• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کوئی 70ءکی بات ہے کہ ملک میں ٹیوشن سنٹرز اور نجی اکیڈمیوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ یہ ٹیوشن سنٹرز اور نجی اکیڈمیاں زیادہ تر میٹرک (سائنس گروپ) اور ایف ایس سی (پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ) کے اسٹوڈنٹس کو امتحانات کی تیاری اور اچھے نمبر دلانے کے لئے مختلف اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ نے قائم کیں۔ اس کے علاوہ انفرادی ٹیوشن کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کہیں اسٹوڈنٹس استاد کے گھر جا کر پڑھتے اور کہیں استاد گھر پر آکر پڑھاتے۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ آج تک ان نجی اکیڈمیوں کا کبھی آڈٹ نہیں ہوا۔ کتنی آمدنی ہے؟ کتنے اخراجات ہیں؟ بعض لوگوں نے نجی اکیڈمیوں سے بڑے بڑے کالج اور اسکول بھی قائم کر لیے۔ یہ ایک انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔ جوں جوں مختلف بورڈز اور حکومت امتحانات کا طریقہ کار پیچیدہ بناتی رہی اور میرٹ بڑھتا چلا گیا، توں توں ان اکیڈمیوں کا کاروبار بھی پروان چڑھتا رہا۔ پھر پنجاب میں اور دیگر صوبوں میں جب امتحانات میں نقل کی وبا پروان چڑھی تو حکومت نے میڈیکل کالجوں، انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں انٹری ٹیسٹ لازمی قرار دے دیا۔ اگرچہ انٹری ٹیسٹ پر بھی ایک زمانے میں کئی سوال اٹھائے گئے تھے، اب مختلف کاروباری تعلیمی حلقوں نے سوچا کہ چاندی بنانے کا ایک اور موقع ہاتھ آگیا ہے تو انہوں نے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے اکیڈمیاں بنانا شروع کر دیں۔ آج کے دور میں تین کاروبار ایسے ہیں جن میں نقصان کا اندیشہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسکول/کالج قائم کرلو۔ کوئی اسپتال اور میڈیکل کالج بنا لو یا پھر کھانے پینے کا کاروبار کر لو۔ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کیلئے پورے ملک کے ہر گلی اور محلے میں اکیڈمیاں شہد کی مکھیوں کے چھتے کی طرح قائم ہونے لگیں، یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

1980کی دہائی میں آرٹس کے اسٹوڈنٹس کا رجحان سی ایس ایس کرنے میں بڑھ گیا، دوسری طرف کئی ڈاکٹرز اور انجینئرز بھی سی ایس ایس کرکے پولیس اور دیگر محکموں میں آگئے۔ اکیڈمی مافیا نے سوچا کیوں نہ سی ایس ایس کی تیاری کی اکیڈمیاں بنائی جائیں، یہ تو بہت منافع بخش کاروبار ہے۔ چنانچہ کچھ حاضر سروس اور ریٹائرڈ بیورو کریٹس اور پولیس کے آفیسرز نے اکیڈمیاں بنانا شروع کر دیں اور کچھ اکیڈمیوں کے حصہ دار بن گئے۔ انگریزوں کے دور میں جج کو بھی کسی شادی میں جانے کیلئے ہائیکورٹ کے جج سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ ہمارے دادا مولوی ابراہیم ناگی متحدہ پنجاب کے پہلے مسلمان جج تھے، انہیں کسی عزیز کی شادی میں جانا تھا تو ان کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ شادی لال سے اجازت لینا پڑی تھی۔ یہاں پر سرکاری ملازم ہر طرح کے کاروبار کر رہے ہیں، کسی بھی حکومت نے 70برسوں میں ان اکیڈمیوں کے بارے میں کبھی بھی معلومات اکٹھی نہیں کیں کہ ان کی آمدنی کتنی ہے، یہاں کا ماحول کیسا ہے، یہاں پر پڑھانے والے اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے، ان کا اخلاق و کردار کیسا ہے؟ ضروری ہے کہ محکمہ تعلیم اور انکم ٹیکس ان تمام ٹیوشن سنٹرز اور نجی اکیڈمیوں کی مانیٹرنگ کریں۔ ان کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کرے، ان نجی اکیڈمیوں کا ماحول چیک کرے اور وہاں پڑھانے والے اساتذہ اور ان اکیڈمیوں کو چلانے والے مالکان کے کوائف جمع کرے۔

گزشتہ ہفتے سر گنگا رام اسپتال میں مدر اینڈ چائلڈ اسپتال کاسنگ بنیاد پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے رکھا۔ اس موقع پر ایف جے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عامر زمان اور صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی موجود تھیں۔ ماں اور بچے کی صحت کے اسپتال کی ضرورت ایک مدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ یہ سات ارب روپے کا منصوبہ ہے جس میں 4ارب روپے عمارت کی تعمیر پر اور تین ارب آلات اور مشینری کی خریداری پر خرچ کیے جائیں گے اور یہ 600بستروں پر مشتمل ہوگا۔ ہمارے خیال میں اس اسپتال کو کم از کم ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ بچوں کی بھی ایک بڑی نرسری تعمیر کرنی چاہئے۔ حکومت اگر اس ادارے کو اسٹیٹ آف دی آرٹ بنانا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تعمیر اور مشینری اور آلات کو نصب کرنے کے لئے بین الاقوامی معیار اور قواعد کو مدنظر رکھا جائے۔ حکومت پنجاب کا یہ ایک بڑا قابل فخر منصوبہ ہے جس سے پنجاب بھر کی زچہ بچہ کو صحت کی بہترین سہولتیں حاصل ہو جائیں گی۔ اس اسپتال میں 13آپریشنز سینٹرز ہوں گے۔ سر گنگا رام اسپتال 77برس قبل سر گنگا رام نے قائم کیا تھا۔ اس کے ساتھ اپنے بیٹے کے نام پر بالک رام میڈیکل کالج بھی قائم کیا تھا۔ جو فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) ہے۔ بالک رام میڈیکل کالج کی ابھی میڈیکل کی پہلی کلاس زیر تعلیم تھی تو پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔ پنجاب حکومت صحت کے شعبے کے لئے 277 ارب روپے مختص کر رہی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی رقم ہے۔ اس رقم سے تعمیر ہونے والے اسپتالوں سے یقیناً عوام کو فائدہ ہوگا۔ اسی طرح حکومت پنجاب میں پہلا انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز بنانے کا ارادہ رکھتی ہے جو 500بستروں پر مشتمل ہوگا۔ خون کی بیماریوں کے حوالے سے یہ ادارہ واقعی صحت کے شعبے میں ایک قابل قدر اضافہ ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹر عامر زمان وائس چانسلر ایف جے ایم یو کئی شعبے قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان شعبوں کے قیام سے اسٹوڈنٹس اور مریضوں دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔

اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس سے پریشان ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ کرونا وائرس عالمی وبا بن گئی ہے۔ پاکستان میں بھی کرونا وائرس آ چکا ہے اور ہمارے ہاں میڈیکل اسٹورز اور مافیا نے ماسک کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ پانچ روپے والا ماسک آج تین سو روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ماسک کی قلت کا نوٹس لے لیا ہے اور ماسک مافیا کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔

تازہ ترین