• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر کے پوش علاقے میں واقع کنونشن سینٹر ،برانڈڈ پرفیومز کی خوش بُو سے مہک رہا تھا،وہاں موجود قریباً ہر عورت جامنی رنگ یا اسی فیملی کے شیڈز میں رنگا لباس زیبِ تن کیے ہوئے تھی۔ ’’واؤ! تمہارا ڈریس کتنا حسین ہے۔‘‘ ایک ادھیڑ عُمر خاتون نے نوجوان لڑکی کے لباس کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ ’’ تھینک یو آنٹی! مَیں نے یہ جوڑاخاص طور پرآج کے ایونٹ کے لیے ڈیزائن کروایا ہے اور آپ نے میرے بال نہیں دیکھے، یہ پرپل ہائی لائٹس بھی تو آج ہی کے دن کے لیے ڈلوائی ہیں۔‘‘ دونوں کی باتیں سُن کر ہماری پہلی نظر لڑکی کے بالوں پر پھر لباس پر پڑی، بالوں میں توجامنی شیڈ نمایاں تھاہی ، پر یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ خاص طور پرڈیزائن کروانے کے با وجود بھی، ڈیزائنر ایک آستین لگانی بھول گیا اور لڑکی کا بڑاپَن دیکھیے کہ اس معصوم نے بِلا چوں چراں وہ سوٹ پہن بھی لیا۔

اگر ہماری دادی اُسے دیکھ لیتیں، تو کہتیں’’ہائے، ویچاری کِنّی غریب اے، اینّوکوئی چج دےکپڑے ای لے دِیو ‘‘ اب دادی کو کیا پتا کہ وہاں موجود خواتین کے پاس پیسوں کی نہیں، بس تہذیب کی تھوڑی کمی تھی۔خیر، کنونشن سینٹر کا ماحول انتہائی کلاسی تھا، عُمر رسیدہ خواتین سے لے کر چھوٹی بچیوں تک ،قریباً ہر کوئی انتہائی شستہ انگریزی بول رہا تھااور لب و لہجہ اتنا عمدہ کہ انگریز بھی حیران رہ جائیںاور اس پورے ماحول کو جامنی رنگ کے ٹیولپس کی سجاوٹ مزید دیدہ زیب بنا رہی تھی۔ یوں ہی دل میں خیال آیا کہ واہ بھئی! انسان تو انسان ، آج تو پھول بھی ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ منا رہے ہیں۔ابھی ہم انہی سوچوں میں گُم تھے کہ ’’خواتین پر ظلم و تشدّد‘‘ کے حوالےسے ایک ڈاکومینٹری دِکھا کر پروگرام کا با قاعدہ آغاز کر دیاگیا۔ بعد ازاں،’’ عالمی یومِ خواتین ‘‘کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی، خواتین کو ان کے حقوق کے حوالے سے آگہی فراہم کی گئی ،ہمارے معاشرے کی خواتین اور اُن پر ہونے والے ظلم و ستم کی داستانیںبیان کی گئیں۔خواتین کی آزادی ، مساوی حقوق ، مَردوں سے برابری ، خواتین ہی گھر کیوں سنبھالیں، کھانا کیوں پکائیں، سلیقہ کیوں اپنائیں جیسے سوالات اُٹھائے گئے۔

اس موقعے پر شہر کی نامی گرامی ’’ویمنز رائٹس ایکٹی وِسٹس‘‘ اسٹیج پر براجمان تھیں، جنہوں نےاپنے پُر جوش خطابات میں فیمینزم کے حق میں بات کی۔ بعد ازاں، پُر تکلّف عصرانے کا اہتمام کیا گیا،جس میں ہماری سماعتوں سے ’’آج کا ایونٹ سُپر ہِٹ تھا، مَیں تو بہت تھک گئی، ڈرائیورگاڑی نکالو ،مَیں آرہی ہوں،آج تو میری کام والی بھی چھٹّی پر ہے، اس مہینےاس کے پیسے کاٹوں گی ‘‘ جیسے مکالمات بھی ٹکرائےاور پھرکچھ ہی دیر میں حقوقِ نسواں کی’’ عَلم بردار‘‘ خواتین اور ان کی ہامی اپنے اپنے گھروں کولَوٹ گئیں۔ ایونٹ سے واپس آتے ہوئے ذہن میں بہت سی باتیں گردش کر رہی تھیں، جیسے کیاایونٹ آرگنائز کرنے والی اور وہاں مدعو خواتین کو واقعی تمام پاکستانی خواتین کا نمایندہ کہا جا سکتا ہےکہ ہماری عورت تو شرم و حیا کا پیکر، تہذیب و روایات کی امین ہے۔وہ تو مامتا سے بھرپور ،شفقت کی مُورت کھانا پکانے، گھر سنبھالنے، بچّے پالنےکو بوجھ نہیں سمجھتی ۔ پاکستانی عورت کا حقیقی چہرہ تو وہ ماں ہے، جو اپنی اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے اپنا تن من دھن سب وار دیتی ہے۔ 

