• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالب کے دلی سے دلی تک

دلی کے ایک شہر تھا عالم میں انتخاب، اس میں غالب کے دور میں غدر نے جو طوفانِ خون آشام برپا کیا تھا، اس سے کہیں بڑھ کر آج کے دلی شہر میں بالخصوص مسلمانوں پر جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے اسے روکنے والے 52اسلامی ممالک بالکل خاموش کھڑے ہیں، ہندو توا کے علمبردار انتہا پسند غنڈوں اور غنڈا صفت پولیس نے زندگی کا قافیہ اس قدر تنگ کر رکھا ہے کہ بیان کرنے کو کوئی قافیہ نہیں سوجھتا، کہاں گیا سیکولر بھارت، شاید وہ تشدد پسند ہندوئوں کے پائوں تلے سسک رہا ہے، دنیا کی بڑی جمہوریت کے دعویدار بچہ جمورا ہو چکے، دلی میں آج جان، مال، عزت کچھ بھی محفوظ نہیں، ہندو انتہا پسند بلوائیوں کے ہاتھوں معصوم لوگوں کی نسل کشی کا ہنگامہ رستا خیز جاری ہے، انسانی حقوق والے کہاں ہیں، انہیں بلائو اور دکھائو کہ تم جو درد کی دوا دیتے تھے وہ موت کی نذر ہو گیا۔ ایک طرف 80لاکھ کشمیریوں کو بارودی پنجرے میں بند کر رکھا ہے تو دوسری جانب گیتا میں جو کچھ ہے وہ ہندو اخلاقیات بھی بت کدوں میں رکھے پتھر کے صنم میں ڈھل گئے ہیں جو ناک سے مکھی نہیں اڑا سکتے، کیا گیتا میں اس سب سے منع نہیں کیا گیا؟ جواب چاہئے! آر ایس ایس کے ہندومت اور اصل ہندومت میں اتنا ہی فرق ہے جو یہودیت اور صہیونیت میں ہے۔ مودی اس وقت آر ایس ایس کے جنات کے قبضے میں ہے ورنہ بی جے پی کی یہ درگت نہ بنتی جو آج ہے، اور مودی کو یہ جن گجرات میں مسلمانوں کا خون بہانے کے زمانے سے چمٹا ہوا ہے اس کا علاج تو ممکن ہے مگر ناحق خون پروانوں کا ہوگا، جس ظلم کو مزاح کا رنگ بھی نہ چڑھ سکے وہی حقیقی ظالم ہے۔ اگر بھارت کے امن پسند کروڑوں لوگ چند شر پسندوں کو لگام نہیں دے سکتے تو یہ بھی اپنی جگہ ظلم ہی ہے اور اگر یہ دونوں ملک برادرانہ تعلق میں بندھے ہوتے تو یہ دو ہمسایہ جنتیں ہوتیں، مگر افسوس کہ بھارت کے مٹھی بھر شر نے پورے ہندوستان کے خرمن میں آگ لگا رکھی ہے، جلتی پر تیل چھڑکنے والے تماشائی ہیں اور راکھ کا ڈھیر تماشائے عبرت۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

رقصِ مہنگائی ہے، دہائی ہے دہائی ہے

ہم سے تو آئینہ اچھا کہ ایک ہی چہرہ نہیں دکھاتا، چہرے بدل بدل کر دکھانے میں بخل سے کام نہیں لیتا، یہی وجہ ہے تبدیلی آکر بھی نہ آئی، 70کی دہائی کے بعد جہاں تھے وہاں بھی کھڑے نہ رہے، اور کھائیاں کھود کھود ان میں گرتے گئے، یہ ہے وہ تباہ کن ٹھہرائو جسے کسی طرح بھی آگے بڑھنا نہیں قرار دیا جا سکتا جبکہ حرکت کی روح یہ ہے کہ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ ہم نے تغیر کو پیچھے جانا سمجھا، یا جس پتھر پر بیٹھ کر سر کی جوئیں مار دیتے تھے اب اسی پر بیٹھے ہیں تہیۂ نقصاں کیے ہوئے یا جوش قداح سے بزمِ چراغاں کیے ہوئے، گویا پیالی میں طوفاں بپا کیے ہوئے، ہاں ہم نے بھکاری پیدا کیے اور اب ان کیلئے جگہ جگہ لنگر خانے کھول رہے ہیں تاکہ وہ کام کے بجائے اطمینانِ قلب سے بھیک مانگ کر بینکوں میں جمع کرکے فکرِ قیام و طعام سے آزاد رہیں، اور یار لوگ اسے صدقہ جاریہ کہتے ہیں۔ آخر کب صدقوں خیراتوں پر پلنے سے نجات ملے گی؟ ایک صاحب نے کہا، سنجیدگی کو مزاح کا رنگ کیوں دیتے ہو، گزارش کی کہ جو سنجیدگی مزاح میں ہے وہ سنجیدگی میں کہاں، ہماری آنکھ مہنگائی و رسوائی سے کیا لڑی کہ اب تک وہیں کھڑے ہیں قطار میں، اتنا خوبصورت ملک اور اتنی بدصورت معیشت کہ چڑیا کے ’’بوٹ‘‘ کی طرح چونچ میں ایک دانہ بھی باقاعدگی سے نہیں آتا، دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ؎

