• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر : محمد رجاسب مغل۔ بریڈفورڈ
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیاں ایک اہم مسئلۂ بن چکی ہیں جس کی لپیٹ میں مختلف ممالک آ رہے ہیں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ گلوبل وارمنگ میں اضافے کے باعث دنیا کے اوسط ٹمپریچر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں قدرتی آفات میں اضافہ ہورہا ہے، موسمیاتی تغیراور قدرتی آفات دنیا کےلئے بہت بڑا چیلنج ہے، قدرتی آفات، آئے روز نئی بیماریوں ،وائرس اور کینسر جیسی موذی بیماریوں کی وجہ سے پوری دنیا میں خوف وہراس پایا جاتا ہے ماہرین اس کی وجہ ماحولیات کی تبدیلی قرار دے رہے ہیں، سائنسی اعداد وشمار کی روشنی میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ پچھلے ایک سو سال کے دوران جتنی بھی قدرتی آفات آئی ہیں ان کی شدت میں حالیہ دس سالوں کے دوران تیزی آئی ہے۔ ’جو سیلاب پہلے بیس سالوں میں ایک دفعہ آتے تھے اب ہرپانچ سال بعد آنے لگے ہیں۔‘ سائنسدانوں نے بھی پیش گوئی کی ہے کہ اگر بڑھتی ہوئی عالمی حدت اورکاربن کے اخراج پر قابو پانے کے اقدام نہ کیے گئے اور 2050 تک مغربی چوٹیوں کی برف پگھل گئی تو امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک کے شہر طوفان اور سیلابوں کی نذر ہو سکتے ہیں، کچھ ماہ قبل آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ کی تباہ کاریاں، چین میں کرونا وائرس سے ہلاکتیں بھی ماحولیات کی تبدیلی کی کڑیاں تصور کی جارہی ہیں، حالیہ بارشوں سے برطانیہ کے بعض علاقوں میں بھی جو سیلابی صورت حال ہے، اس سے مقامی آبادیاں زیر آب آ چکی ہیں، اس کی وجہ بھی موسمیاتی تبدلییوں کو ہی قرار دیا جارہا ہے ۔انٹرنیشنل پینل آن کلائمنٹ چینج‘ کی تازہ ترین رپورٹ میں انسانی سرگرمیوں کو بھی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث قرار دیاگیا ہے، دنیا کے درجہ حرارت میں انیسویں صدی کے اختتام تک ایک اعشاریہ سے چار ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا جبکہ نئی صدی کے آغازکی تھیم کلائمنٹ چینج بن کر سامنے آچکی ہے، اس کے ساتھ ہی کرونا وائرس نے بھی پوری دنیا میں تھر تھلی مچا دی ہے، یورپ کے ترقی یافتہ ممالک اس کی لپیٹ میں آ کر بے بس نظر آ رہے ہیں، پوری دنیا میں اس وقت ماحولیاتی انحاط کی وجہ سے کرہ ارض میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور اس کے نتیجے میں نوع انسانی کے لئے مستقبل میں درپیش مشکلات ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں ،جن کے تدارک کےلئے عالمی سطح پر متعلقہ اداروں کی طرف سے دور رس نتائج کے حامل فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے، برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں سکولوں اور مساجد میں موسمی تبدیلیوں اور ماحولیات کے حوالے سے آگاہی مہم شروع کر دی گئی ہے، بریڈفورڈ کے سکولزکے بچے مارچ کے پہلے ہفتے میں پیدل یا سائیکل کے ذریعے سکول میں آکر اس آگاہی مہم میں حصہ لے رہے ہیں، ان کا مقصد کمیونٹی کو گاڑیاں کم سے کم استعمال کرنے کی ترغیب دلانا ہے تاکہ فضا میں کاربن کا اخراج کم ہو، مساجد میں بھی اسلامی نقطہ نظر کے تحت فضا کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے شجر کاری کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق ڈسٹرکٹ بریڈ فورڈ میں فضائی آلودگی کی وجہ سے ایک سال میں 191 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس سال کے آغاز میں برطانیہ کے بڑے شہروں میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، یارکشائر کے بڑے شہروں اور قصبوں میں 24 میں سے ایک موت فضائی آلودگی کی وجہ سے واقع ہوئی جبکہ ٹریفک حادثات سے ہونے والی اموات کی علاقائی شرح 21 گنا زیادہ ہے۔اعدادوشمار کے مطابق بریڈفورڈ میں سال2017 میں فضائی آلودگی کے مہلک ٹاکسن پارٹکیولیٹ مادہ جو2.5 مائکرو میٹر سے بھی کم ہوتا ہے سے 25 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی ہلاکتوں کی شرح چار اعشاریہ تین رہی ۔ یارکشائر میں فضائی آلودگی سے اموات کی شرح کا سب سے زیادہ تناسب علاقہ ہُل میں ہے ، جہاں صرف ایک سال میں 128 اموات ہوئیں ، سٹی زون میں کار اور وین ڈرائیوروں کو چارج کرنے کے لئے الٹرا لو اخراج زون متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ ایسے علاقے جہاں فضائی آلودگی زیادہ ہے ان علاقوں میں لکڑی جلانے والے چولہے اور کوئلے کی آگ کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے،مقامی سیاستدانوں کو بھی فضائی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ شہروں کو فضائی آلودگی سے لڑنے میں مدد کے لئے کلین ایئر فنڈز کے سائز کو تین گنا تک بڑھانے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ بریڈفورڈ سمیت برطانیہ کی مختلف کونسلوں نے کلائمنٹ چینج اور اس کے اثرات سے نکلنے کے لیے اضافی فنڈز مختص کیے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحول کا تحفظ صرف حکومت کا فرض نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں بڑی تیزی سے انسانی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہیں، اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا بنا کر معاشرہ کو صحت مند بنایا جاسکتا ہے۔ 
تازہ ترین