 پاکستانی عورت کا حقیقی چہرہ تو وہ بیوی ہے، جو تنگ دَستی میں بھی شوہر کو تنہا نہیں چھوڑتی، بلکہ اس کا بازو بن کر کبھی گھر بیٹھے، تو کبھی ملازمت کرکے بھی اُس کا سہارا بنتی ہے۔ وہ بیٹی، بہن ہے، جو اپنے باپ، بھائی کا شملہ اونچا رکھنے کو اِک اِک قدم سینت سینت کے اُٹھاتی ہے۔ ہمیں توسمجھ نہیں آتا کہ یہ چند نام نہاد لبرلز، حقوقِ نسواں کے نعرے بلند کرتی خواتین آخر کون سی آزادی کی خواہاں ہیں۔ مغرب کی طرز پر مادر پدر آزادی، جہاں عورت کی کوئی عزّت ہے، نہ احترام، جہاں عورت کی حیثیت ایک ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں، جہاں بہنوں کے نخرے، لاڈ نہیں اٹھائے جاتے، جہاں تہواروں پر بچیوں کے لیے اضافی کپڑے نہیں بنتے، جہاں باپ،اپنی بیٹی کو زمانے کے سرد و گرم سے نہیں بچاتا۔

کوئی ان خواتین سے یہ تو پوچھے کہ اے ٹی ایم کے باہر، بینکس وغیرہ میں قطار میں لگتے وقت یہ مساوات کہاں چلی جاتی ہے، تب کیوں ’’لیڈیز فرسٹ‘‘ یاد آجاتا ہے؟ اگر مَردوں کی برابری ہی کرنی ہے تو میل ڈرائیورز بھی نہ رکھیں، گاڑی کی مرمّت ، ٹائر تبدیل کرنے جیسے کام بھی خود کریں۔بھاری سامان کی لوڈنگ سے لے کر جانور ذبح کرنے تک سارے فرائض خود ہی انجام دیں۔ یاد رکھیں، اسلام دینِ فطرت ہے، اللہ پاک سے بہتر اور کوئی نہیں جانتا کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے، وہ رحمٰن ہے، تو عادل بھی ہے، اسلام میں خواتین کوجو حقوق دئیے گئے ہیں، وہ یقیناً اُن کے لیے کافی اور سو فی صد مکمل ہیں۔

ہر سال ’’عالمی یومِ خواتین ‘‘ایک مخصوص تھیم کے تحت منایا جاتا ہے۔ اس سال یہ دن ’’Each for equal‘‘ اور ’’Generation Equality‘‘تِھیمز کے عنوانات سے منایا جارہا ہے۔ جس کا مقصد دنیا بھر میںصنفی مساوات قائم کرنا ہے۔یہ تھیم اس امر پر توجّہ مبذول کرواتا ہے کہ خواتین کو ہر شعبے میں مَردوں ہی کی طرح آگے بڑھنےاور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کےمواقع میسر آنے چاہئیں، چاہے وہ وَرک پلیس ہو ، بورڈ روم یا میڈیا کوریج … ہر جگہ صنفی مساوات ہونی چاہیےاور صرف اسی طرح دنیا مزید بہتر ہو سکتی ہے۔ اب اگر اسی تناظر میں وطنِ عزیز کا جائزہ لیا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری خواتین تو پہلے ہی ہر فیلڈ، ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں۔ 

مانا کہ انہیں بے انتہا مسائل دَر پیش ہیں، مَردوں کے اس معاشرے میں ان کے لیے آگے بڑھنا، اپنی قابلیت کے جوہر دِکھانا آسان نہیں، مگر وہ نعرے لگاتی، سڑکوں پر رُلتی بھی نہیں پھر رہیں۔ زندگی کے ہر چیلنج کو چیلنج کرکے ندی کی مانند راستہ بناتی ، آگے بڑھتی جا رہی ہیں۔ اور اُنہیں ان کاوشوں کے عوض کسی انعام، کسی شُہرت کا لالچ بھی نہیں۔ وہ مَردوں کو کم تر محسوس کروانے یا ان کی برابری کے لیے نہیں، اپنے بابا، بھیّا کا نام روشن کرنےکے لیے، تو کہیں بچّوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سخت محنت کر رہی ہیں۔ دَر حقیقت، یہی خواتین پاکستان کا اصل چہرہ ہیں، جو کھانا گرم کرنے کو اپنی توہین، حجاب کو قفس نہیں سمجھتیں، اپنے جسم کو اللہ کی امانت سمجھتی ہیں، اُس پر اپنی مرضی نہیں چلاتیں۔ ذیل میں ایسی ہی چند پاکستانی خواتین کا ذکر کیا جا رہا ہے، جنہوں نے سختیوں کے با وجود ہار نہیں مانی اور بس آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی ہیں۔

