• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی خارجہ پالیسی کو پچاس سال پہلے اُس وقت زبردست چیلنج کا سامنا کرنا پڑا، جب اُس کا مشرقی بازو کٹ کر بنگلا دیش بن گیا۔ باقی ماندہ پاکستان صرف مغربی ایشیا میں واقع تھا، جو مشرقِ وسطیٰ سے قدرتی طور پر جُڑا ہوا ہے، اِس لیے ہمارا علاقائی محور فطری طور پر مغربی ایشیا بنا، جس میں افغانستان، وسط ایشیائی ریاستیں، روس اور مشرقِ وسطیٰ شامل ہیں۔ اِسی لیے ہم پچاس سالوں میں دو مرتبہ افغان وار کے فعال کردار رہے۔ یہ صرف امریکا سے دوستی یا روس سے دشمنی کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ جیو اسٹرٹیجک کمپلژنز(geo strategic compulsions )بھی تھے اور ہیں۔پھر سامنے کی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری چین سے دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی اور آج وہ دوستی، اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ ذوالفقار علی بھٹّو نے 1971 ء کی جنگ کے بعد اپنا پہلا غیر مُلکی دورہ چین ہی کا کیا۔ بھٹّو صاحب فخریہ طور پر اپنے منشور کو سوشلسٹ کہتے تھے۔ اسی ناتے وہ خود کو چین کا فطری دوست سمجھتے۔اُنھوں نے اپنی گریٹ ہال کی تقریر میں اس کا خاص طور پر ذکر کیا۔ چین کے وزیرِ اعظم، چو این لائی نے، جو ایک مدبّر سیاست دان تھے، جوابًا مشورہ دیا کہ اسلام آباد کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز مشرقِ وسطیٰ کو بنانا چاہیے، کیوں کہ اب وہی اس کا قدرتی ساتھی ہے۔ شاید اسی مشورے کا نتیجہ تھا کہ اسلامی ممالک کی تنظیم کا سربراہی اجلاس لاہور میں بلایا گیا۔ 

گویا یہ پاکستان کے جھکائو کی سمت کا اعلان تھا۔ گزشتہ سالوں میں مشرقِ وسطیٰ میں بہت کچھ بدل چُکا۔’’ عرب اسپرنگ‘‘ اس تبدیلی کا آغاز ثابت ہوئی، گو اس کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسے طنزاً’’ عرب خزاں‘‘ کہا گیا، لیکن بغور جائزے سے پتا چلتا ہے کہ خطّے میں رُونما ہونے والی تقریباً تمام تبدیلیاں اسی کا نتیجہ ہیں۔ دراصل، انقلابات کے اثرات آہستہ آہستہ عوام کے ذہنوں اور حکومتوں کی پالیسیز میں سرایت کرتے ہیں۔ کمال اَتا تُرک کے’’ ینگ ٹرکس انقلاب‘‘ کے اثرات عرب دنیا تک آتے آتے تیس سال لگے۔ میجر جمال ناصر نے مِصر میں فوجی انقلاب لاکر شام، عراق، لیبیا، الجزائر حد تو یہ کہ نائیجیریا اور یمن تک کو اپنے زیرِ اثر کر لیا، تو ہر طرف عرب سوشلسٹ انقلاب کی گونج سُنائی دی، اُس وقت یہ انقلاب ہر عرب نوجوان کی اُمیدوں کا محور تھا۔ پاکستان میں بھی فوجی انقلاب آیا اور جنرل ایّوب صدر بن گئے۔ 

عرب اسپرنگ، ایک عوامی انقلاب ہے، جو تحریر اسکوئر جیسے چوک کی پیداوار ہے۔ یہ انقلاب جدید ٹیکنالوجی اور نوجوانوں کی اکثریتی آبادی کا عکّاس ہے۔اس کی گونج خطّے کے ہر تنازعے میں سُنائی دیتی ہے۔ اس اسپرنگ نے عرب دنیا میں تبدیلی کی جو لہر پیدا کی، وہ کبھی کم اور کبھی زیادہ طاقت سے اُبھرتی، ڈوبتی رہتی ہے۔ شام کی خانہ جنگی، جس میں پانچ لاکھ مسلمانوں کی اموات ہوچُکیں اور ایک کروڑ بیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے، ایک المیہ بنی۔ ایران، سعودی عرب بالادستی کی جنگ، جو اب مزید شدّت اور پیچیدگی اختیار کرگئی ہے، اِسی کی شاخ ہے۔ عرب بادشاہتوں اور عرب ممالک میں شہری آزادی کے لیے اصلاحات، نیم جمہوری حکومتوں کی شروعات بن رہی ہے۔لبنان،عراق، ایران میں بار بار احتجاجی مظاہرے بھی اسی’’عرب بہار‘‘ کا تسلسل ہے۔ اس تحریک کی بازگشت نوجوانوں کو توانائی فراہم کرتی ہے، اسی لیے گزشتہ سال مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے مظاہروں کو’’ عرب اسپرنگ- ٹو‘‘ بھی کہا گیا۔

تُرکی، خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے پر عرب دنیا سے رخصت ہوا، لیکن صدر اردوان کے پہلے دورِ اقتدار میں اس نے دوبارہ واپسی کا سفر شروع کیا۔ گو کہ وہ پہلا مسلم مُلک تھا، جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا، لیکن اب اس کا کٹّر مخالف ہے۔ اس کی تمام عرب ممالک سے دوستی رہی۔ مغربی دنیا میں اسے عثمانی خلافت کا رِی پلے کہا گیا۔ شام میں تُرک،عرب موقف ایک رہا، جو بشار الاسد کے خلاف تھا۔ تین سال قبل حالات نے پلٹا کھایا، توتُرکی کا جھکائو ایران کی طرف ہوگیا اور عرب دنیا میں صرف قطر ہی سے اس کی دوستی باقی بچی۔ ملائیشیا کے ساتھ مل کر کوالالمپور کانفرنس منعقد کی، جو مسلم ممالک کے مسائل حل کرنے کا ایجنڈا لے کر سامنے آئی۔تاہم، تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ تُرکی، مسلم دنیا میں سعودی عرب کے مقابل آرہا ہے۔ظاہر ہے، ایران اس کے ساتھ ہے اور ملائیشیا بھی۔خاشقجی کے معاملے پر صدر اردوان نے جس طرح سعودی عرب کی اعلیٰ ترین قیادت کو دبائو میں رکھا، اس نے دونوں ممالک میں دُوریاں بڑھانے میں کردار ادا کیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ایران میں پاسدارانِ انقلاب کے میزائل سے نشانہ بننے والے طیارے اور 276 ہلاکتوں پر اردوان نے انسانی حقوق کو اہمیت نہیں دی اور خاموش رہے۔کوالالمپور کانفرنس، نئے انگریزی ٹی وی چینل اور عمران خان کی عدم شرکت پر اردوان کے بیانات نے اس خلیج کو بڑھایا یا گھٹایا یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ ان دنوں نئی بحث جنم لے رہی ہے کہ کیا ایران کے بعد اب تُرکی، مشرقِ وسطیٰ اور اسلامی ممالک کی قیادت کا متمنّی ہے۔ اگر ایسا ہے، تو پھر سعودی عرب، خلیجی ممالک اور دیگر عرب دنیا سے اس کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ یہاں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک اور چیلنج شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ ہمیں مسلم ممالک کے درمیان تنازعات میں غیر جانب دار رہنا چاہیے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والے تبدیلیوں کے اثرات جلد یا بدیر پاکستان بھی پہنچ جاتے ہیں۔ 

حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان اثرات کو کم ازکم سطح پر رکھے، کیوں کہ اس میں دوسری پیچیدگیوں کے علاوہ، فرقہ وارانہ تنائو سب سے خطرناک ہوتا ہے۔مسلم ممالک کی آزمائش کا ایک اور دور اُس وقت شروع ہوا، جب وہاں جنگ جُو تنظیموں نے باقاعدہ ریاستی معاملات میں بھی دخل اندازی شروع کرد ی۔ یہ اب راز کی بات نہیں کہ حکم رانوں اور مقتدر طاقتوں نے اُن کی سرپرستی کی، تعلقات بنائے اور جو کام اپنے مخالفین کے خلاف قوانین، انسانی حقوق کی پاس داری اور عالمی دباؤ کی وجہ سے ممکن نہ تھے، وہ ان نان اسٹیٹ ایکٹرز سے کروائے گئے۔ القاعدہ کے سربراہ، اُسامہ بن لادن تو ملّا عُمر کی حکومت کے ایک طرح سے حصّے دار تھے۔ اگر اُن سے 9/11 کی غلطی نہ ہوئی ہوتی، تو شاید یہ معاملہ دُور تک جاتا۔ اسی طرح داعش کا معاملہ رہا۔ کہا جاتا ہے کہ داعش کا ہَوّا کھڑا کرنے میں بشار الاسد کا بڑا ہاتھ ہے، جس کے ذریعے اُنہوں نے دنیا کو مجبور کردیا کہ وہ اُنہیں فوجی کارروائی اور داعش کے نام پر مُلکی اپوزیشن کو دہشت گرد قرار دے کر قتلِ عام کی کُھلی اجازت دے۔ اس میں وہ کُلی طور پر کام یاب رہے۔اسی طرح، ایران نے اپنی پراکسیز کو مشرقِ وسطیٰ میں بڑے منظّم طریقوں اور کام یابی سے استعمال کیا۔ 

جنرل قاسم سلیمانی، جو ایران کے دوسرے سب سے طاقت وَر شخص مانے جاتے تھے، ان مسلّح تنظیموں کی منصوبہ بندی اور کارروائیوں کے استعمال کا مرکزی کردار تھے۔ شام، لبنان، یمن اور عراق میں وہ ایران کی جارحانہ پالیسی کے خالق اور نافذ کرنے والے تھے۔ وہ امریکا اور مغربی ممالک کے سب سے بڑے مخالف بن کر اُبھرے۔ روس کو شام میں ملوّث کرنے اور وہاں کے شہریوں پر بم باری کروانے میں اُن کا کردار اہم تھا، جس کا اعتراف خود ایرانی حکومت نے کیا اور وہ خود بھی اس پالیسی پر فخر کرتے تھے۔تُرکی، کُردوں کے خلاف فوجی کارروائی کر رہا ہے۔ صدر اردوان اُن کے تُرک دھڑے کو باغی اور دہشت گرد قرار دے چُکے ہیں۔ حالاں کہ یہ صدر اردوان ہی تھے، جو تُرک کردوں کو مین اسٹریم سیاست میں لائے اور اُنہیں عام انتخابات میں شریک کیا۔ تُرکی میں صُورتِ حال بہت بدل چُکی ہے، یہ اب اردوان کی وزارتِ عظمیٰ کے دَور کا تُرکی نہیں۔

عرب دوستی اب مخالفت کی سرحدوں کو چُھو رہی ہے۔غالباً اس کی وجہ وہ فوجی بغاوت تھی، جس کے بعد اردوان نے ازسرِنو اپنی دوستی اور دشمنی کو ترتیب دیا۔ امریکا اور یورپی ممالک سے ان کا سب سے بڑا مطالبہ مذہبی رہنما، فتح اللہ گولن کی حوالگی تھی، لیکن وہ یہ نہ کروا سکے۔ اوباما نے انکار کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ تو سخت پالیسی پر اُتر آئے، بلکہ ایک امریکی پادری کی رہائی کے معاملے میں تُرکی پر اقتصادی پابندیاں تک لگادیں، جس سے اُس کی کرنسی کی قدر بُری طرح متاثر ہوئی۔ اس پر اردوان کو مجبور ہو کر قیدی آزاد کرنا پڑا۔ اسی دور میں صدر ٹرمپ نے سعودی عرب سے اپنی دیرینہ دوستی کو پھر سے مضبوط کیا۔ خلیجی ممالک کو بھی دوبارہ قریبی حلیف بنایا۔ ایران کے سلسلے میں واضح دشمن کی پالیسی اپنائی۔ اُس سے نیوکلیر ڈیل ختم کی اور جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا، جو مشرقِ وسطیٰ میں عربوں اور مغربی مفادات کے لیے مسائل پیدا کر رہے تھے۔ نیز، پاکستان سے بھی اپنے رشتے دوبارہ استوار کرنا شروع کیے۔ 

پلواما تنائو کو ختم کرنے سے شروع ہونے والا سلسلہ تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش تک جا پہنچا۔گو، اس میں بڑا مطلب امریکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی سے وابستہ ہے، لیکن سفارت کاری میں’’ کچھ دو، کچھ لو‘‘ اور مفادات کا تحفّظ عام ہے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے فلسطین کے حوالے سے بھی ایک نیا منصوبہ سامنے آیا، جسے صدر عبّاس، تُرکی اور ایران نے مسترد کردیا۔عربوں نے بھی اسے بظاہر تو مسترد کیا، لیکن اسرائیل سے رابطوں کو منقطع نہیں ہونے دیا۔ جیسے جیسے ایران اور تُرکی، سعودی عرب اور خلیجی ممالک پر دبائو بڑھا رہے ہیں، وہ اسرائیل کے قریب آتے جا رہے ہیں۔

اس پیش منظر میں پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کس طرح متحرّک کرے؟ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک ہمارے برادر، تُرکی اور ایران بھی ہمارے بھائی، لیکن وہ اپنی بات تو منوانا چاہتے ہیں، مگر اپنے معاملات میں، چاہے وہ فوجی کارروائیاں ہی کیوں نہ ہوں، ہمیں اعتماد میں نہیں لیتے۔ تُرکی چھے سال تک شام کی خانہ جنگی میں صدر اسد کو کسی صُورت برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ نیٹو کا اتحادی اور روس کا دشمن تھا، لیکن گزشتہ تین سال میں وہ صدر اسد کے متعلق اپنے موقف بدلتا گیا، اب وہ روس کا دوست ہے اور صدر اسد کو تسلیم کرچُکا ہے۔ 

شامی اپوزیشن، جس کی عبوری حکومت اس کی سرزمین پر قائم تھی، اب نہ جانے کہاں ہے۔ ایران، شام میں صدر اسدکی حمایت میں فوجی طور پر ملوّث رہا۔لبنان، عراق اور یمن میں اس کی حامی مسلّح تنظیمیں کارروائیاں کرتی رہیں،لیکن اُس نے ہم سے شاید ہی کبھی پوچھا ہو۔ اُس نے بھارت کو گوادر کے بالمقابل چا بہار پورٹ دی، کیا ہم شکوہ کرسکے؟لیکن جب مسلم اُمّہ کی بات آتی ہے، تو اسلام آباد سے غیرمعمولی توقّعات وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ حالاں کہ ہماری اپنی حالت یہ ہے کہ معیشت بدترین دَور سے گزر رہی ہے۔ہم آئی ایم ایف کی شرائط بھگتنے پر مجبور ہیں۔ ورلڈ بینک، ایشیائی بینک اور دیگر اداروں سے مسلسل رعایتیں مانگ رہے ہیں، لیکن معیشت ہے کہ سنبھل کے نہیں دے رہی۔سعودی عرب اور عرب ممالک میں پاکستانی تارکینِ وطن کی بہت بڑی تعداد ہے، جو پچاس ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ 

یہ پاکستانی تارکینِ وطن کا ساٹھ فی صد بنتا ہے۔ ان سے آنے والا زرِ مبادلہ ہماری معیشت کی شہہ رگ ہے۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں بار بار اس اَمر کا اعتراف کیا کہ خارجہ پالیسی کے اکثر اہداف اقتصادی مضبوطی ہی سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ ہم یقیناً ان ممالک کے شُکر گزار ہیں، جو جنگوں میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے، لیکن اس میں بھی دورائے نہیں کہ ہم نے بھی اپنے دوستوں کا ہر آزمائش میں ساتھ دیا۔ فلسطین کے مسئلے ہی کو لے لیں۔ہم نے اس کی خاطر امریکا، مغربی ممالک اور اسرائیل کی شدید مخالفت برداشت کی، جس میں بے پناہ مالی اور سفارتی نقصانات ہوئے، جب کہ ہمارے بہت سے قریبی دوست تل ابیب کے ساتھ دفاعی معاہدے اور اسٹریٹیجک پارٹنر شپ میں شامل ہیں۔ مسلم دنیا کے معاملے میں ہمارا موقف واضح ہے، ہم کسی صورت بھی ان کے خلاف کسی کارروائی میں حصّے دار نہیں ہوں گے، لیکن اس کو کیا کہیے کہ ہمارے برادر مُلک خود مسلمانوں کے خلاف کبھی اپنے شہروں اور کبھی دوسرے مُلک میں جنگیں کرتے ہیں۔ 

