• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسٹر اتوار مسیحی بھائیوں سے زیادہ مسلمانوں کے لئے خونیں دن ثابت ہوا۔ پارک میں ہنستے کھیلتے معصوم بچے اور جوان دہشت گردی کی نذر ہوئے۔ طالبان کے احرار گروپ نے نہ صرف ذمہ داری قبول کی بلکہ مسیحی و دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے جزئیے کا تقاضا بھی کیا۔ لاہور پہ یہ بپتا تو تھی ہی ہولناک، ناموسِ رسالتﷺ کے نام پر ہمارے ہم مسلک بریلوی حضرات کو دارالحکومت کو یرغمال بنانے دیا گیا۔ قیامت کی اس گھڑی میں اُترے ہمارے سپہ سالار میدان میں، اور پورے پنجاب میں جو وسیع آپریشن بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا، اُس کا فوری آغاز ہو گیا۔ قومی آفات میں بھی پاک فوج ایسے ہی عوام کو محفوظ رکھنے کے لئے حرکت میں آیا کرتی ہے۔ قومی اور قانونی تقاضا تو یہ تھا کہ سول اور ملٹری قیادت یک جان ہو کر میدان میں اُترتی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اور بیک وقت علیحدہ علیحدہ کمانڈز میں دو آپریشن شروع کر دیئے گئے۔ پنجاب حکومت ایک عرصے سے ایسے صوبے میں جہاں فرقہ پرستوں، مذہبی انتہاپسندوں اور کالعدم تنظیموں کے وسیع نیٹ ورک ہیں، کے بارے میں شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیئے بیٹھی رہی۔ وزیراعلیٰ اور رانا ثناء اللہ کا اصرار ہے کہ یہاں نہ تو کوئی بڑا نیٹ ورک ہے اور نہ دہشت کی پناہ گاہیں، اس لئے اگر کبھی ضرورت پڑی تو فوج سے مدد لے سکتے ہیں۔ گویا ابھی بھی وہ فوج کے آپریشن کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جبکہ یہ اُن سے بالا بالا شروع بھی ہو چکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف وجودی جنگ کے لئے یہ کوئی اچھا شگون نہیں۔
بھلا تاریخ سے مفر ممکن ہے؟ بھٹو صاحب کے خلاف نظامِ مصطفیٰ کی تحریک سے جو رجعتی عناصر سامنے آئے تھے، اُنھیں جنرل ضیاء الحق نے منظم کر کے پیپلز پارٹی کے خلاف کھڑا کر دیا۔ اُن کے نظریاتی میلانات اُنہی لوگوں سے ملتے ہیں جنھیں اسلام آباد کو یرغمال بنانے کی سعادت مہیا کی گئی۔ محترم اسحاق ڈار، سعد رفیق اور پیر حسنات نے اُنھیں باعزت رخصت کیا کہ یہ لوگ اُنہی کے حلقۂ انتخاب اور فکری دائرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم نظامِ مصطفیٰ کا نفاذ جنرل ضیاء الحق کے دور میں دیکھ چکے، اب یہ کام وزارتِ مذہبی اُمور کو سونپا گیا ہے۔ تو کیا پھر مذہبی نظام کے نفاذ کا ارادہ ہے، جیسے ماضی میں ایک کوشش بھی کی گئی تھی؟ دہشت گردی کی جنگ جب اسلام آباد پر منڈلانے لگی تو اے این پی اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے مردانہ وار مالاکنڈ ایجنسی میں طالبان کے خلاف بھرپور آپریشن کیا اور لوگوں کی بحالی بھی۔ لیکن یہ آپریشن جنوبی وزیرستان سے آگے نہ جا پایا کیونکہ جنرل کیانی اس کے ممکنہ ردِّعمل سے خوفزدہ تھے۔ بھلا ہو جنرل راحیل شریف کا کہ اُن کی کمانڈ میں فوج نے ضربِ عضب شروع کرنے کا بیڑا اُٹھایا جبکہ شریف حکومت نے مذاکرات و مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ پارلیمنٹ کی یکجہتی اور جنرل راحیل کی بدولت عمران خان و طاہر القادری کے دھرنے سے حکومت کا دھرنا تو نہ ہوا، البتہ یہ بہت کمزور ہو گئی۔ اور جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر جنونیوں نے ہمارے بچوں کا قتلِ عام کیا تو مجہول سیاسی قیادت ہوش میں آ گئی۔ نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں قومی اتفاقِ رائے پیدا ہوا اور پاک فوج کو دہشت گردی کے خلاف جہاد میں قوم کی مکمل پشت پناہی حاصل ہوئی۔
ظاہر ہے جب فوج سویلین آبادی میں آپریشن کرتی ہے تو (شمالی وزیرستان کے برعکس جہاں کوئی ریاستی ڈھانچہ برقرار نہ رہا تھا) کسی قانون اور قاعدے کے تحت۔ کراچی کا آپریشن اسی تجربے کے حوالے سے سبق آموز رہا۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت یہ صرف صوبائی حکومت ہے جو رینجرز اور فوج کو سویلین انتظامیہ کی مدد کیلئے بلا سکتی ہے۔ شروع شروع میں تو سب ساتھ تھے، پھر اختلافات بڑھنا شروع ہوئے، کچھ جائز اور کچھ ناجائز۔ سندھ حکومت کی درخواست کو وزیرِ داخلہ نے حقارت سے ٹھکرا دیا اور رینجرز کو وہ اختیارات بھی مل گئے جو فقط صوبائی اور سویلین دائرۂ کار میں آتے ہیں۔ یوں وفاق نے عملاً صوبائی حکومت کی اتھارٹی کمزور کر دی اور رینجرز کا اثر و رسوخ اور عملداری پھیلتی چلی گئی۔ یقیناًرینجرز نے کراچی کے امن کی بحالی میں بہت کامیاب کردار ادا کیا لیکن یہ پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کے بغیر ناممکن تھا۔ اگر پولیس کے پاس فوجی نوعیت کی کارروائی کی تربیت نہیں تو رینجرز کے پاس بھی تو پولیسنگ کی تربیت نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ سندھ میں بلوچستان میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کا ماڈل اپنایا جا رہا ہے جس میں صوبائی حکومت کی کوئی اوقات نہیں۔
سندھ میں صوبائی حکومت کی اتھارٹی کو پامال کرنے کے بعد، پنجاب اور وفاق کی حکومتوں کے ہاتھوں کے طوطے اسی لئے اُڑے ہوئے ہیں کہ اب پنجاب میں بھی یہی ہونے والا ہے۔ لہٰذا وہ کسی بھی طرح کے آپریشن کے خلاف ہیں جو صوبائی اتھارٹی سے ماورا ہو۔ اب جبکہ کسی کو بھی پنجاب میں ایک وسیع آپریشن کی ضرورت پر اعتراض نہیں تو پنجاب حکومت اس سے انکار کر کے قیادت کھو بیٹھے گی، جیسے سندھ میں ہوا۔ یہ صورتِ حال سول ملٹری تعلقات میں ایک بڑے رخنے کی وجہ بن سکتی ہے جو جمہوری نظام و قانون کی حکمرانی کے لئے اچھا ہے اور نہ پاک فوج کے دہشت گردی کے خلاف جہاد کے لئے معاون۔ بہتر یہی ہے کہ پنجاب حکومت فوج و رینجرز کو طلب کرنے کی وفاق سے درخواست کرے اور وزیراعظم فوجی قیادت سے مشاورت کے بعد دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے سب سے بڑے گڑھ پنجاب میں ایک وسیع آپریشن کا حکم جاری کریں۔ وزیراعظم کی جانب سے اُن کی تقریر میں عوام سے دردمندانہ اشک شوئی قابلِ قدر ہے، لیکن کسی ایکشن سے خالی۔ پنجاب کے عوام دہشت گردوں، فرقہ پرستوں اور کالعدم تنظیموں سے خلاصی چاہتے ہیں۔ پنجاب مسلم لیگ اگر یہ سمجھتی ہے کہ یہ انتہاپسند اُس کا ووٹ بنک ہیں تو پھر مسلم لیگ بھی دہشت گردوں کے معاونین میں شمار ہوگی۔ بہتر ہے کہ مسلم لیگ اس خوفناک تاثر کو دُور کرنے کے لئے فوج کے شانہ بشانہ میدان میں اُترے۔