نور الصباح: یونی وَرسٹی آف ایجوکیشن ، فیصل آباد میں ایک پھل فروش کی بیٹی ، نور الصباح نے ایم ایس ،اکنامکس میں سونے کا تمغہ جیت کر والد ین کا سر فخر سے بلند کر دیا ۔ 

جب اس ہونہار بیٹی کو سونے کا تمغہ دیا گیا، تو اس نے وہ اعزاز اپنے والد کے نام کردیا۔اس موقعے پر نور الصباح کے والد نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ ’’میری بیٹی ایک ہونہار طالبہ ہے ، وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرناچاہتی تھی اور ہم نے آگے بڑھنے میں اس کی ہر ممکن مدد کی۔‘‘ والدین کا سر فخر سے بلند کرنے والی نور الصبا ح کا کہنا تھا کہ ’’ میرے باباپھل فروش ہیں اور والدہ گھر میں کپڑے سیتی ہیں۔مجھے تعلیم دلوانے کے لیے انہوں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا، دن رات محنت کی، پر مجھے کبھی کسی تکلیف کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ آج امّی، بابا کی وجہ ہی سے مَیں تعلیم مکمل کر پائی ہوں۔ یہ تمغہ میرا نہیں، میرے والدین کا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر سارہ قریشی: خواتین سے یہ اُمید کی جاتی ہے کہ وہ مخصوص شعبوں ہی تک محدود رہیں، یعنی بس وہی کام کریں، جس میں زیادہ دوڑ دھوپ، محنت، مشقّت نہ کرنی پڑے، لیکن پاکستانی ایروناٹیکل انجینیئر، ڈاکٹر سارہ قریشی نہ صرف ہواباز ہیں، بلکہ فضائی کرتب دِکھانے کی بھی ماہر ہیں۔

ڈاکٹر سارہ قریشی نے ایک ایسا انجن ایجاد کیا ہے، جو اس ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں مدد دے گا ،جو ہوائی جہازوں کے ذریعے فضا میں پھیلتی ہے۔ وفاقی دارلحکومت ،اسلام آباد میں پلی بڑھی، ڈاکٹر سارہ نے برطانیہ کی کرین فیلڈ یونی وَرسٹی سے ایرو اسپیس پروپلژن میں پی ایچ ڈی کیا ۔ جس کے لیے اُن کا مقالہ ’’ماحول دوست انجن ‘‘کے موضوع پر تھا۔ وطن واپس آکرانہوں نے اپنے والد، مسعود لطیف قریشی کی مدد سے اپنی تحقیق پر عملی کام شروع کیا، جس سے فضا میں جہازوں کے ایندھن سےپیدا ہونے والی آلودگی پر قابو پایا جا سکے گا۔واضح رہے کہ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم انہوں نے وظائف کے ذریعے مکمل کی۔

وہ بچپن ہی سے ہوا بازی کے شعبے سے متاثر تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آسمان کا مسئلہ زمین سے زیادہ سنگین ہے، کیوں کہ فضا میں آلودگی کم کرنے کے لیے درخت نہیں لگائےجا سکتے۔جہازوں کے انجن سے خارج ہونے والا دھواں فضائی آلودگی اور عالمی حدّت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔اس کے علاوہ ہر کسی کو اپنی صلاحیتوں کاادراک ہونا چاہیے۔ جب ہم ایک قدم اُٹھاتے ہیں ، تو باقی راستے خود ہی بنتے چلے جاتے ہیں۔ میرے پاس کئی نوجوان آتے ہیں، جو مجھ سے اپنے مستقبل اور شعبوں کے حوالے سے سوال کرتے ہیں، پر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم جس شعبے میں جانا چاہتے ہیں،اس کا پاکستان میں کوئی اسکوپ نہیں، تومَیںسب سے یہی کہتی ہوں کہ کسی بھی چیز کاا سکوپ ہم خود بناتے ہیں،ہماری محنت ہی ہمیں کسی شعبے میں کام یاب اور نام وَر کرتی ہے اور اس حوالے سے خواتین کو بالخصوص اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔‘‘

صبا گُل: کون کہتا ہے کہ پاکستانی بچّیاں کم زورو ناتواں ہیں۔وہ تو ایک مضبوط چٹان کی صُورت ہیں۔ ایک بار کچھ کرنے کی ٹھان لیں، تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے حوصلے پست نہیں کر سکتی۔