شام ،یمن، عراق،ایران اور تُرکی میں کیا ہوتا رہا ہے، یہ وہ خود بھی جانتے ہیں۔کسی کے معاملے میں دخل اندازی اندرونی معاملہ کہلائے گا، لیکن سب ممالک کے لیے یہ احتیاط لازم ہے۔ مسلم ملک، کسی مسلم مُلک ہی کے خلاف جنگ کرے یا اس میں حصّہ لے، تو حسّاس معاملہ اور غیر مُلکی سازش، لیکن اگر کوئی بیرونی طاقت یہی عمل کرے، تو اُمّہ کو خطرہ۔ اگر ہم اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے اپنی صفوں کو تو درست کرلیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت معیشت کی مضبوطی ہے۔ کیوں کہ اقتصادی مضبوطی کے بغیر اپنے عوام کی خدمت ہوسکتی ہے اور نہ اسلامی ممالک میں کوئی مقام بن سکتا ہے۔حالیہ سفارتی تجربات شاید آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہوں۔ بار بار شکایت ہوتی ہے کہ اقتصادی مفادات آڑے آگئے۔

عرب ممالک میں ہمارے مفادات کی نوعیت کیسی ہے، بار بار دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ بلاشبہ مہاتیر محمّد اور اردوان نے اپنے مُلکوں کو غیر معمولی ترقّی دی اور وہ مسلم دنیا کے لیے رول ماڈل بنے۔مہاتیر طویل ریٹائرمنٹ کے بعد ایک بار پھر سیاست اور اقتدار میں آئے ہیں۔ تاہم، اُن کی پالیسیز وہ نہیں، جو 80 ء اور90 ء کے عشروں میں تھیں۔ ملائیشیا کی معیشت آج زبردست دبائو میں ہے، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ صرف ماضی کے امیج میں جی رہا ہے۔اِسی طرح تُرکی بھی فوجی بغاوت، آئین میں صدارتی تبدیلی، کُردوں کے خلاف محاذ آرائی اور شامی خانہ جنگی کے اثرات سے گزر رہا ہے۔اُسے امریکا اور یورپ سے مسلسل محاذ آرائی کے نتیجے میں معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ مہاتیر محمّد اور صدر اردوان ہی ان معاملات کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ہم تو اپنی کم زور معیشت کی وجہ سے صرف سُننے کی پوزیشن میں ہیں، کچھ کہہ نہیں سکتے۔ کشمیر پر جس طرح اُنہوں نے ساتھ دیا، وہ تاریخ کا حصّہ بن چکا۔ 

اسی جذبے سے اگر اسلامی اتحاد کی بات کی جائے، تو کیا بہتر نہ ہوگا کہ وہ خود اپنے اختلافات عرب دنیا سے ختم کرلیں۔ تُرکی، خاص طور پر حالیہ زمانے میں سعودی عرب اور عرب ملکوں کے بہت قریب رہا ہے، شام کی خانہ جنگی میں وہ شانہ بہ شانہ کھڑے رہے، تو کیا پھر سے اُن رشتوں کو استوار کرنا ناممکن ہے ؟جب کہ کل کے دشمن روس سے تو وہ کُھل کر بات کر رہا ہے، حالاں کہ وہ نیٹو میں بھی شامل ہے، جس کا لیڈر بہرحال امریکا ہے۔ صدر اردوان میں بلاشبہ یہ صلاحیت ہے کہ وہ مسلم دنیا کے اتحاد میں مرکزی کردار ادا کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی باقی دنیا کو بھی ایک پیج پر لا سکتے ہیں، لیکن پاکستان کو آج جتنی ضرورت اپنی معیشت اور اقتصادی پالیسی پر توجّہ دینے کی ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ تو بہتر ہوگا کہ ہمارے برادر ہمیں چوائس کی آزمائش میں ڈالنے کی بجائے ہم سے ٹوٹے رشتے جڑوانے کا کام لیں۔

تازہ ترین