• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کے ساتھ ایک طویل دورانیے سے دو لوگ تھے جو اُس کے کان بھی تھے اور آنکھیں بھی۔ ایک شخصیت کو قضائے الٰہی اٹھا کر لے گئی۔ دوسری کو افسوس صد افسوس کہ عمران خان نے اپنی بزم سے اٹھا دیا۔ یہ افتخار درانی ہیں۔ ان کے خلاف ایک خفیہ رپورٹ نے کپتان کا دل میلا کر دیا۔ 

قصہ خاصا پرانا ہے۔ جب کیئر ٹیکر حکومت تھی تو اس وقت ایسی رپورٹس دینے والی شخصیت کیخلاف نگران وزیراعظم کو خط لکھا گیا تھا کہ اس کی موجودگی میں فیئر الیکشن ممکن نہیں۔ سو اسے ہٹا دیا گیا۔ یہ خط افتخار درانی کے کہنے پر علی زیدی نے لکھا تھا۔ 

کیا حسین اتفاق ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے انتخابات منصفانہ نہیں ہو سکتے تھے۔ حکومت آئی تو اس کو دوبارہ وہی عہدہ دے دیا گیا۔ وہ شخصیت جیسے ہی اپنے عہدے پر واپس آئی۔ افتخار درانی زد میں آ گئے۔ پہلے تو انہیں پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے یہ کہہ کر نکلوایا گیا کہ فاٹا کے معاملات افتخار درانی سے بہتر کوئی نہیں دیکھ سکتا اس لئے انہیں پشاور بھیج دیا جائے۔ 

افتخار درانی نے فاٹا کے معاملات بہت ہی خوش اسلوبی سے مکمل کرائے مگر بھیجنے والوں نے انہیں واپس پرائم منسٹر سیکرٹریٹ نہیں پہنچنے دیا حالانکہ پانامہ کے معاملات میں، گلالئی کے مسئلہ میں، ریحام خان کی کتاب کے قصے میں، انتخابات میں افتخار درانی وہ واحد شخص ہیں جن کے متعلق عمران خان کہا کرتے تھے کہ یہ وہ شخص ہے جس کا دل اور دماغ دونوں زبردست ہیں۔ 

عامر کیانی سے بھی ایسی ہی ایک رپورٹ پر وزارت واپس لی گئی تھی مگر عامر کیانی اُس رپورٹ کو غلط ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس لئے عمران خان نے انہیں پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنا دیا۔ جہانگیر ترین کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے مگر شک کے بیج بڑے خطرناک ہوتے ہیں، کرونا وائرس کی طرح پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ 

افتخار درانی نے شاید اسی وائرس سے بچنے کے لئے استعفیٰ دیا ہے۔ وہ پی ٹی ایم کے معاملات پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ مارچ میں جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس میں بھی پی ٹی ایم کا کردار خاصا اہم ہے۔ سوچتا ہوں کہیں پی ٹی ایم کا کوئی ہمدرد وزیراعظم ہائوس میں تو موجود نہیں۔

علیم خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا ہے۔ ہارون الرشید کو بھی اِسی طرح اُن سے دور کیا گیا۔ اسی طرح ڈاکٹر شعیب سڈل کو بھی اُن کے قریب نہیں آنے دیا جا رہا۔ اگر وہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں ہوتے تو کوئی سازش کامیاب نہ ہوتی۔ اطلاعات یہی ہیں کہ عمران خان کے حقیقی دوست ایک ایک کرکے اُن سے دور کئے جارہے ہیں تاکہ وہ تنہا ہوتے چلےجائیں۔ ان کے اندر خاموشی سے احساس بڑھایا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ جو ٹیم ہے وہ اچھی نہیں، کرپٹ ہے۔ 

انہیں نئی ٹیم بنانے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے پانچ سال جب خیبر پختونخوا کی حکومت پی ٹی آئی کے پاس تھی تو ان لوگوں نے کوئی کرپشن کیوں نہیں کی۔ یہ لوگ اُس صوبے میں کیا نہیں کر سکتے تھے۔ کیا یہی ٹیم پانامہ کے وقت فروخت نہیں ہو سکتی تھی اور بھی کئی مراحل آئے مگر کہیں لعزشِ پا نہیں آئی۔ عمران خان نے اقتدار اِسی ٹیم کے ساتھ حاصل کیا۔ 