خیبر پختون خوا کے ضلعے، بونیر کی صبا گُل بھی ایسی ہی ایک بچّی ہے، جس نے معذوری کو اپنی مجبوری نہیں بننے دیا۔ 2005ءکے ایک تاریک دن ،تین سال کی معصوم، صبا گُل پر بجلی کا تار آگرا۔ والدین اسے فوری طور پراسپتال تو لے گئے، مگرننھّی کلی دونوں ہاتھوں سے محروم ہو گئی۔ جوحوصلوں سے اُڑتے ہیں، وہ پَروں کے محتاج نہیں ہوتے، تو صبا نےبھی اپنی معذوری کوتعلیم کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیااور آج یہ بچّی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے۔صبا گُل لکھنے پڑھنےسے لے کر کپڑے استری کرنے، بال بنانےاور کھانے پینے تک تمام امور اپنے پَیروں سے انجام دیتی ہے۔ اُس کا خیال ہے کہ ’’ہاتھوں کے بغیر زندگی واقعی بہت مشکل ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مجھےہر کام پَیروں سے کرنے کی عادت ہو گئی ہے۔اب مَیں خود کو نارمل لڑکی ہی سمجھتی ہوںاورمیرا ماننا ہے کہ انسان کو زندگی میں آنے والی تمام ترمشکلات کا سامنا جرأت و ہمّت ہی سے کرنا چاہیے۔‘‘

شانزہ منیر :لوگ سمجھتےہیں، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں لڑکیاں کچھ کم ہی دل چسپی لیتی ہیں، لیکن شاید وہ جانتے نہیں کہ پاکستانی لڑکیاں کسی میدان میں بھی پیچھے نہیں۔ 

آج کے اس ’’اسمارٹ دَور‘‘ میں ،جہاں ہر کوئی اسمارٹ فونز، نِت نئے گیجٹس خریدنے کی دَوڑ میں لگا ہے، وہیں گورنمنٹ کالج یونی وَرسٹی، فیصل آباد میں زیرِ تعلیم ، شانزہ منیر نے نابینا افراد کے لیے ’’اسمارٹ شُوز‘‘ متعارف کروائے ہیں۔ان جوتوں کی خاص بات یہ ہے کہ انہیں پہننے کے بعد نابینا افراد کو 200سینٹی میٹر کے دائرے میں موجود تمام تررکاوٹوں کا پتا چل جائے گا۔ شانزہ نے اسمارٹ شُوز، یو نی وَرسٹی پراجیکٹ کے طور پر متعارف کروائے ہیں۔ ان میں الارم اور وائبریٹر لگے ہیں ، جو ریچارج ایبل بیٹری سے چلتے ہیں۔جوتوں کی تیاری پر قریباً 10سے 12ہزار روپے تک کی لاگت آئی ۔ اگر شانزہ کے پراجیکٹ کو بڑے پیمانے پر تیار کیا جائے، تو اس لاگت میں نہ صرف کمی آسکتی ہے، بلکہ مُلک میں موجود کئی نا بینا افراد کی مدد بھی ہو سکتی ہے۔

رابعہ شہزاد:اسکاٹ لینڈ میں ہونے والی ’’گلاسگو اوپن کلاسیک ویٹ لفٹنگ چیمپئن شِپ 2020 ء‘‘ میں پاکستانی ویٹ لفٹر ،رابعہ شہزاد نے سونے کا تمغہ جیت کر مُلک و قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔21سالہ رابعہ شہزاد ، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن ،(آئی بی اے) کراچی میں زیرِ تعلیم ہیں۔

یہ رابعہ کی کوئی پہلی کام یابی نہیں ، انہوں نےگزشتہ برس اکتوبر میں برطانیہ کی ’’ہیمپشائر ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ‘‘ میں بھی گولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا۔وہ گزشتہ تین برس سے ویٹ لفٹنگ کر رہی ہیں۔ رابعہ کے والد کو کھیلوں سے بہت لگاؤ ہے اور وہ بچپن میں ان کے ساتھ کُشتی بھی کرتی تھیں۔جب رابعہ نے ویٹ لِفٹنگ کا آغاز کیا، تو والدہ نےاس پر اعتراض کیا کہ ’’یہ کیا مَردوں والا کام شروع کر دیا ہے‘‘ حتیٰ کہ نانی، دادی، خالائیں وغیرہ سب ہی ویٹ لفٹنگ کےبہت خلاف تھیں، پر ان کے والد نے بیٹی کا بھر پور ساتھ دیا۔ رابعہ اپنےگھر کے ڈائننگ رُوم میں ویٹ لفٹنگ کی مشق کر تی ہیں کہ باہر ایسی کوئی سہولت میسّر نہیں،جہاں وہ پریکٹس کر سکیں۔

