• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ نے کسی دنیاوی طاقت کی رعونت اور تکبر کو خاک میں ملنے کا دستاویزی ثبوت دیکھنا ہے تو 29فروری 2020ء کو دوحا میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کو پڑھ لیں۔ 

اگر آپ نے صرف اللّٰہ کے بھروسے پر جہاد کرنے والے ایک چھوٹے سے طبقے کو افغانستان میں امریکہ، نیٹو فورسز اور دوسرے اتحادیوں بلکہ پوری دنیا کو اُن کی تمام تر دنیاوی طاقت کے باوجود اپنے جذبۂ ایمانی کے زور پر شکست دیتے دیکھنا ہے تو یہی معاہدہ اس کا دستاویزی ثبوت ہے۔ 

جو ہفتے کو دنیا نے دیکھا وہ دراصل امریکہ کی شکست اور طالبان کی فتح کی دستاویز پر دستخط تھے۔ 

کن حالات میں امریکہ نے تمام دنیا کو اپنے ساتھ ملا کر 2001ء میں افغانستان پر حملہ کرکے ملا عمر کی زیرِ قیادت طالبان کی اسلامی حکومت کو کابل میں ختم کیا، اُس تاریخ سے سب واقف ہیں۔ امریکہ نے کیا کیا دعوے کیے تھے، لاکھوں ٹن بارود افغانستان پر برسایا، کون سا جدید ترین اسلحہ تھا جو استعمال نہیں کیا، امریکی فوج تو کیا نیٹو اتحاد کی افواج اور باقی دنیا بھر کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا حتیٰ کہ پاکستان تک نے امریکی دبائو میں آ کر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا لیکن 29فروری 2020ء کو دستخط شدہ نتیجے کو پڑھیں تو آپ کو دو فریق معاہدے پر دستخط کرتے ملیں گے۔ 

ایک فریق امریکہ ہے تو دوسرے فریق کو معاہدے میں Islamic Emirate of Afghanistan (اسلامی امارتِ افغانستان) کے نام سے لکھا گیا جسے امریکہ نے طالبان کا نام دیا ہے۔


2001ء میں طالبان کی اسلامی حکومت کو ختم کرنے والا امریکہ 2020ء کے معاہدے میں طالبان سے اس پر متفق ہو رہا ہے کہ نہ صرف طالبان اور امریکہ کے درمیان مثبت تعلق قائم ہوگا بلکہ آئندہ افغانستان میں اسلامی حکومت ہی قائم ہو گی جس کے امریکہ کے ساتھ مثبت تعلقات ہوں گے، یعنی یہ بھی امریکہ کی طرف سے تسلیم کر لیا گیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت طالبان اور افغانستان کی موجودہ حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں کابل میں اسلامی حکومت کا ہی قیام ہوگا جس کے لیے سب سے اہم کردار اُنہی طالبان کا ہوگا جنہیں دہشت گرد، شدت پسند اور نجانے کون کون سے نام دیے گئے۔ 

اسی معاہدے کے تحت نہ صرف امریکہ اور نیٹو وغیرہ کی تمام غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکلنا ہوگا بلکہ امریکہ اور اقوام متحدہ طالبان پر لگائی گئی تمام پابندیوں کو بھی ختم کریں گے۔ 

امریکہ اس معاہدے کے تحت افغانستان میں آئندہ قائم ہونے والی اسلامی حکومت کے ساتھ معاشی تعاون بھی کرے گا لیکن افغانستان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ فریقین ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا بھی کریں گے۔ چار صفحوں کا معاہدہ پڑھیں تو ہر سطر پر طالبان کی کامیابی اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ماسوائے ہزیمت کے کچھ نہیں ملتا۔

اب آگے کیا ہوتا ہے، طالبان اور افغانستان کی موجودہ حکومت اور دوسرے افغان فریقوں کے درمیان دس مارچ سے شروع ہونے والے مذاکرات کیسے آگے چلتے ہیں، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن عملاً افغانستان کے مستقبل کے فیصلے کے لیے امریکہ نے اُنہی طالبان کے اہم ترین کردار کو تسلیم کر لیا ہے جن کو مٹانے کے لیے وہ بڑے زعم اور تکبر سے 19سال پہلے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا لیکن کھربوں ڈالرز کی تاریخ کی شاید مہنگی ترین جنگ جدید ترین اسلحہ اور دنیا بھر کی حمایت کے باوجود ہار گیا۔ 

اتنی ذلت! دنیا تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی لیکن اسلامی سوچ رکھنے والوں کو اپنے رب کے وعدہ پر یقین تھا کہ جہاد اور ایمان کے زور پر کامیابی ہمیشہ اہلِ ایمان کی ہی ہوتی ہے۔ 

طالبان کا مذاق اڑانے والے آج اپنا منہ چھپائے پھر رہے ہیں ۔ بہت سوں کی تو خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہی نہ ہو۔ اس معاہدہ سے جہاں پاکستان کو نائن الیون اور اُس کے بعد اپنائی گئی پالیسیوں جن کی بہت بڑی قیمت اس قوم نے ادا کی، کے حاصل سے سبق سیکھنا چاہیے وہیں وہ حلقے اور ادارے تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے نائن الیون کے بعد امریکہ کے اصل ہدف یعنی پاکستان کو نشانہ بنانے کے گھنائونے کھیل کو سمجھا اور اُس سازش کو ناکام بنانے کے لیے وہ اقدامات کیے جنہیں ڈبل گیم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور جس کے نتیجے میں دوحا میں ہی امن معاہدہ ممکن ہوا۔ 

اس امن معاہدہ پر پہنچنے کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی تھا، جس پر امریکہ اور طالبان دونوں نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین