• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا بَھر میں اموات کی چھٹی بڑی وجہ امراض گُردہ ہیں

بات چیت: عالیہ کاشف عظیمی

(عکّاسی: اسرائیل انصاری)

عالمی ادارۂ صحت، انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف کڈنی فائونڈیشن کے باہمی اشتراک سے دنیا بَھر میں ہرسال مارچ کی دوسری جمعرات کو’’ گُردوں کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے،جس کا مقصد گُردوں سے متعلق معلومات اور احتیاطی تدابیر عام کرنا ہے، تاکہ بروقت تشخیص اور علاج ممکن ہوسکے۔ امسال یہ دِن12مارچ کومنتخب کردہ تھیم "Kidney Health For Everyone Everywhere-From Prevention To Detection And Equitable Access To Care" کے ساتھ منایا جائے گا۔یعنی ’’گُردوں کی صحت ہر جگہ، ہر کسی کے لیے-تشخیص سےروک تھام اور دیکھ بھال تک مساوی رسائی‘‘۔ دُنیا بَھر سمیت پاکستان میں گُردوں کے عوارض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جو ماہرینِ طب کے لیے تشویش ناک ہے۔اس ضمن میں معروف نیفرولوجسٹ ،پروفیسر ڈاکٹر خُرم دانیال سے تفصیلی بات چیت کی گئی۔

ڈاکٹرخُرّم نے1997ء میں سندھ میڈیکل کالج، کراچی سےطب کی ڈگری حاصل کی۔2006ء میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف پاکستان سے نیفرولوجی میںایف سی پی ایس کیا۔ بعد ازاں،لیاقت نیشنل اسپتال، کراچی سےمنسلک ہوگئے۔فی الوقت عباسی شہید اسپتال، کراچی کے شعبۂ نیفرولوجی کے سربراہ ہونے کے ساتھ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز کے ایڈیشنل ڈائریکٹرکی ذمّے داریاںبھی نبھا رہے ہیں۔ نیز،کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں۔ جب کہ ان کی نگرانی میں تقریباً 13چیریٹی ڈائی لیسسز یونٹس بھی کام کررہے ہیں۔متعدّد تحقیقی مقالہ جات لکھ چُکے ہیں، کئی فزیشنز، نیفرولوجسٹس کو تربیت بھی فراہم کی۔ ڈاکٹرخُرّم دانیال سے ہونے والی بات چیت ملاحظہ فرمائیں۔

س: ایک عام فرد کے سمجھنے کے لیے بتائیں کہ گُردے جسم میں کیا کام سر انجام دیتے ہیں؟

ج: گُردوں کا بنیادی کام خون کی صفائی یعنی اس میں موجود غیر ضروری اجزاء یا فاسد مادّوں کو بذریعہ پیشاب خارج کرنا ہے۔ علاوہ ازیں،خون میں موجود نمکیات متوازن رکھنا، تیزابیت (پی ایچ) اور پانی کی مقدار کنٹرول کرنا، خون بنانے میں مدد فراہم کرنا بھی ان کے افعال میں شامل ہیں۔ نیز، کیلشیم، فاسفورس اور وٹامن ڈی کی فعالیت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کسی بھی سبب گُردے کم زور ہوجائیں،تو گُردوں کے افعال سمیت دِل اور دیگر جسمانی اعضاء کی کارکردگی بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔

س: ورلڈ کڈنی ڈےکے لیے جو تھیم منتخب کیاگیا ہے،اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

ج: گزشتہ چند عشروں سے گُردوں کے عوارض کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔جیسا کہ 1990ء میں اموات کا سبب بننے والی بیماریوں میں امراضِ گُردہ کا نمبر 27واں تھا۔2010ء میں یہ 15واں ہوا اور 2016ء کے بعد سے چھٹے نمبر پر شمار کیا جارہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے مختلف تحقیقاتی رپورٹس میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگراب بھی اس جانب توجّہ نہ دی گئی تو 2030ء-2035ء تک یہ مرض پانچویں نمبر پر آجائے گا،لہٰذامذکورہ تھیم منتخب کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہر سطح تک اس حوالے سے بنیادی معلومات فراہم کی جائیں۔