شاہدہ عباسی :گزشتہ برس نیپال کے دارالحکومت، کٹھمنڈو میں 13ویں ساؤتھ ایشین گیمز کا انعقاد ہوا، تو خبر آئی کہ ’’پاکستان نے ساؤتھ ایشین گیمز میں اپنا پہلا گولڈ میڈل جیت لیا ہے‘‘ ۔ 

جس نے مُلک کو یہ تمغہ جتوایا، وہ کوئی مرد نہیں،کوئٹہ کے ہزارہ قبیلےسے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کھلاڑی، شاہدہ عباسی تھیں۔کاتا کراٹے کے مقابلوں میں شاہدہ عباسی نے نیپالی حریف کے خلاف میچ میں باآسانی 25-42 کے اسکور سے کام یابی حاصل کی۔وہ اس سے قبل سیف گیمز میں بھی سونے کا تمغہ جیت چُکی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ شاہدہ کو بچپن سے کراٹے کا شوق نہیں تھا، وہ تو اپنے بھائی کو کراٹے کلب میں داخل کروانے گئی تھیں، جہاں لڑکیاں بھی کراٹے سیکھ رہی تھیں، توانہوں نے بھی سیکھنے کا فیصلہ کرلیا۔

صفیہ ترک:صفیہ ترک کا تعلق ایک پس ماندہ دیہی خاندان سے ہے، جہاں لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنامعیوب سمجھاجاتا ہے۔ لیکن جب ایک باپ اپنی اولاد کے لیے کچھ کرنے کی ٹھان لے، تو پھر راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آ سکتی۔ صفیہ کے والد پولیس کانسٹیبل تھے، جن کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے ۔ اس ضمن میں انہوں نے گاؤں والوں کی ایک نہ سُنی اور بچّی کو تعلیم دلوانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بد قسمتی سے 2007ء میں اُن پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ بستر پر آگئے۔ 

جس کے بعد صفیہ کی والدہ نے یہ بیڑہ اُٹھایا۔ صفیہ نے پہلےانگریزی میں ماسٹرزکیا ، بعد ازاں 2018ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے والدین کا خواب پورا کر دیا، مگر افسوس کہ اُسے افسر بنانے کا خواب دیکھنے والی آنکھیں بند ہو چُکی تھیں۔ قریباً 9 سال کی علالت کے بعد 2016ء میں صفیہ ترک کے والد کا انتقال ہوگیا ۔ صفیہ کے والد، صفیہ کو افسر بنتا تونہ دیکھ سکے، مگر اُن کے ایک خواب نے گاؤں کی دیگر بیٹیوں کے لیے تعلیم کی راہیں ہم وار کر دیں۔ واضح رہے کہ صفیہ ترک اپنے پورے گاؤں اور خاندان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی پہلی لڑکی ہیں۔

سبیلا غلام حُسین: راول پنڈی کے پوش علاقے ،چکلالہ اسکیم تِھری میں سڑک کے کنارے ’’ماں جی برگر پوائنٹ‘‘ چلانے والی پچاس سالہ سبیلا حُسین، المعروف ’’ماں جی‘‘ ہمّت و حوصلے کی مثال ہیں۔ سخت ترین حالات کے با وجود ماں جی نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ 

مَردوں کے بیچ ، سڑک پر اسٹال لگانا کوئی آسان کام نہ تھا، مگر جب ایک ماں کے سامنے بچّوں کی بھوک اور خالی پیٹ ہو، تو اللہ پاک اُسے خود ہی طاقت دے دیتا ہے۔ ماں جی کے گھر کے واحد کفیل اُن کے شوہر تھے، جو بیمار ہوگئےاور گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ جب ایک روز ان کے دس سالہ بیٹے نے ناشتا مانگا ، تو گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ بس اُسی دن انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ بنا کسی مدد کے وہ رزقِ حلال سے شوہر کا علاج بھی کروائیں گی اور بچّوں کا پیٹ بھی پالیں گی۔ انہوں نے بر گر کا اسٹال لگایا اور روزگار کا آغاز کر دیا۔وہ دن کے صرف چار گھنٹے آرام کر تی ہیںاوراتنی محنت صرف اس لیے کررہی ہیں تاکہ ان کے بچّے پیٹ بھر کھانا کھا سکیںاور اچھی تعلیم و تربیت بھی حاصل کر سکیں۔

گُل بانو:خیبر پختون خوا کے ضلعے، بنّوں سے تعلق رکھنے والی ،گُل بانو جب سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے بنّوں سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز (پی اے ایس) کی پہلی خاتون افسر بنیں تو ان کی کام یابی نے علاقے کی لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم کی راہیں ہم وار کر دیں۔ اُن کے والدین محکمۂ تعلیم سے وابستہ تھے۔

