• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی اپنے اصل جوہر کی طرف لوٹ آیا ہے۔ یہ شہر ایک بار پھر ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے۔ تین روزہ کراچی لٹریچر فیسٹیول جاری ہے اور آج اس کا آخری دن ہے۔ اس ادبی میلے میں لوگوں کی بھرپور شرکت شہر کے مزاج کا پتا دیتی ہے۔ دعا ہے کہ کراچی کو کسی کی نظر نہ لگے اور دوبارہ بدامنی کے عذاب کا شکار نہ ہو۔

کراچی لٹریچر فیسٹیول کے ساتھ ساتھ کتب میلے، عالمی اردو کانفرنس اور سندھ لٹریچر فیسٹیول سمیت کئی ادبی اور ثقافتی میلے سالانہ بنیادوں پر منعقد ہو رہے ہیں۔ ایک سالانہ کتب میلہ کراچی کے ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوتا ہے۔ یہ میلہ بہت بڑے پیمانے پر ہوتا ہے اور اس میں لوگوں کی شرکت حیرت انگیز طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ 

مرد، خواتین، بچے، جوان اور بزرگ بہت بڑی تعداد میں صبح سے رات تک اس میلے میں نہ صرف موجود رہتے ہیں بلکہ کتابوں کی فروخت بھی عام اندازے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس سالانہ کتب میلے کے علاوہ شہر میں سال بھر درجنوں کتب میلے منعقد ہوتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کا کتب میلہ ابھی چند دن پہلے اختتام پذیر ہوا ہے۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول، سندھ لٹریچر فیسٹیول اور عالمی اردو کانفرنس سالانہ کی بنیاد پر ایسے ایونٹس ہیں، جن میں کراچی کے لوگوں کی تو بہت بڑی تعداد شرکت کرتی ہی ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان اور دنیا بھر سے اہم شخصیات بھی ان میں شریک ہوتی ہیں۔ یہ تینوں میلے کراچی کی ثقافتی پہچان بن گئے ہیں۔

ان کا لوگ شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو اپنی نوکریوں اور کاموں سے چھٹی کرکے خاص طور پر ان میلوں میں اپنی کل وقتی موجودگی کو یقینی بناتے ہیں۔ لوگوں کا جوش وخروش دیدنی ہوتا ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ موبائل فون اور سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کا مطالعہ اور کتب بینی کا شوق ختم ہو گیا ہے۔ ان میلوں میں جاکر پتا چلتا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے۔ کتابوں کے سینکڑوں اسٹالز لگے ہوتے ہیں اور ہر سال ان پر لوگوں کا رش ہوتا ہے۔ عالمی اور پاکستانی ادب، تاریخ، فلسفہ اور پیچیدہ سائنسی موضوعات پر کتابوں کی خریداری کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ 

وہاں کھڑے ہوئے لوگوں کو بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی کے لوگ مزاجاً لبرل اور ترقی پسند ہیں۔ کتابوں کے انتخاب سے ان کے ذہنی رجحانات کا پتا چلتا ہے۔ ہم یہ بھی سمجھتے تھے کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا آنے کے بعد ادبی، تنقیدی، سیاسی اور فلسفیانہ مباحث ختم ہو گئے ہیں۔ ان میلوں میں جاکر پتا چلتا ہے کہ نئی نسل میں بھی یہ مباحث نہ صرف جاری ہیں بلکہ یہ زیادہ علم اور معلومات کے ساتھ ان مباحث میں حصہ لے رہی ہے۔ 

کراچی لٹریچر فیسٹیول کا اہتمام اگرچہ ایک معروف اشاعتی ادارہ کرتا ہے لیکن اس کی اسپانسر شپ میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ 2010ء میں پہلا فیسٹیول منعقد ہوا تھا، اس مرتبہ 11واں فیسٹیول ہے۔ اسی طرح آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام سالانہ عالمی اردو کانفرنسوں کا انعقاد کو بھی ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے جاری ہے۔ 

غالباً حالیہ عالمی اردو کانفرنس 12ویں سالانہ کانفرنس تھی اور اس میں خصوصی فیچر پاکستان کی دیگر زبانوں کے متعدد سیشنز کی صورت میں شامل کیا گیا، جس کی وجہ سے اس کانفرنس میں شرکا کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ گزشتہ دنوں منعقد ہونے والا سندھ لٹریچر فیسٹیول بھی ایک بڑے سالانہ ادبی اور ثقافتی میلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ سالانہ کراچی بک فیئر (کتب میلہ) بھی کراچی کی شناخت بن چکا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان بڑے ادبی اور ثقافتی میلوں میں انتہائی سنجیدہ موضوعات پر سیمینارز، مذاکروں اور نشستوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگ گھنٹوں ادیبوں، دانشوروں اور ماہرین کی گفتگو سنتے رہتے ہیں۔ ان نشستوں میں سامعین کے سوالات سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ذہنی اُپچ بہت بلند ہے۔ ان بڑے میلوں کے ساتھ ساتھ شہر میں ہر سال سینکڑوں چھوٹے بڑے میلے، مشاعرے اور پروگرامز ہوتے رہتے ہیں۔ 

آرٹس کونسل، تھیٹرز اور بڑے ہوٹلوں کے ساتھ ساتھ شہر کے مختلف علاقوں کے پارکس، میدانوں اور شادی ہالز میں روزانہ کی بنیاد پر پروگرامز ہو رہے ہوتے ہیں۔ موسیقی اور ڈرامہ نئی جہتوں کے ساتھ کراچی میں ترویج پا رہے ہیں۔ مصوری اور دیگر فنونِ لطیفہ میں بھی کراچی کی نوجوان نسل کی دلچسپیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ماضی میں بھی کراچی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ ہر قسم کی سیاسی تحریکوں خصوصاً جمہوری، محنت کشوں اور مظلوم گروہوں کے حقوق کی تحریکوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ کراچی اپنے اصل جوہر میں پاکستان کے ہر شعبے میں ماضی میں بھی قائدانہ کردار ادا کرتا رہا ہے اور اب بھی اس کے لیے تیار ہے۔ کراچی پاکستان ہے، اس عظیم شہر کے اصل جوہر کو اجاگر کرنے اور اس کے تحفظ کیلئے ہم سب کو اہم کردار ادا کرنا ہے۔

 کراچی لٹریچر فیسٹیول میں بڑی تعداد میں مختلف زبانوں، ثقافتوں، علاقوں اور گروہوں کے افراد کے جوش و خروش اور ہم آہنگی کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ کراچی اور اس کے اصل جوہر کو مزید اجاگر کرنے اور اس کے تحفظ میں ہراول دستے کا کردار ادا کریں گے۔

تازہ ترین