س: ہمارے یہاںگُردوں کےکون کون سے امراض عام ہیں؟

ج: گُردوں کی خرابی کی بڑی وجوہ ذیابطیس، بُلند فشارِخون جیسے امراض سیلف میڈی کیشن اوردرد کُشا ادویہ کا طویل عرصے تک استعمال ہے،جب کہ ہمارے یہاں پیشاب کا انفیکشن، گُردے میں پتھری،گُردوں کے افعال میں کمی اورنیفروٹک سینڈروم وغیرہ گُردوں کے عام امرا ض ہیں۔

س:گُردوں کے دائمی امراض کی علامات سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: گُردوں کے عوارض کو پروگریسیو ڈیزیز زبھی کہا جاتا ہے۔ یعنی مسلسل بڑھنے والے امراض، مگر بدقسمتی سے گُردوں کے دائمی امراض کی علامات تاخیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔ ان علامات میں چہرے اور پائوں کا وَرم، بلڈ پریشر بڑھنا،تھکاوٹ، بھوک میں کمی، پیشاب میں خون کا اخراج یا جھاگ بننا،مثانے میں جلن، اُلٹیاں،متلی اور سانس پھولنا وغیرہ شامل ہیں۔

س:گُردوں کی پتھری سے متعلق بھی بتائیں،کس قسم کی پتھریاں ہوسکتی ہیں اور کیوں؟ علاج کے طریقے کیا کیا ہیں،کون سی پتھری ادویہ سے زائل ہوجاتی ہے، کس کے لیے لیتھو ٹریپسی(Lithotripsy)کی ضرورت پڑتی ہے اور کس کے لیے سرجری کی؟

ج: گُردے میں پتھریوں کی چار اقسام بہت عام ہیں،جنہیںطبّی اصلاح میں کیلشیم آکزی لیٹ(Calcium Oxalate)،کیلشیم فاسفیٹ(Calcium Phosphate)، یورک ایسڈ(Uric Acid)اور سِسٹین(Cysteine)کہا جاتا ہے۔پتھری کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں،جیسے پانی کم پینا، ہائی پروٹین کی غذا اور زائد نمک کا استعمال وغیرہ۔اگر علامات کا ذکر کریں، تو ان میں گُردے میں درد، پیشاب رُک رُک کر آنا، پیشاب میں جلن، انفیکشن اورخون کا اخراج سرِ فہرست ہیں۔ تشخیص کے لیے الٹراسائونڈ اور سی-ٹی اسکین تجویز کیا جاتا ہے۔ رہی بات علاج کی، تو اگر پتھری کا حجم 5ملی میٹرتک ہو، تو یہ قدرتی طور پر بذریعہ پیشاب خارج ہوجاتی ہے۔ اس سے زائد حجم ہو، تو پھر لیتھوٹریپسی یا سرجری کی ضرورت پیش آتی ہے اور سرجری کے دو طریقے ہیں، ایک اوپن سرجری اور دوسری اینڈو اسکوپی ۔ بعض کیسز میں یہ دونوں ہی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔

س:ایکیوٹ کڈنی اِنجری سے کیا مُراد ہے اور یہ کیوں ہوتی ہے؟

ج: ایکیوٹ کڈنی اِنجری میں کسی بھی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے گُردے کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ جیسے بعض اوقات ڈی ہائیڈریشن یا ڈائریا وغیرہ میں جسم میں پانی کی اس حد تک کمی واقع ہوجاتی ہےکہ گُردے وقتی طور پر کام چھوڑ دیتے ہیں۔ نیز، کسی بھی سبب خون کا اخراج اور زچگی میں زائد خون بہنا بھی ایکیوٹ کڈنی اِنجری کا سبب بن جاتا ہے۔ تاہم، علاج شروع ہونے کے بعدزیادہ سے زیادہ تین ماہ میں گُردے پہلے کی طرح افعال انجام دینے لگتے ہیں، لیکن اگر افاقہ نہ ہو، تو پھر یہ ایکیوٹ کڈنی اِنجری،دائمی عارضے میں میں شمار کی جاتی ہے۔