اب وہی ٹیم ناکارہ قرار دی جا رہی ہے۔ پرویز خٹک پر بھی کئی وار ہو چکے ہیں مگر وہ بڑے محتاط ہیں۔ اِس وقت علی زیدی اور مراد سعید کے نمبر لگ چکے ہیں۔ انہیں بھی خصوصی احتیاط کا مشورہ ہے۔ اسد عمر کے ساتھ بھی کچھ اچھا نہیں ہوا۔ وہ بھی خوبصورت دل و دماغ رکھنے والی شخصیت ہیں، تحمل والے آدمی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر اسد عمر ابھی تک وزیر خزانہ ہوتے تو مہنگائی کاعفریت قابو میں آ چکا ہوتا۔ 

بیشک اس وقت بھی اسد عمر وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی پوری مدد کررہے ہیں مگر خود ڈرائیونگ کرنا اور کسی اور کو بتانا دو مختلف عمل ہیں۔ پٹرول کی قیمت خاصی کم کرنے کی کوشش جاری ہے کیونکہ مہنگائی کے معاملے میں یہی ابوالخبائث ہے۔ دیکھتے ہیں کتنے روپے کم کی جاتی ہے۔

اس وقت عمران خان کے ارد گرد دو طرح کے لوگ جمع کئے جارہے ہیں مگر ان دونوں قبیل کے لوگوں کی مثال پرندوں جیسی ہے جو موسم بدلنے سے پہلے پرواز کر جاتے ہیں۔ ان میں ایک توسیاستدان ہیں اور دوسرے بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس۔ ان دونوں ’’کریٹس‘‘ (kratos)کا پاکستان میں عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ پاور اقتدار کی ہو یا ٹیکنالوجی کی۔ ہمارے یہاں وہ صرف خواص تک محدود ہے۔ 

اگرچہ ہم کہتے یہی ہیں کہ جمہوریت کا سر چشمہ عوام ہیں مگر اس چشمے کی حالت جتنی بری ہے۔ وہ بتانے کی نہیں دکھانے کی چیزہے۔ قومی اسمبلی کے مونوگرام پر تین لفظ درج ہیں، جمہوریت، حاکمیت اور مساوات۔ حاکمیت تو بہرحال موجود ہے۔ جمہوریت کا بھی نام لیا جاتا ہے مگر مساوات کا لفظ صرف اسمبلی کے نشان تک باقی رہ گیا ہے۔ یہاں کچھ بھی برابر نہیں۔ حتیٰ کہ اسکول بھی جدا جدا ہیں۔ اسپتال بھی۔

 مساوات کی آخری آواز ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں تختہِ دار پر لٹک گئی تھی۔ بےشک بھٹو بھی صرف نعرے کے طور پر مساوات کا نام لیوا تھے مگر کوئی آواز تو موجود تھی۔ عمران خان نے بھی نعرہ تو تقریباً یہی لگایا تھا کہ ’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ مگر میرا خیال ہے کہ انہیں یاد نہیں رہا۔ پی ٹی آئی کا کوئی منچلا یہ نعرہ جا کر وزیراعظم ہائوس کی دیوار پر لکھ آئے تو لطف آ جائے۔

یہ کہاں سے کہاں نکل آیا ہوں۔ عمران خان کی ٹیم زیر بحث تھی۔ لگتا ہے کہ وزیر قانون فروغ نسیم کا بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ وہ بیرسٹر خالد جاوید خان کو اٹارنی جنرل نہیں بنانا چاہتے تھے۔ اُن کے خیال میں خالد جاوید خان نے اٹارنی جنرل بننے کے لئے یہ شرط عائد کر رکھی ہے کہ وہ فائز عیسیٰ کے کیس میں پیش نہیں ہونگے اس لئے انہیں اٹارنی جنرل نہ بنایا جائے۔

وہ اعلان ہونے سے پہلے رات دیر تک کوشش کرتے رہے مگر عمران خان نے اپنے حتمی فیصلہ کا اعلان رات کو ہی کرا دیا۔ خالد جاوید خان کا بھی پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ پیپلزپارٹی کے معروف سیاست دان این ڈی خان کے بیٹے ہیں۔ وہ نگران حکومت میں اٹارنی جنرل بنائے گئے تھے۔ 

میں نے پی ٹی آئی کے رہنما سے پوچھا کہ عمران خان نے اِس منصب کےلئے پی ٹی آئی کے وکلا کو کیوں نظر انداز کیا تو اس نے کہا ’’صورتحال یہ ہے کہ اب مشورہ دینے والوں میں پی ٹی آئی کا کوئی آدمی شامل ہی نہیں‘‘۔

تازہ ترین