اک ہم ہی نہیں تنہا معیشت میں تری رسوا

اس شہر میں ہم جیسے بےآب و دانہ ہزاروں ہیں

اگر 13فیصد ارزانی ہوتی ہے تو 13فیصد مہنگائی، یہ بھی اعداد و شمار ہیں جن کا اعتبار کہاں مگر دونوں کا ایک جیسا ہونا بھی تو مہنگائی ہے، دو پٹڑیوں جیسی کہ ساتھ ساتھ چلتی ہیں ہماری قیادت کی باہر بڑی دھوم ہے مگر اندرونِ ملک جھوم برابر جھوم ہے، حکومتوں کا کام پورے ملک کی زمام سنبھالنا ہے مگر یہاں تو صرف یوٹیلٹی اسٹوروں پر حکومت نے اپنا بازار کھول رکھا ہے، اوپن مارکیٹ میں وہی رقصِ مہنگائی ہے، دہائی ہے دہائی ہے

٭٭ ٭ ٭ ٭

’’ٹیریفکنگ‘‘ ٹریفک

ہم سارے ملک میں ٹریفک کی زبوں حالی تو نہیں جانتے مگر لاہور کے علاقہ فتح گڑھ یوٹرن کو جوائن کرنے کیلئے موٹر سائیکل سوار پوری رفتار سے جب تیز رفتار گاڑیوں کے سامنے سے گزرتے ہیں تو موت کا ہولناک قہقہہ صاف سنائی دیتا ہے۔ یہ سلسلہ نہر پر واہگہ تک کے یوٹرنز تک جاری رہتا ہے۔ اگر آئی جی ٹریفک ایک عدد سارجنٹ ان یوٹرنز پر بھی کھڑا کر دیں تو ان کو ڈھیروں ثواب ملے گا، ہم دو خرابیاں بطور خاص ٹھیک نہ کر سکے، ایک نصابوں کا ہجوم دوسری بےلگام ٹریفک، جس میں معذرت کے ساتھ بائیکرز کا بڑا ہاتھ ہے، حکومت اور بالخصوص ٹریفک پولیس کے ساتھ عوام کا ہاتھ بھی اس فتنہ جانکاہ میں برابر کا شریک ہے، بہرحال اوپر ہم نے جس یوٹرن کا ذکر کیا ہے وہاں کوئی ہلاکو خان ٹائپ ٹریفک سارجنٹ کو تعینات کیا جائے کیونکہ ہماری اخلاقیات کے سنوارنے میں ڈنڈے کا بھی بڑا رول ہے، ہمیں امید ہے کہ ہماری بعض سابقہ شہری مفاد کی شکایتوں کی طرح اسے بھی دور نہیں کیا جائے گا۔ مگر علاقے کے کئی لوگوں نے مجبور کیا اور ناامیدی کے عالم میں صوبائی حکومت کے صوبیدار اعلیٰ سے امید باندھ لی، کیا پتا وہ ہماری عرضداشت کو شرفِ قبولیت عطا فرمائیں اور یہ عوامی مسئلہ حل ہو جائے۔ سی ایم صاحب اگر ایک اشارہ کر دیں تو خلق خدا کا بھلا ہو سکتا ہے، ٹریفک کی روانی کو درست رکھنے میں اگر شہر کے لوگ بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور ٹریفک پولیس کے ساتھ تعاون کریں تو یہ کوئی مشکل نہیں کہ خرابی دور نہ ہو، سگنلز پر مانگنے والے بھی ٹریفک میں خلل پیدا کرتے ہیں، ان کیلئے بھی کوئی ایسا لنگر خانہ قائم کیا جائے جس سے وہ باہر نہ آسکیں، ایک بار پھر برائے ٹریفک پولیس حکام یہ مطالبہ کہ نہر پر یوٹرنز پر سارجنٹ کھڑے کیے جائیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

آلۂ بیکار

٭...ماسک ذخیرہ کرنے والوں کا ماسک اتارا جائے اور یہ بھی کہہ دیں کہ سزا میں عبرت نہ ہو تو وہ جزا بن جاتی ہے۔

٭...تجزیہ کار:نیب آلۂ کار ہے، ختم کرنے سے خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔

جب یہ فقط آلۂ کار ہے تو اس کے خاتمے سے تبدیلی تو آئے گی، تبدیلی کے بعد اس کی جگہ جو پہلے سے تفتیشی ادارے کام کر رہے ہیں انہیں مضبوط، بااختیار اور مداخلت سے پاک کیا جائے، نیب ختم ہو گا تو بجٹ بھی ضائع نہیں ہو گا، کاش کہ یہ آلۂ کار ہوتا مگر یہ تو آلۂ بیکار ہے، البتہ کسی کیلئے کارآمد بھی ہے۔

٭...عمران خان:میں اور کابینہ وزیر قانون فروغ نسیم کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اب تو وزیر قانون کو اندھیرے میں جانے سے ڈر نہیں آئے گا،

٭...شیخ رشید:ڈیل ہو یا ڈھیل کوئی فرق نہیں پڑتا۔

فرق پڑتا ہے آپ کو ڈھیل سے باقیوں کو ڈیل سے۔

٭...احسن اقبال کا پاسپورٹ لے لیا گیا۔

گویا وہ ملک بند ہیں، نظر بند نہیں، احسن اقبال بھلے مانس ہیں وہ اندر ہوں، باہر ہوں، اندر ہی ہیں۔

تازہ ترین