• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1993 کے انتخابات میں صرف دس بارہ ارکان کی اکثریت سے پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی توتجزیہ نگاروں کو خیال گزرا کہ اب قومی اسمبلی اور حکومت 80رکنی اپوزیشن کی مرضی کے بغیر قانون سازی کرسکے گی نہ بجٹ منظورکرانا اس کے بس میں ہوگا۔
میں نے یہی بات حاجی سیف اللہ خان سے کہی توآئینی ماہر اورتجربہ کار پارلیمنٹرین نے کہا ”اپوزیشن کو تعداد نہیں اہلیت و صلاحیت‘ ‘ کے معیارپر پرکھنا چاہئے۔ 1970کی اسمبلیوں میں منحنی اپوزیشن محض اپنے علم،تجربے، کرداراوراہلیت و صلاحیت کے بل بوتے پر چھائی رہی اورمقبول عوامی حکومت کوزچ کرکے رکھ دیا مگر موجودہ اپوزیشن اس وصف سے خالی ہے سوکچھ نہیں ہوگا“
مجھے یہ واقعہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والی اسمبلیوں، حکومتوں اوراپوزیشن کی کارگزاری کے حوالے سے شائع ہونے والے جائزو ں اورتبصروں کو پڑھ اور سن کریاد آیا۔ ضد، ہٹ دھرمی اور غلط بیانی کا تو کوئی علاج ہی نہیں مگر ہر انصاف پسند پاکستانی جانتا ہے کہ جتنا فری ہینڈ موجودہ اسمبلیوں اور حکومتوں کو ملا شاید لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور ذوالفقارعلی بھٹو کو بھی نہ ملا ہوگا۔ فوج غیرجانبدار، بیوروکریسی، تابعدار، اپوزیشن فرینڈلی اور عوام بیچارے صبح سے شام تک ایک وقت کی دال روٹی کے حصول کی جان جوکھم جدوجہد میں مگن، کوئی برا نہ منائے توگلیاں سنجیاں تھیں جہاں مرزا یار کو پھرنے کی کامل آزادی تھی مگر محال ہے کہ کسی نے عوام کی خدمت، ملک کی ترقی اور جمہوریت کے استحکام کے لئے سوچنے کی زحمت گوارا کی ہو۔ اپنی جھولیاں بھرنے اور اپنی اگلی تین چار نسلوں کو سنوارنے کے لئے سب نے حسب توفیق تدبیرکی۔
لوٹ کھسوٹ کابازار ایساگرم ہوا کہ ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز اور دیگر قومی ادارے قومی خزانے پربوجھ بن گئے ، دہشت گردی نے ملک کی چولیں ہلا دیں، بدامنی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیااور نااہلی و نالائقی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے مگر کسی نے اسمبلیوں اور حکومتوں سے چھیڑچھاڑ مناسب نہ سمجھی تاکہ کسی نااہل، بدکردار، لٹیرے اوراقتدار پرست کویہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ اس نے توملک میں دودھ شہد کی نہریں بہانے اور عوام کو روٹی، روزگار، امن و سکون فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرلی تھی مگر فوج ا ور اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ سے مل کر ہماری چھٹی کرادی اور عوام جمہوریت کے فیوض و برکات سے محروم رہ گئے۔
موجودہ حکمرانوں اور اسمبلیوں کے نامہ اعمال کا کل اثاثہ کیاہے؟ عدلیہ کی مزاحمت، فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل، بجلی و گیس کی بندش، احتساب بل اور کاؤنٹر ٹیرر ازم بل کی منظوری سے گریز، دہشت گردی کے قومی مسئلہ سے نمٹنے اور ڈرون حملوں کی روک تھام کے بارے میں اپنی قراردادوں پرعملدرآمد میں ناکامی اورقومی سرمائے کی لوٹ مار سے مجرمانہ چشم پوشی، رینٹل پاور پراجیکٹس میں ہوشرباکرپشن کا پتہ چلا تو پارلیمینٹ سے مایوس ہو کر ارکان پارلیمینٹ مخدوم فیصل صالح حیات اورخواجہ آصف نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور نیٹو سپلائی کی بحالی کا فیصلہ بندش کی طرح فوجی قیادت نے کیا۔ پارلیمینٹ بے چاری ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی رہی۔
