• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ میں وزارتِ خزانہ کے بیان میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے قرضوں میں گزشتہ 15ماہ میں 40فیصد اضافہ ہوا ہے، جو قرضوں کے حد کے قانون FRDLAسے تجاوز کر گیا ہے جس کی رو سے حکومت جی ڈی پی کا 60فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن اس وقت مجموعی قرضے بڑھ کر جی ڈی پی کا 84.8فیصد اور حکومت کے قرضے جی ڈی پی کے ریکارڈ 76.6فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ 

وزارت خزانہ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ 2018کے مالی سال کے آخر تک پاکستان کے قرضے 29.88کھرب تھے جو 11.6کھرب روپے یعنی 39فیصد اضافے سے ستمبر 2019تک 41.49کھرب روپے ہو چکے ہیں۔ 

پاکستان کے قرضوں کا جائزہ لیں تو 2013ء میں یہ قرضے 16.3کھرب روپے، 2014میں 18.2کھرب روپے، 2015میں 19.8کھرب روپے، 2016میں 22.5کھرب روپے، 2017میں 25.1کھرب روپے، 2018ءمیں 29.8کھرب روپے اور 2019ءمیں 40.2کھرب روپے جبکہ ستمبر 2019ءمیں 41.5کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔

گزشتہ 15مہینوں میں حکومت کے قرضوں میں 36فیصد ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے جبکہ بیرونی قرضے 105ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہ جی ڈی پی کا 2فیصد سے زائد نئی ضمانتی (Sovereign) گارنٹیاں نہیں دے سکتی۔ 

ایل این جی ٹرمینل، ٹیلی کام لائسنسوں کی تجدید اور نجکاری نہ کرنے کی وجہ سے حکومت کو مطلوبہ ریونیو حاصل نہ ہو سکا جبکہ ایمنسٹی کی مد میں بھی حکومت کو کم پیسے ملے۔ رواں مالی سال 2019-20ءکے ابتدائی 7مہینوں میں ایف بی آر کو 218ارب روپے کی ریونیو میں کمی ہے جبکہ 2019-20ءمالی سال کے آخری تک یہ کمی 750ارب روپے کی ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے حکومت نے آئی ایم ایف سے اس سال کے ریونیو ٹارگٹ میں 300ارب روپے کی کمی کی درخواست کی ہے۔

اس کیساتھ ساتھ حکومت کچھ اشیا پر ریگولیٹری کسٹم ڈیوٹی لگاکے امپورٹ سے ریونیو حاصل کرنا چاہتی ہے۔

ملک میں معاشی سرگرمیوں کے سکڑنے، گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت میں ریکارڈ کمی، بڑے درجے کی صنعت میں گروتھ میں 6فیصد کمی سے بھی حکومت کو ریونیو کے اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ اسٹیٹ بینک کو 2018-19ءمیں ڈی ویلیو ایشن کی وجہ سے ایکسچینج ریٹ میں نقصان، قرضوں کی ری پروفائلنگ کی وجہ سے اضافی مارک اَپ کی ادائیگیوں سے قومی خزانے کو جی ڈی پی کا 0.75فیصد خسارہ اٹھانا پڑا ہے۔ 

پاکستان کے قرضوں کی ادائیگیاں جون 2018ءمیں اپنے ذخائر کے 81فیصد کے مقابلے میں جون 2019ءمیں بڑھ کر 159فیصد ہوگئی ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ ’’ہاٹ منی‘‘ پر لکھے گئے کالم میں بتایا تھا کہ پاکستان میں پُرکشش مارک اَپ کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار پورٹ فولیو منیجرز بیرونِ ملک ڈالر میں ایک یا دو فیصد پر قرضے لیکر پاکستان میں ٹریژری بانڈز اور حکومتی پیپرز میں 13.25فیصد پر شارٹ ٹرم سرمایہ کاری کر رہے ہیں جو میری پیشگوئی کے مطابق 3ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر 12ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں.

ملک کے مجموعی بیرونی ذخائر 18.36ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں لیکن ہاٹ منی میں سرمایہ کاری کی وجہ سے حکومت کو مارک اَپ کی ادائیگیوں کا دبائو رہے گا۔

پاکستان کے بیرونی قرضوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1951ءسے 1955ءتک پاکستان کے بیرونی قرضے صرف 121ملین ڈالر تھے تاہم 1969ءمیں یہ قرضے بڑھ کر 2.7ارب ڈالر اور 1971ءمیں 3ارب ڈالر تک جا پہنچے۔ 1977ءمیں پاکستان پر واجب الادا قرضے بڑھ کر دگنا یعنی 6.3ارب ڈالر ہوگئے جس کے بعد بیرونی قرضے لینے کی روایت بن گئی اور 1990ءمیں یہ قرضے بڑھ کر 21.9ارب ڈالر جبکہ 2000ءمیں 35.6ارب ڈالر تک جاپہنچے۔ 

موجودہ دور حکومت میں پاکستان کے بیرونی قرضے 2016ءتک 72.98ارب ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے ترجمان کے مطابق حکومت قرضوں کا بوجھ کم کرنے کیلئے ہر سال اضافی قرضوں کو 0.5فیصد کم کرکے قرضوں کے حد کے قانون FRDLAکے مطابق لائے گی جو عملاً مشکل نظر آتا ہے۔ 

تجزیے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہم قرضوں کے ناقابلِ برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ہمارا زیادہ تر ریونیو اور وسائل قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کیلئے ہمارے پاس فنڈز دستیاب نہیں۔ 

 حکومت کو چاہئے کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ایک واضح حکمتِ عملی کے تحت مہنگے شرح سود کے قرضے ترجیحاً واپس کرے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں پر قرضوں کا بوجھ کم کر سکیں۔

تازہ ترین