضرورت ہو تو امریکی دفتر ِ خارجہ سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ اُ ن کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ ایک سمجھ دار خاتون ہیں۔
ایک دوسرا اعتراض، جو پہلے اعتراض سے بھی بڑا ہے، وہ یہ ہے کہ صدر زرداری، جن پر بہت سے الزامات ہیں، کا نام اس منصوبے میں شامل ہے۔ اس سے بہت سے رجائیت پسند لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔تاہم معاملہ یہ ہے کہ اُن کی صدارتی مدت اس سال کے اختتام تک چلے گی اور اگر انتخابی نتائج نے موجودہ سیٹ اپ کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ برقرا ر رکھا تو اُ ن کی مدت ِ صدارت ابھی دیر تک چلے گی۔ یہ صورت ِ حال امریکی پابندیوں سے بھی زیادہ خراب ہو گی۔اگر ہماری قسمت مزید خراب نہ ہوئی تو وہ خاموشی سے گھر چلے جائیں گے۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں، بھٹو نے ایٹم بم کا منصوبہ بنایا مگر کریڈٹ کسی اور نے لیا۔ یہاں بھی گیس پائپ لائن کا منصوبہ مسٹر زرداری بنا رہے ہیں اور؟
بہرحا ل یہ ہماری قومی سلامتی کی آزمائش ہے۔ جذباتی نعرے جو ہم نے گزشتہ سال سنے تھے، وہ کھوکھلے غبارے تھے لیکن اصل امتحان یہ ہے ۔کیا ہمارے دفاع پاکستان کونسل کے دوست اپنے حب الوطنی کے میناروں سے ایران سے گیس درآمد کرتے ہوئے امریکی دباؤ کو مسترد کرنے کی حمایت کریں گے ؟ قسمت ہمیں اُس مقام پر لے آئی ہے جب ہمیں فرقہ واریت اور قومی مفاد میں سے ایک راہ کا انتخاب کرنا ہے۔
تازہ ترین