س:دائمی امراض کی تشخیص و علاج کا طریقۂ کار کیا ہے؟

ج:گُردوں کے عوارض کی تشخیص کے لیے خون اور پیشاب کے ٹیسٹس اورگُردوں کا الٹراسائونڈ(جس کے ذریعے گُردے کا حجم، گُردے ، مثانے میں پتھری یا گلٹی وغیرہ کی تشخیص ممکن ہے)تجویز کیاجاتا ہے۔ مرض اگر ابتدائی مرحلے میں ہو تو ادویہ کا استعمال مؤثر ثابت ہوتا ہے،لیکن ایڈوانس اسٹیج میں تشخیص کی صُورت میں ڈائی لیسسز اور ٹرانس پلانٹ کی طرف جانا پڑتا ہے۔

س: کیا گُردوں کا کوئی عارضہ سرطان کی صُورت بھی اختیار کر سکتا ہے؟

ج: نہیں، گُردوں کے عوارض سرطان کی صُورت اختیار نہیں کرتے۔ البتہ اگر سِسٹک ڈیزیز (Cystic Disease) کا بروقت علاج نہ کروایا جائے، تو وہ سرطان کا سبب بن سکتی ہے، مگرایسا بھی کم ہی کیسز میں ہوتا ہے۔

س: کیا شرحِ امراض کے اعتبار سے مَرد و خواتین میں کوئی تفریق ہے، نیز مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے ماہرین کی تعداد تسلّی بخش ہے؟

ج: گُردوں کے امراض کی شرح خواتین کی نسبت مَردوں میں بُلند ہے،جب کہ مریضوں کے اعتبار سے ماہرینِ گُردہ کی تعداد انتہائی کم ہے۔ تجربہ کار نیفرولوجسٹ تو تقریباً سب ہی بیرونِ مُمالک منتقل ہوچُکے ہیں۔ جو رہ گئے ہیں، اُن کے تجربے سے بھی استفادہ نہیں کیا جارہا کہ گزشتہ5برسوں میں سرکاری سطح پر امراضِ گُردہ کے حوالے سے کسی اسپتال یا سینٹر کا قیام عمل میں نہیں آیا۔

س: خواتین میں گُردوں کے کون کون سے امراض عام ہیں؟

ج:خواتین میں دورانِ حمل پیچیدگیوں کے سبب گُردے فیل ہوجانا سب سے عام ہے۔ علاوہ ازیں، گُردے اور پیشاب کا انفیکشن بھی خرابیٔ گُردہ کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اصل میں خواتین پانی کم پیتی ہیں اور دورانِ حمل باقاعدہ چیک اپ بھی نہیں کرواتیںاوریہ رجحان صرف گائوں دیہات ہی میں نہیں، شہروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ مَردوں کی نسبت خواتین کہیں زیادہ گُردہ عطیہ کرتی ہیں۔لگ بھگ 80 فی صد خواتین اپنے عزیز و اقارب کو کسی خدشے میں مبتلا ہوئے بغیر گُردہ عطیہ کردیتی ہیں، جب کہ مَردوں میں یہ شرح10فی صد پائی جاتی ہے۔

س:کیا گُردے کی جھلّی پر بھی بیماریاں حملہ آور ہو سکتی ہیں؟

ج:جی، گُردوں میں چھوٹے چھوٹے نیفرون (Nephron) پائے جاتے ہیں، جن کا کام خون کو چھاننا اور فاسد مادّوں کو پیشاب کے ذریعے خارج کرنا ہے۔ اگر ان میں کوئی خرابی واقع ہوجائے،تو عموماًپیشاب میں پروٹین اور خون کا اخراج ہونے لگتا ہے،جس کے سبب گُردوں کے کام کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے۔ ایسے میں اگر بروقت علاج نہ کروایا جائے، تو گُردے فیل بھی ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے یہاں نیفروٹک سینڈروم اورنیفرائٹک سینڈروم جیسے امراض عام ہیں۔