جو کچھ لاہور اور اسلام آباد میں ہوا اور پھر افواج کے ترجمان اور حکومت کے ترجمان نے جو باتیں کیں، اُس سے دُنیا میں کوئی اچھا تاثر نہیں گیا۔ صدر اوباما کا یہ تجزیہ کہ پاکستان ایک ’’بدترین عضوِ معطل ریاست ہے‘‘ (Terribly Dysfunctional State) کی اس پریس کانفرنس سے توثیق ہوتی ہے جس میں فوجی ترجمان اور حکومتی ترجمان مختلف صفحوں پر نظر آئے۔ بجائے اس کے کہ اس تاثر کو دُور کیا جاتا کہ پنجاب آپریشن پر سیاسی قیادت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہیں، ہوا اس کے بالکل برعکس۔ پرویز رشید نے اگر وضاحت کی بھی تو یہ کہ حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ کس فورس کو کب اور کتنی تعداد میں طلب کر سکتی ہے، جنرل باجوہ نے نیپ کا حوالہ دے کر قانونی جواز پیش کرنے سے اجتناب کیا۔ جنرل باجوہ کا سارا زور ’’را‘‘ (RAW) کے ایک افسر کی گرفتاری اور اُس کی جانب سے بلوچستان اور کراچی میں کی گئی انتہائی قابلِ مذمت ریاستی دہشت گردی کی تفصیلات تھیں۔ یہ ایک بڑا کارنامہ ہے اور پاکستان کے کیس کو مضبوط کرتا ہے۔ لیکن اسے کس سطح پر اور کس طرح اُٹھانا ہے، یہ کام وزارتِ خارجہ اور وفاقی حکومت کا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے ذریعے جو عمدہ بیک چینل کھلا تھا، اب وہ بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے مبینہ طور پر ملوث ہونے سے بند ہوا۔ ایرانی صدر روحانی کی جنرل راحیل سے رازدارانہ ملاقات کو جاری کیا گیا، اس سے ہمارے مہمان کی سبکی کا تاثر گیا ۔ اگر ہم ایران سے تعاون چاہتے ہیں تو اُسے ملوث کرنے سے باز رہیں۔ جس طرح وزارتِ خارجہ نے وزارتِ داخلہ کے مطالبات اخبارات کو جاری کئے ہیں، اُس کے بعد کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ تعلقات اور تعاون کو بڑھانے کا یہ نسخہ کس نے تیار کیا ہے؟ کاش! کوئی ہمیں بتا سکتا!
پاکستان کے اس نازک عبوری دور میں جب ضربِ عضب آخری مراحل میں ہے اور اب پنجاب میں وسیع صفائی کے امکانات بھی ہیں، سول و ملٹری قیادت کو مل بیٹھ کر حکمتِ عملی طے کرنی چاہئے۔ جنرل راحیل شریف نے پنجاب میں کارروائی شروع کرکے تاریخی ذمہ داری نبھائی ہے، اس کے لئے وہ مبارک بادکے مستحق ہیں، لیکن اس کا قانونی جواز ہونا بھی ضروری ہے نہ کہ فقط کسی انڈراسٹینڈنگ کا سہارا لیا جائے۔ فقط پولیس سے کام نہیں چلے گا اور نہ فقط فوج اور رینجرز سے۔ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ سول معاملات آئینی حکومت کے ہیں اور کامیاب فوجی کارروائی کے لئے بھی منتخب حکومت کا تعاون ضروری ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کو آگے بڑھ کر رہنمائی کرنی چاہئے۔ اگر وہ ہچکچاتے رہے تو پھر معاملات اُن کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ جو بڑھ کے اُٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے۔
تازہ ترین