• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: دینی مسائل اور دینی تعلیمات کو عوامی حلقوں میں پیش کرنے کا سنت طریقہ کیا ہونا چاہیے ،ایسے انداز میں دینی مسائل پیش کیے جاتے ہوں، جس سے دین کا وقار مجروح ہوتا نظر آئے ،مثلاً: انتہائی غیر سنجیدہ ، غیر مہذب یا تمسخرانہ انداز میں دینی مسائل پیش کرنا ،جس سے ہدایت کا حصول کم اور تفریح طبع زیادہ محسوس ہو یا پھر سوقیانہ اور بازاری زبان استعمال کرنا ، عوامی حلقوں میں جنسی مسائل پر گفتگو کرنا وغیرہ،اس بارے میں کیا حکم ہے؟(محمد عابد چشتی ،کراچی )

جواب: قرآن مجید کی تمام تر تعلیمات مستحکم دلائل اور عام فہم مثالوں پر مشتمل ہیں اور اِسی نہج پر رسول اللہ ﷺ کو دعوت دینے کا اسلوب ارشاد فرمایا:’’ آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اورعمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اوراَحسن طریقے کے ساتھ ان پر حجّت قائم کیجیے ۔بے شک آپ کا رب ان کو بہت جاننے والا ہے ،جو اس راستے سے بھٹک گئے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جاننے والا ہے،(سورۃ النحل:125)‘‘۔اس آیتِ مقدسہ میں دعوت دین کے تین بنیادی اصول بیان ہوئے ہیں:حکمت، موعظۂ حسنہ اورجدالِ اَحسن یعنی عمدہ طریقے سے ،مُدلَّل انداز میں بحث کرنا ،اس سے محض اپنے نفس کی تسکین اور فریقِ مخالف پر غلبہ پانا مقصودنہ ہو،بلکہ بحث کااصل مقصد تویہ ہونا چاہیے کہ بات فریقِ مخالف کے دل میں اترجائے ،اس کے ذہن کو اپیل کرے ،جسے ہم اردو میں قائل کرنا کہتے ہیں ،اصلاح مقصود ہو ۔

اگر دعوتِ اسلام کے داعی کے طور پر رسول اللہ ﷺکی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر عیاں ہوتا ہے کہ آپﷺ نے دعوت و تبلیغ کے فریضہ کو ادا کرتے وقت ان اصولوں کی پاس داری فرمائی اور آپ ﷺکے تربیت یافتہ صحابۂ کرام ؓکے کردار میں بھی انہی اصولوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ ایک غیر تربیت یافتہ داعی دعوتِ دین کے لیے کس قدر غیرموزوں ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے پیر محمدکرم شاہ الازہری ؒ لکھتے ہیں:’’ایک نادان اور غیرتربیت یافتہ مبلغ اپنی دعوت کے لیے اُس دعوت کے دشمنوں سے بھی زیادہ ضرررساں ہوسکتا ہے۔ اگر اس کے پیش کیے ہوئے دلائل بودے اور کمزور ہوں گے، اگر اس کا اندازِ خطابت درشت اور معاندانہ ہوگا، اگر اس کی تبلیغ اخلاص و للہیت کے نور سے محروم ہوگی تو وہ اپنے سامعین کو اپنی دعوت سے متنفر کردے گا ،کیونکہ اسلام کی نشر و اشاعت کا انحصار تبلیغ اور فقط تبلیغ پر ہے، اس کو قبول کرنے کے لیے نہ کوئی رشوت پیش کی جاتی ہے اور نہ جبر و اِکراہ سے کام لیا جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ایمان، ایمان ہی نہیں، جس کے پس پردہ کوئی دنیوی لالچ یا خوف و ہراس ہو، اس لیے اللہ تعالی نے خود اپنے محبوب مکرمﷺ کو دعوت اسلامی کے آداب کی تعلیم دی، (ضیاء القرآن، جلد2)‘‘۔

البتہ اگر ایک انداز سے دین کی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو کسی ایسے دوسرے پیرائے میں بیان کرسکتے ہیں ،جس کا فہم مخاطَب کے لیے آسان ہویا اسے قائل کرسکے ،قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک ہی مضمون کو جابہ جا مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے اور اس کی حکمت کی بابت فرمایا : ’’ ہم بار بار مختلف انداز سے آیات کو بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ کہیں کہ آپ نے (کسی سے) پڑھاہے اور تاکہ ہم اس قرآن کو علم والوں کے لیے بیان کردیں ،(سورۃ الانعام:105)‘‘۔

دعوت و تبلیغ میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ داعی مخاطَب کی ذہنی استعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی دعوت پیش کرے۔ اگر داعی عام مخاطب کی ذہنی استعداد کو نظر انداز کرتے ہوئے منطقی استدلال اور فلسفیانہ بحثیں شروع کردے یا کسی صاحب علم اور دانشور شخص کو دعوت دیتے وقت گفتگو کا غیرعلمی اور غیر عقلی اسلوب اختیار کرے، تو اس صورت میں دعوت کے مؤثر ہونے کی توقع رکھنا فضول ہے۔ دیلمی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اُن کی ذہنی استعداد کے مطابق کلام کریں ، (کنزالعمال:29282)‘‘۔

(…جاری ہے…)

تازہ ترین