س:کیا تمباکو نوشی اور ہائی بلڈ پریشر بھی گُردوں کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتے ہیں؟

ج:جی بالکل،تمباکو نوشی دِل ہی نہیں گُردوں کے لیے بھی رسک فیکٹر ہے،لیکن اس سے گُردے فیل نہیں ہوتے، البتہ تمباکونوش افراد میں خرابیٔ گُردہ کے امکانات نسبتاً بڑھ جاتے ہیں۔جب کہ ہائی بلڈ پریشر تو خرابیٔ گُردہ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

س:وہ کون سے عوارض ہیں، جن کے لاحق ہونے کے باعث گُردے بھی متاثر ہوسکتے ہیں اور اگر ایسا ہوجائے ،تو کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں کہ ڈائی لیسسز کی نوبت نہ آئے؟

ج:گُردوں کی کارکردگی ذیابطیس اور بُلند فشارِ خون کے سبب زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، پتھری،پیشاب میں بار بار انفیکشن اور زائد کولیسٹرول بھی افعال میں خرابی کا باعث بنتے ہیں۔جہاں تک احتیاطی تدابیر کی بات ہے، تو اس ضمن میں سب سے اہم تو یہی ہے کہ اگر ان عوارض میں مبتلا ہیں، تو انہیں کنٹرول میں رکھا جائے، درد کُشا ادویہ صرف معالج کے مشورے سے استعمال کی جائیں، متوازن غذا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پانی پیئں اور سُرخ گوشت کم سے کم کھائیں۔

س:اگر کسی کا پیدائشی طور پر ایک گُردہ ہو،تو کس طرح کی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں؟

ج:پیدایشی طور پر ایک گُردے کے حامل افراد میں قدرتی طور پر ایک گُردہ دو کے برابر کام کرتا ہے اور کسی قسم کی پیچیدگی سامنے نہیں آتی۔ لیکن اگر ذیابطیس یا بُلند فشارِ خون میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی عوارض لاحق ہوجائیں، تو پھر کسی نیفرولوجسٹ سے باقاعدگی سے معائنہ کروایا جائے، تاکہ کسی قسم کی پیچیدگی پیدا نہ ہو۔

س: بچّوں میں گُردوں کے امراض سے متعلق بھی بتائیں؟

ج:بچّوں میں سب سے عام مرض وی یو آر(Vesicoureteral Reflux) ہے، جس میں مثانہ پوری طرح خالی نہیں ہوپاتا اور پیشاب گُردوں کی جانب چلا جاتا ہےیا اس میں جمع ہونے لگتا ہے۔پھربچّوں میں گلا خراب ہونا ایک عام مرض ہے،جو بعض اوقات گُردوں پربھی اثر انداز ہوتا ہے۔اِس مرض کو طبّی اصطلاح میں پی ایس جی این (PSGN:Poststreptococcal Glomerulonephritis) کہا جاتا ہے۔ تاہم، یہ تمام عوارض قابلِ علاج ہیں۔

س:اگرکسی حاملہ کے گُردے اچانک کام کرنا چھوڑ دیں، تو کیا ماں یا بچّے کی جان بھی جاسکتی ہے؟

ج: دورانِ حمل گُردے فیل ہونا، حاملہ اور شکمِ مادر میں پلنے والے بچّے کے لیےخطرناک ثابت ہوسکتاہے۔ اور یہی نہیں اگر بلڈ پریشر بڑھنے کی صُورت میں حاملہ کے جسم سے چربی بذریعہ پیشاب خارج ہو، تو یہ بھی خطرے کی علامت ہے۔اسے طبّی اصطلاح میں "Preeclampsia"کہا جاتاہے۔ اس مرض میں حاملہ کو جھٹکے بھی لگ سکتے ہیں۔علاوہ ازیں، ایکیوٹ فیٹی لیور آف پریگینسی(Acute Fatty Liver Of Pregnancy) ،ایچ یو ایس(Hemolytic–Uremic Syndrome)، ٹی ٹی پی(Thrombotic Thrombocytopenic Purpura) بھی حاملہ کے لیے کڈنی فیلیئر کی وجہ بن سکتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ دورانِ حمل باقاعدگی سے معائنہ کروایا جائے۔