تاہم، بنّوں کے خراب حالات کے باعث وہ کافی عرصہ پہلے پشاور منتقل ہوگئے ۔ گل بانو نے ابتدائی تعلیم یونی وَرسٹی ماڈل اسکول، پشاور سے حاصل کی ، بعد ازاں جناح کالج فار ویمن سے انٹر اور پشاور یونی وَرسٹی سے ایم بی اے کیا۔گُل بانو کو سی ایس ایس کا شوق اپنے بڑے بھائی کو دیکھ کر ہوا، انہوں نے سوچا کہ جب بھائی یہ امتحان پاس کر سکتے ہیں، تو مَیں کیوں نہیں۔وہ مردان تحصیل کی پچاس سالہ تاریخ میں تعیّنات ہونے والی پہلی خاتون اسسٹنٹ کمشنر ہیں۔ گُل بانو کا کہنا ہے کہ ’’مجھے دیکھ کر ایڈمنسٹریٹو عُہدوں پر بھی خواتین افسروں کے لیے راستے کُھل رہے ہیں۔ کئی والدین اپنے بچّوں کی تعلیم کے حوالے سے مجھ سے رہنمائی حاصل کرنے آتے ہیں۔ ‘‘

فرحین اشتیاق:سجنا، سنورنا، اچھا لگنا ہر عورت کی فطری خواہش ہے، لیکن لاہور کے انارکلی بازار میں ٹک شاپ چلانے والی ایک خاتون نے دانستہ مَردوں کا حلیہ اپنا رکھا ہے،تا کہ عورت سمجھ کر کوئی انہیں تنگ نہ کرسکے۔ 41سالہ فرحین اشتیاق صبح سویرے مَردوں کی طرح کپڑے پہن کر ٹک شاپ پہنچ جاتی ہیں ۔

کراچی سے تعلق رکھنے والی فرحین اشتیاق کا، 9سالہ بیٹی ردا زہرہ کے سوا اور کوئی نہیں ۔ وہ اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت، گھر چلانے ہی کے لیے محنت مزدوری کر رہی ہیں۔ در اصل فرحین نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی ، جس کے بعد خاندان والوں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا۔ تاہم، بیٹی کی پیدایش سے چند ماہ قبل ان کا شوہر انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ لیکن فرحین نے واپس پلٹنے کے بجائے اپنی بیٹی کو اکیلے پالنے کا فیصلہ کیا اور کراچی سے لاہور منتقل ہوگئیں۔

جمیلہ:بہاول نگر کی جمیلہ کہنے کوتو ایک عام سی عورت ہے، لیکن وہ جو کر رہی ہے، وہ کئی تعلیم یافتہ، با شعور خواتین بھی نہیں کر تیں۔ 

جمیلہ کا شوہر نا بینا ہے، لیکن اس نےکبھی اس بات کا شکوہ نہیں کیا،اُلٹا اپنے شوہر کا سہارا بن گئی۔ کچّے مکان میں رہنے والی جمیلہ نے موٹر سائیکل چلانی سیکھی اور اب وہ روز صبح اپنے شوہر کے ساتھ مارکیٹ جاتی ہے، وہاں سے سودا سلف خرید کر اپنی پرچون کی دُکان پر واپس آتی ہےاور پھر دونوں میاں بیوی صبح سے شام تک دکان داری کرتے ہیں۔ شوہر وںسے نئی نئی فرمائشیں کرنے والی بیویاں تو اَن گنت ہیں، لیکن کم تعلیم کے با وجود شوہر کی محرومی سے سمجھوتا کرکے اُس کا سہارا بن جانے والی بیویاں کم ہی ہوں گی۔ اور جمیلہ ایک ایسی ہی مثالی بیوی ہے۔

شفقت بانو:کراچی سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ شفقت بانو ایک پس ماندہ علاقے میں بچّوں کی کھانے پینےکی اشیا کا ٹھیلا لگاتی ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے، جس عُمر میں لوگ ریٹائرڈ زندگی گزارتے، آرام کرتے ہیں، اُس عُمر میں یہ با ہمّت خاتون گلیوں میں بچّوں کے کھانے پینےکی اشیا فروخت کررہی ہیں۔ 

شفقت بانو نےقریباً 40 سال قبل ،شوہر کے انتقال کے بعد اس کام کا آغاز کیا تھا، تب مقصد بچّوں کا پیٹ پالنا تھا۔ تاہم، بچّوں کو پال پوس کر شادی بیاہ کرنے کے بعد بھی اُن کی زندگی میں سکون نہیں آیا کہ ان کی اولاد ہی نے انہیں گھر سے نکال دیا ہے۔اور اب وہ اس ضعیفی میں بھی اپنے گزر اوقات کا انتظام خود کرنے پر مجبور ہیں۔