اٹھارہویں، انیسویں اوربیسویں آئینی ترمیم کا ڈھنڈورا ضرور پٹا مگر اٹھارہویں ترمیم کے طفیل تعلیم صوبوں کے سپرد ہوئی اور اب جملہ ماہرین تعلیم متفق ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور ہائر ایجوکیشن صوبائی محکمہ تعلیم کے رحم و کرم پر رہی تو یونیورسٹیوں کا حال سکولوں سے بدتر ہوگا جبکہ صوبوں کی تشکیل نو کے مسئلہ کو حل نہ کرکے نیا پنڈورابکس کھول دیا گیاہے جو نسلی، لسانی اور علاقائی اکائیوں میں منافرت اور کشیدگی کا سبب بن رہی ہے۔
پارلیمینٹ اورصوبائی اسمبلیوں میں حکومت اپوزیشن محاذ آرائی جاری رہی مگر ارکان اور حکمرانوں کی مراعات اور سہولتوں میں اضافے کے لئے ہمیشہ اتفاق رائے سامنے آیا۔ اتفاق رائے سے بننے والے الیکشن کمیشن پر تبرہ کرنے میں بھی دونوں طرف کے ارکان کی زبانیں قینچی کی طرح یکساں چلتی رہیں اور پاکستانی پارلیمینٹ میں پھولن دیویوں اور دیگر عالمی شہرت کے ڈاکوؤں کی جگہ بنانے کی آرزو بھی سب کے دل میں مچلتی رہی۔ سپیکر قومی اسمبلی اوروزیر داخلہ نے اپنے لئے زندگی بھر کی مراعات اور سہولتوں کا نوٹیفکیشن جاری کرالیا۔ وزیراعظم اپنے خاندان کے لئے ایک یورپی سفیر سے بیس ملکوں کے ویزے کی بھیک مانگتے رہے۔ ایک ایک ڈالرکے لئے امریکہ ویورپ کے دباؤکو برداشت کرنے والے ملک کے وزیراعظم حضرت معین الدین اجمیری کے مزار پرماتھا ٹیکنے کے لئے سرکاری خزانے کا استعمال کرتے رہے مگر پارلیمینٹ کی جبین پرکوئی شکن نہ آئی حتیٰ کہ صدر نے اچانک پاک ایران گیس پائپ لائن کا افتتاح کر دیا۔ پارلیمینٹ کو یہ بحث کرنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ اتنے بڑے منصوبے کے فوائد کیا ہیں اور عالمی اقتصادی و معاشی پابندیوں، دوگنا نرخوں اوربروقت مکمل نہ ہونے پر کروڑوں ڈالر جرمانہ ادا کرنے کے نتائج و عواقب کیا ہوں گے؟
سچ کہا تھا حاجی سیف اللہ خان نے حکومت ہو، اپوزیشن یا اسمبلی تینوں کی کارگزاری اور اہلیت و قابلیت ہی پرکھنے کا درست پیمانہ ہے مدت یا عددی اکثریت نہیں۔ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ یہ اسمبلیاں اپنی مدت کے اختتام پر ناکامی، نالائقی، کوتاہ اندیشی اور عوامی مسائل سے مجرمانہ چشم پوشی کا داغ سجا کر رخصت ہو رہی ہیں۔ برطانوی پارلیمینٹ کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ مرد کو عورت اورعورت کو مرد قراردینے کا اختیار رکھتی ہے۔ فعل قوم لوط کو اس نے جائز قرار دیدیا ہے خدانخواستہ اگر ہماری پارلیمینٹ بھی اختیاراور بالادستی کے زعم میں اپنی مدت بڑھا لیتی، قوم کی مصائب ومشکلات کا د ورانیہ طویل ہوجاتا تو ہم آپ کیا کرلیتے۔جنگل کے شیروں سے کون پوچھتا انڈے دیتے دیتے آپ اچانک ہی ظلم کے بچے کیوں جننے لگے خداکرے نئے انتخابات ایسی ہی کسی بے فیض، بے عمل اور انتظامیہ کی کاسہ لیس پارلیمینٹ کو وجود میں لانے کا باعث نہ بنیں جسے قوم کے پانچ سال ضائع کرنے کا ملال تک نہ ہو۔
تازہ ترین