س:علاج کے جدید ترین طریقوں سے متعلق بھی کچھ بتائیں ؟

ج:موجود دَور میں لیتھو ٹریپسی، ڈائی لیسسز اور ٹرانس پلانٹ کے لیے خاصی جدید مشینری متعارف کروائی گئی ہے، جو سو فی صد درست نتائج دیتی ہیں۔

س:عام طور پر ڈائی لیسز کی نوبت کب آتی ہے اور کیا یہ ایک تکلیف دہ طریقۂ علاج ہے؟

ج: جب گُردے 15 فی صد سے کم کام کررہے ہوں، تو ان کے افعال معمول پر لانے کے لیے ڈائی لیسسز کیا جاتا ہے، جو تکلیف دہ عمل نہیں ہے۔یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اگر عارضۂ گُردہ میں مبتلا مریض کو فیسٹولا بنوانے کا کہا جائے، تو لازماً بنوائیں۔ مشاہدے میں ہے کہ زیادہ تر مریض فیسٹولا نہیں بنواتے، تو ایمرجینسی میں ڈائی لیسسز کیا جاتا ہے تو گردن یا ران میں نلکی ڈال کر فیسٹولا بنانا پڑتا ہے،جو طبّی اصطلاح میںDL Catheterization" ـ"کہلاتاہے۔ یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے، جس میں انفیکشن کے بھی امکانات ہوتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ دو سے ڈھائی لاکھ نئے مریض ڈائی لیسز کرواتے ہیں، جن میں سے90فی صد ایڈوانس رینل فیلیئر (Advance renal failure) کےہوتے ہیں،ان میں سے25فی صد تین ماہ کے اندر انتقال کرجاتے ہیں، کیوں کہ انفیکشن کے سبب بار بار ڈی ایل کیتھرائیزیشن کرنی پڑتی ہے ۔بہرحال،ڈائی لیسسز ایک منہگا طریقۂ علاج ہے۔اگر ایک عام نجی اسپتال سے کروایا جائے، تو صرف ایک ماہ ہی کا خرچا تقریباً 55ہزار روپے ہے(اس میں دیگر اخراجات شامل نہیں)۔ ہاں البتہ ہمارے یہاں انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیزز میں روزانہ80سے100افراد کا مفت معائنہ اور 75 مریضوں کا ڈائی لیسسز کیا جاتا ہے۔ نیز، ورلڈ کڈنی ڈے کے موقعے پر75 بستروں پر مشتمل ایک اور ڈائی لیسسز یونٹ کا بھی افتتاح کیا جارہا ہے۔ہماری پوری کوشش ہے کہ این جی اوز اور مخیر افراد کے تعاون سے گُردوں کے علاج معالجے سے متعلق جدید سہولتیں مفت فراہم کی جائیں۔

س:گُردوں کی صحت کے لیے دِن بَھر میں اندازً کتنا پانی پیا جائے اور کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں؟

ج:ہر فرد اتنا پانی پیے کہ پیشاب کی رنگت سفید اور زبان تر رہے۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک فرد آٹھ، دس یا بارہ گلاس پانی پیے،کیوں کہ اگر کوئی آئوٹ ڈور کام کررہا ہے، تو ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کرکام کرنے والے کی نسبت اس کےجسم میں پانی کی طلب بڑھ جاتی ہے۔صحت مند طرزِ زندگی اپنائیں، ورزش بالخصوص پیدل چلنے کو ترجیح دیں اور کسی بھی قسم کے درد کی صُورت میں از خود کوئی دوا ہرگز استعمال نہ کریں۔

تازہ ترین