شائستہ حکیم: سوات میں مٹّہ کے ایک قصبے، چیریال سے تعلق رکھنے والی شائستہ حکیم ، سوات یونی وَرسٹی سےابلاغِ عامّہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں ۔ ان کے والد بیرونِ مُلک مقیم ہیں، جب کہ والدہ گھریلو خاتون ہیں۔

شائستہ کے والدین نا خواندہ ہیں، لیکن انہوں نے اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ شائستہ حکیم نے گورنمنٹ گرلز کالج، مٹّہ سے میٹرک اورسیدو شریف گرلز کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔انہوں نے صحافت میں آنے کا فیصلہ اُسی وقت کرلیا تھا، جب سوات میں شورش کی وجہ سے وہ بی اے کے امتحانات نہیں دے سکی تھیںاور ان کےاہلِ خانہ کو سوات سے نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔شائستہ کہتی ہیں، ’’جب مَیں نے صحافیوں کو جان ہتھیلی پر رکھے، دن رات رپورٹنگ کرتے دیکھا، تو مَیں نے بھی پکّا ارادہ کرلیاکہ مَیں بھی اسی طرح رپورٹنگ کروں گی اور لوگوں کو باخبر رکھوں گی۔‘‘جب یونی وَرسٹی میں داخلے کامرحلہ آیا، تو شائستہ نے گھر والوں کے سامنے شعبۂ ابلاغِ عامّہ میں داخلے کی خواہش کا اظہار کیا، جس پر والدہ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’خاندان والے تمہارا اس شعبے میں جاناہر گز پسند نہیں کریں گے‘‘۔ تاہم، شائستہ کے بہن، بھائی اور والد نے انہیں مکمل سپورٹ کیا۔سوات کی اس نڈر صحافی نے زمانۂ طالب علمی ہی میں ایک مقامی اخبار میں کالم لکھنے شروع کر دئیے تھے، جہاںسے بعد ازاں انہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز بھی کیا۔ گوکہ وہ باحجاب ہیں، مگرمقامی روایتی ماحول کے سبب اُنہیںسخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں کی بہت کڑی کسیلی باتیں سُننے کو ملیں، مگرآج شائستہ ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں اور انتہائی اعتماد کے ساتھ، اپنی صحافتی ذمّے داریاں سر انجام دے رہی ہیں۔

اقصیٰ اجمل: نیشنل یونی وَرسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ)میں زیرِ تعلیم ،انڈسٹریل ڈیزائننگ کی طالبہ ، اقصیٰ اجمل نے رواں برس بصارت سے محروم اورکم زور بصارت کے حامل افراد کے لیے ’’pursewit‘‘نامی ایک انوکھی سلائی مشین ڈیزائن کی ہے، جس کی مدد سےنا بینا افراد بنا کسی رکاوٹ کے سلائی کرکے با عزّت روزگار کما سکیں گے۔

یہی نہیں، قوم کی ہونہار بیٹی نے اپنی اس ایجاد پر ’’لیکسس ڈیزائن ایوارڈ 2020ء‘‘بھی اپنے نام کرکے مُلک و قوم کا نام روشن کر دیاہے۔واضح رہے کہ میلان میں منعقد ہونے والے لیکسس ڈیزائن ایوارڈ 2020ء میں دنیا بھر سے 2042 اینٹریز بھیجی گئی تھیں، جن میں سے 6 کو فائنل کے لیے منتخب کیا گیا اور ایوارڈ کی حق دار پاکستانی طالبہ اقصیٰ اجمل قرار پائیں۔ ان کااس سلائی مشین کے حوالے سےکہنا ہے کہ ’’میری ایک سہیلی ایک حادثے میں بصارت سے محروم ہو گئی تھی، جس سے اس کی پڑھائی متاثر ہوئی ، تو مَیں نے اپنی دوست اور اس جیسے دیگر پاکستانیوں کےمستقبل کےبارے میں سوچتے ہوئےاس پراجیکٹ کو ڈیزائن کیا۔ ‘‘

یہ ہیں، وہ عام عورتیں، مشرقی عورتیں۔ مسلمان اور پاکستانی خواتین کی نمائندہ خواتین۔ جو ہر شعبے، ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہے۔ انہیں اپنا کام کرنے، مطالبات منوانے کے لیے کسی ریلی، مارچ کا حصّہ بننے کی ضرورت نہیں کہ ان کا کام ہی ان کی پہچان ہے۔

