• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مذہب کا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال اور قومی سلامتی کی ناقص پالیسی پاکستان کو نقصان پہنچارہی ہے تاہم نہ تو فوجی جنرل ، جنہوں نے 1980ء کی تباہ کن دہائی میں انتہاپسندی کے زہرناک بیج بوئے یہاں تک کہ 1990ء کی دہائی میں بہت سے زہریلے ناگ سراٹھانے لگے اور نہ ہی سیاست دانوں، جنہوں نے اس برائی سے مجرمانہ اغماض برتتے ہوئے اس کو معاشرے میں قدم جمانے کا موقع دیا، نے ان سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اس غفلت کے نتیجے میں، آج درجنوں مسلح جہادی گروہ، لسانی تنظیمیں، قبائلی علیحدگی پسند اور دہشت گردوں کے لشکر نام بدل بدل کر ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ ان کی کارروائیوں سے یہ سرزمین لہو رنگ ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے اقلیتیں اور اہل ِ تشیع حضرات ان تنظیموں کی پُرتشدد کارروائیوں کا ہدف ہیں۔ یہ صورتحال اس لئے بھی انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ گزشتہ دو سال میں بلوچستان، کراچی اور شمالی علاقوں میں ایک ہزار سے زائد اہل تشیع، خاص طور پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد، ان لشکروں کے انتقام کا نشانہ بن چکے ہیں۔ دوسرے اس لئے کہ ان گھناؤنی کارروائیوں کا ارتکاب کرنے والے قاتل، لشکر ِ جھنگوی اور سپاہ ِ صحابہ اور ان کے بہت سے ”دست و بازو“ اتنے بے خوف ہیں کہ وہ کھلے بندوں اس خونریزی کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں کیونکہ اُن کو سزا کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس خطرے سے نمٹنا ہی نہیں چاہتے یا اس سے نمٹنے کے قابل نہیں ہیں۔
عیسائیوں اور احمدیوں کے سر پر ہر وقت توہین کے قوانین کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔ اسی قانون کی آڑ میں بعض شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے گھناؤنی کارروائیاں کرتے ہیں کیونکہ اس پر کوئی سزا نہیں ملتی ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ ایک دہائی سے ملک، خاص طور پر پنجاب میں عیسائیوں کے خلاف بارہ بڑے پُرتشدد واقعات پیش آئے ہیں۔ ان واقعات میں گرجوں ، عیسائی اسکولوں اور رہائشی آبادیوں پر منظم حملے شامل ہیں۔ 2009ء میں گوجرہ میں ہونے والے ہنگامے میں عیسائی آبادی کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا پھر ان کے گھروں کو لوٹ لیا گیا اور باقی سامان کو نذ رِ آتش کر دیا گیا۔ 2011ء میں ایک مشہورعیسائی سیاست دان مسٹر شہباز بھٹی کو دن دہاڑے گولی ماردی گئی۔ اسی سال گجرانوالہ میں بپھرے ہوئے ہجوم نے عیسائی آبادی پر حملہ کرکے نقصان پہنچایا۔ گزشتہ ہفتے لاہور میں جوزف کالونی میں ہجوم نے دوسو کے قریب عیسائی گھروں کو لوٹنے کے بعد جلا کر راکھ کر دیا۔ ان تمام واقعات میں ایک چیز مماثلت رکھتی ہے… انتظامیہ نے حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے عیسائی آبادی کو پہلے سے ہی محفوظ بنانے کی کوشش نہ کی اور خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی جب کہ جنونی افراد کا ہجوم لوٹ مار کرتارہا۔ ان تمام واقعات کے بعد صوبائی یا مقامی حکومت نے پولیس کو قربانی کا بکرا بنا کر کچھ افسران کو معطل کیا اور پھر انکوائری رپورٹ پر مٹی ڈال دی گئی۔ ہر واقعے کے بعد پیش آنے والا ایک اور ایسا ہی واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس سے کچھ بھی سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی ہے۔
