• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکر الحمد للہ!18کروڑ پاکستانیوں نے تحفظ جمہوریت کے لئے پانچ سال تک اپنی ہی حکومت کی پیدا کردہ جن مشکلات و مصائب پر غیر معمولی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، اس کا پہلا نتیجہ شفاف اور غیر جانبدار انتخاب کے انعقاد کی امید کی شکل میں نکل آیا۔ یہ امید کوئی معمولی نہیں بلکہ امید صبح بہار ہے، جس نے بالآخر آنا ہی ہوتا ہے۔ آج قوم آئین کے مطابق انعقاد کی امید موسم بہار کے مہکتے جھونکوں میں کررہی ہے جس طرح جاری بہار آئی ہے، اسی طرح شفاف اور آزادانہ ا نتخابات بھی ہو کر رہیں گے۔ شاباش الیکشن کمیشن ،شاباش سپریم کورٹ اور میڈیا۔ اس موقع پر افواج پاکستان کی تحسین بھی لازم ہے جس نے تاریخ اور زمانے کی تلخ حقیقتوں کے تلخ نتائج کو بالآخر تسلیم کرلیا۔ ہماری فوج کے روایتی کردار اور سوچ میں ہونے والی تبدیلی کے بغیرا سٹیٹس کو میں پڑتی دراڑیں پڑہی نہیں سکتی تھیں جو اب الیکشن کمیشن کے تاریخ ساز کردار اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے سپریم کورٹ اور میڈیا کی نتیجہ خیز معاونت روز روشن کی طرح واضح ہے ۔جیسا کہ الیکشن کمیشن کے ا صلاحی کاغذات نامزدگی کو درست قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ان پر ان حکومتی اعتراضات کو مسترد کردیا ہے جس کی بنیاد اصل میں اس پارلیمانی کمیٹی کے اعتراضات ہیں جس نے و زیر قانون و پارلیمانی امور کی سرکردگی میں الیکشن کمیشن کے شفاف انتخاب کو یقینی بنانے کے لئے ترمیمی کاغذات نامزدگی پراعتراضات کی بارش کردی، جس کو اب سپریم کورٹ نے مسترد کردیا ہے اور الیکشن کمیشن کے تیار کردہ نئے کاغذات نامزدگی کو ہی آئینی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس کہ ”نظام چلانے کے لئے شفاف الیکشن ضرروی ہیں، حکومت کو کرپشن روکنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے“ نا صرف آئین کا بنیادی تقاضا ہے بلکہ پاکستانی قوم کی اس سوچ اور جذبے کا عین عکس ہے جس کا اظہار اس نے پانچ سال تک ایک کرپٹ ترین حکومت کو آئینی مدت پوری کرانے کے لئے برداشت کیا۔ الیکشن کمشنر پنجاب کے یہ ریمارکس بھی حقیقی جمہوریت پرستوں کے لئے بہت حوصلہ افزاء ہیں کہ اب”کاغذات نامزدگی “پر حکومت سے کوئی بات نہیں ہوگی اور اس ضمن میں صرف عدالت کی بات مانی جائے گی۔ الیکشن کمشنر بلوچستان کا یہ سوال بھی بہت سادا لیکن بڑا جاندار ہے کہ اچھے لوگ نہیں آئیں گے تو نظام کیسے چلے گا؟ میڈیا پر بھی بڑی اہم ذمہ داری آگئی ہے کہ وہ اپنی شفاف انتخاب کے حق میں لی گئی پیشہ ورانہ پوزیشن کے مطابق امیدواروں کی سکروٹنی کے پراسس پر کڑی نظر رکھے اور اس کی شفافیت میں آنے والی خامیوں کو بے نقاب کرے تاکہ آئین کے مطابق ہی انتخابی امیدوار میدان میں اتارنے کی بڑی اہم قومی اور جمہوری ضرورت پوری ہوسکے۔ انتخاب کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ کا معیار اسی پر منحصر ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی درخواست دہندگان کو انتخابی امیدوار بننے کی اجازت دے۔ یقیناًاس کے لئے اسے میڈیا کی معاونت درکار ہے جو وہ پہلے ہی مہیا کررہا ہے لہٰذا ایک بہت سازگار صورتحال پیدا ہوچکی ہے کہ ملک میں آئین کے مطابق انتخابات ہوں۔ معیاری پارلیمنٹ کی جو کمی بڑی شدت سے مطلوب ہے وہ وجود میں آسکے اور ایک اہل حکومت تشکیل پائے۔
واضح رہے کہ عظیم دانشورانہ کاوش اور طویل سیاسی جدوجہد کے بعد پاکستان پارٹیشن آف انڈیا کی پراڈکٹ ہے جو عالمی سیاسی تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ یہ طرح طرح کی پرکشش ذیلی ثقافتوں پر مشتمل اسلامی جمہوریہ ہے جو ایٹمی طاقت اور سات لاکھ بہترین پیشہ ورانہ افواج پر مشتمل خطہ بحر ہند کی طاقت ہے۔ پاکستان اپنے قیام سے ہی عالمی سیاست کا سرگرم کھلاڑی اور جنوبی اور جنوب مغربی ایشیاء کے خطوں کی سیاست کا فرنٹ لائن ایکٹر رہا ہے۔ قوم مزاجاً جمہوری اور آزادی کے جذبے سے سرشار ہے۔ اس نے سات جنگیں بھی لڑی ہیں اور اس کی افواج دنیا بھر میں قیام امن کی کوششوں میں بھی سرفہرست ہے۔ اس کا شماردنیا کی 20بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ بڑی طاقتوں کو اپنے مفادات کی عالمی سیاست میں پاکستان کے کردار کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ یہ ایک قومی المیہ بھی ہیتحقیق کا سوال اور گہرے مطالعہ کا متقاضی بھی کہ ایسا ملک اپنے قیام کے ساتویں عشرے میں چند دولت پرست خاندانوں، کھلنڈرے جاگیرداروں اور صوبہ پرستی کی سیاست کرنے والے تنگ نظر اور خود غرض اجارہ داروں، فقط جائز و ناجائز دولت کے انبار پر بیٹھے نااہل سیاست دانوں کے ہتھے کیسے چڑھ گیا؟
اس کا جواب اپنی جگہ ایک بہت پیچیدہ اور تلخ تاریخ ہے ہم خود اوردنیا اس کی تفصیلات سے بخوبی واقف ہے۔آج کی بات یہ ہے کہ اب بدلتا زمانہ رکنے کو نہیں۔پاکستان کسی خاندان یا دولتمند گروہ یا علاقہ پرست بلیک میلر، مذہب و مسلک فروش گروہ یا نام نہاد لبرل اور جمہوریت پرست کے بابا دادا کی جاگیر نہیں ہے۔
یہ جو بھی ہیں انہیں اپنے اپنے مقام پر ہی آنا ہوگا، یعنی معاشرے میں ان کی حیثیت ان کے اصل کے مطابق ہی ہوگی اور جو یہ ہیں سوسائٹی میں اسی طور سمجھے جائیں گے ۔آمریتوں کی پیداواری ٹولے نے اپنے اور اپنی آنے والی نسل کے لئے دوہرے قانون کا جو نظام بنا کر آئین پاکستان کو مفلوج کیا تھا، وہ دم توڑ رہا ہے۔ اوپر کی سطح پر عدلیہ کی آزادی و غیر جانبداری ،پھر آئینی فریم میں اس کی سرگرمی کے ساتھ ساتھ، افواج پاکستان کی ملکی عملی سیاست سے دوری، میڈیا کی آزادی اور حالات پر اس کی کڑی نظر، بیڈ گورننس ،کرپشن، حکمرانوں اور سیاست دانوں کی نااہلی اور اقرباء پروری کی بے نقابی میں اس کے شاندار کردار کے بعد آج الیکشن کمیشن نے ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد پر آئین کے مطابق جو آئینی پوزیشن لے لی ہے اس پر سٹیٹس کو کی قوتیں سیخ پا ہیں۔ معلوم دیتا ہے روایتی سیاست کے پجاری اس صورتحال پر جہاں اپنا سر پٹخ رہے ہیں، وہاں یہ اپنی سیاسی دکانداریاں بچانے اور عوام کی نظر میں مزید گرنے سے بچنے کیلئے آئین کی آرٹیکلز 63-62کی تائید زبان سے کرنے پر تو مجبور ہوگئے ہیں لیکن دل ہے کہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے آئینی پوزیشن لینے پر ڈوبے جارہا ہے اگرچہ برائلر پارلیمنٹ کے پجاری اور حواری بڑی فنکاری اور مکاری سے الیکشن کمیشن کو اس کی شفاف انتخاب کے لئے لی گئی جرات مندانہ اور دیانت دارانہ لی گئی پوزیشن سے ہٹا کر اسے روایتی کردار سے الیکشن نمپٹانے کے لئے محنت کررہے ہیں لیکن قرائن بتارہے ہیں کہ ایسا ہرگز نہ ہوسکے گا، اگر لڑ بڑھ کے کرپٹ جمہوریت کی بیوگی کا ہوا کھڑا کرکے، کوئی ریورس لگوایا گیا اور روایتی پارلیمنٹ کے قیام کا راستہ نکالا گیا تو، یہ اسمبلی چلے گی نہ اسے بنانے والی مافیاز کی جمہوریت ۔یہ بات طے شدہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخاب کیلئے آئین کی روشنی میں جو اصلاحی پیکیج تیار کیا ہے اس کا عملاً نفاذ شفاف انتخابات کے انعقاد تک محدود نہیں ہوگا۔ یہ ملک میں عشروں سے جاری دوہرے قانون کے نظام کے خاتمے کا نقطہ آغاز ہوگا۔ یہ آغاز اب اپنے اختتام تک پہنچ کر رہے گا، نہ پہنچا تو ملکی وجود خطرے میں پڑجائے گا جو اب انشاء اللہ اب نہیں پڑے گا۔ آغاز و اختتام کے اس سفر میں سٹیٹس کو کی طاقتوں کے رکاوٹیں ڈ النے کا مطلب صرف اور صرف عوام کے مفادات اور ملک کے استحکام کے مقابل غیر آئینی طور پر وجود میں آنے والی عوام دشمن اور خود غرض و خود پرست سیاسی طاقتوں کے بنائے نظام کو بچانے کی جنگ ہوگا۔ یہ جنگ ا نہیں الیکشن کمیشن کے بعد سپریم کورٹ ،میڈیا اور عوام سے لڑنا پڑے گی۔ پٹڑی پر چڑھے ان قومی اداروں کے علاوہ عوام خود اب یہ جنگ لڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ امکانات کے خلاف (خاکم بدہن) اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ طرح طرح کے ٹیکسوں اور سرکاری قرضوں میں جکڑے اور چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث عام شہریوں کے مقابل بڑے بڑے ٹیکس چور، قرض خور اور جعلی ڈگریوں والے جعلساز اور اپنے شاہانہ لائف سٹائل کا قانونی جواز پیش کرنے میں ناکام سیاستدان اگر پھر اپنی اکثریت پر مشتمل پارلیمنٹ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو عوام کی یہ جنگ سڑکوں اورچوراہوں پر نہیں ہوگی، اب شہری ملک میں بااعتماد سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں یہ جنگ آزاد و جانبدار میڈیا کی معاوت سے متفقہ قومی دستور اور قانون کے ہتھیا روں سے لڑیں گے۔
تازہ ترین