یاسمین لاری: پاکستان کی پہلی کاتون آرکیٹیکٹ

کچھ لوگوں کا مثالی کام ہی اُن کی پہچان ہوتا ہے۔یاسمین لاری کا شمار بھی ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے،پاکستان کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ، یاسمین لاری نے مشہور’’ جین ڈریو ایوارڈ 2020 ء‘‘ جیت کر مُلک و قوم کا سر فخر سے بلند کردیا۔ انہیں یہ ایوارڈ فنِ تعمیر اور آرکیٹیکچر میں خواتین کی پروفائل بہتر بنانے پر دیا گیا ۔واضح رہے کہ جین ڈریو ایوارڈ، اُن خواتین کو دیا جاتا ہے جو مَردوں کے لیے مخصوص شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیتی ہیں۔

یاسمین نے 1964ء میں آکسفورڈ بروکس آرکیٹیکچر اسکول سے گریجویشن کیا، مگر وہاں کیریئر بنانے کے بجائے پاکستان آنے کو ترجیح دی۔ وہ کراچی میں فنانس اینڈ ٹریڈ سینٹر (ایف ٹی سی)، پاکستان اسٹیٹ آئل ہاؤس سمیت کئی اہم عمارتیں ڈیزائن کر چُکی ہیں۔ لاہور میں انگوری باغ ہاؤسنگ پراجیکٹ اور کراچی میں لائنز ایریا ری سیٹلمنٹ بھی ڈیزائن کیا ۔وہ نہ صرف اہم عمارات ، بلکہ زلزلہ زدگان کے لیے خصوصی گھر بھی تعمیر کر چُکی ہیں۔ اُن کی ان ہی خدمات کے باعث انہیں ستارۂ امتیاز سمیت، کئی مُلکی اور غیر مُلکی ایوارڈ ز سے نوازا جا چُکا ہے۔

طریقے سلیقے سے بھی اہمیت اُجاگر کی جاسکتی ہے، تنزیلا خان

تنزیلا خان دنیا میں آئیں تو ڈاکٹرزنے ان کے والدین کوبتایا کہ ان کا نچلا دھڑ قریباً مفلوج ہے، یعنی وہ پیدایشی طور پر کم زورو ناتواں تھیں۔ لیکن جسمانی کم زوری ان کی تعلیم و تربیت، خوابوں کی راہ میں ہر گز حائل نہ ہوئی اور آ ج وہ ایک لکھاری، انٹرنیشنل پبلک موٹیویشنل اسپیکر، ٹرینر،پروڈکشن ہاؤس اونراورکھلاڑی کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ انہیں دو بار اقوامِ متحدہ سے خطاب کے لیے مدعو کیا جا چُکا ہے،وہ اسپیشل اولمپکس میں بھی حصّہ لے چُکی ہیں اور اب پاکستان میں ڈِ س ایبلٹی پر پہلی شارٹ کامیڈی فلم، ’’فروٹ چاٹ‘‘ بھی بنا رہی ہیں۔ اس فلم کے حوالےسے تنزیلا کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے یہاں بد قسمتی سے جب بھی معذور افراد کی بات کی جاتی ہے، تو انہیں بے چارہ ہی کہا جاتا ہے، ہم(مَیں اور میری ٹیم) یہ نظریہ بدلنا چاہتے ہیں۔

ہم یہ آگہی دینا چاہتے ہیں کہ طریقے سلیقے کے ساتھ بہت ہلکے پھلکے انداز میں بھی کسی بے حد اہم موضوع پر بات کی جا سکتی ہے۔ ہم اس فلم کو بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں بھیجنے کے خواہاں ہیں، تاکہ پوری دنیا کوپتا چل سکے کہ پاکستانی کتنے زندہ دل ہیں اور یہاں بھی اچھا کانٹینٹ بن رہا ہے۔‘‘’’پاکستانی خواتین میں کس چیز کی کمی دیکھتی ہیں، آپ کے خیال میں اپنا حق حاصل کرنےکا بہترین طریقہ کیا ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا تو مسکراتے ہوئے بولیں، ’’پاکستانی خواتین میں کسی چیز کی کمی نہیں۔نہ وہ مظلوم ہیں، نہ بے بس۔ نہ کمزور ہیں اور نہ کم ہمّت۔ وہ جو چاہیں کر سکتی ہیںاور اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جہاں تک بات ہے اپنا حق مانگنے کی، تو سڑکوں پر آکر نعرے لگانا حق لینے کا اچھا طریقہ ہر گز نہیں۔ یہ تو صرف وقت کا زیاں ہے ۔محض شور مچانے،چیخنے چلّانے سے کچھ نہیں ہوتا، اگر آپ کے عمدہ خیالات کی گونج سنائی دے، شان دار عمل سے دل تسخیر ہوں، تو ایسا قول و عمل نسلوں تک سفر کر تا ہے۔‘‘

تازہ ترین