اس ضمن میں گوجرہ کا واقعہ بہت کچھ واضح کر دیتا ہے۔ اس کے بعد جسٹس اقبال حمید الرحمن، جو اب سپریم کورٹ کے جج ہیں، کی سربراہی میں بننے والے ٹربیونل نے دو سو اٹھاون صفحات کی رپورٹ تیار کی تھی ۔ اس میں پنجاب حکومت کو مورد ِ الزام ٹھہرایا گیا تھا، اس لئے اسے عوام کے سامنے پیش نہ کیا گیا تاہم نتائج اظہر من الشمس ہیں۔ اس رپورٹ میں بہت اہم سفارشات پیش کی گئیں۔ سب سے پہلی یہ ہے…”گوجرہ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں“۔ تاہم اس کے برعکس پی ایم ایل (ن) کی حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی دیکھنے میں نہ آئی۔دوسری سفارش یہ تھی کہ توہین رسالت کے قانون میں مناسب ترمیم کی جائے… خاص طور پر پی پی سی سیکشن 295, 295-A, 295-B, 295-C, 296, 297, 298, 298-A, 298-B, 298-C/اور ان سے منسلک سی آر پی سی 196 اور196-B/اور پولیس آرڈر 2002ء کو بھی تبدیل کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دفعات کے منفی استعمال کے امکانات موجود ہیں تاہم کسی حکومت میں ان میں ترامیم کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ تیسری اہم بات یہ تھی کہ اس رپورٹ میں یہ بات واضح الفاظ میں درج ہے کہ ”پولیس صورتحال کی سنگینی کو بھانپنے میں ناکام رہی چنانچہ اس کی طرف سے ان واقعات کی روک تھام کے اقدامات نظر نہیں آئے۔ خفیہ ادارے بھی ان واقعات کی درست اطلاع دینے میں ناکام رہے“۔ آج لاہور کے واقعے کے بعد مختلف حلقے مقامی حکومت پر ایسے الزامات ہی عائد کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ رویّے کی بھی مذمت کی گئی ہے تاہم ان واقعات کی طرح، ایسی انکوائری رپورٹس اور سفارشات معمول کی بات ہیں، کوئی حکومت ان کو سنجیدگی سے لینے کی روادار نہیں ہے۔
لاہور میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موقع پرستی پر مبنی سیاست کی غمازی کرتا ہے۔ پولیس اور اسی طرح مقامی حکومت… توہین کا ارتکاب کرنے والے عیسائی نوجوان کی گرفتاری سے قبل تمام حقائق جانتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ الزام خود ساختہ ہے کیونکہ مقامی تاجروں کا ایک گروہ اس آبادی سے عیسائی خاندانوں کو نکال کر اس پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ بلوہ کرنے والے افراد کو پی ایم ایل (ن) سے تعلق رکھنے والے مقامی بااثر افراد کی آشیرباد حاصل تھی۔ پولیس نے اُس نوجوان کی گرفتاری کے 36 گھنٹے بعد بھی ہجوم کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ چونکہ بپھرے ہوئے ہجوم نے دیکھا کہ اُن کو روکنے والا کوئی نہیں ہے چنانچہ اُنہوں نے جو چاہا کیا۔ جب وہ جنونی افراد لوٹ مارکرنے اور آگ لگانے میں مصروف تھے تو پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچ گئی تھی لیکن وہ خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہے۔ اُنہوں نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے کچھ نہ کیا۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ اُن کو سیاسی قیادت کی طرف سے جو احکامات وصول ہوئے وہ غیر واضح تھے یا اُن میں تضاد تھا چنانچہ وہ اقدامات اٹھانے میں ناکام رہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اُس وقت سیاسی قیادت نے عیسائی آبادی کو بچانے کے لئے کچھ نہ کیا تاہم میڈیا میں ہونے والی شدید تنقید کے بعد تلافی کے نام پر نمبر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ،جو تیسری مرتبہ ملک کی قیادت سنبھالنے کیلئے پر تول رہی ہے، نے اپنی انتہا پسند شیعہ مخالف تنظیموں سے روابط کے حوالے سے بہت سے سوالات کے جواب دینے ہیں۔ اس سے یہ سوالات اتنے خوشگوار نہیں ہوں گے۔
تازہ ترین