یہ پچیس فروری کا دن تھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کے دورے پر تھے پھر اچانک ہی بھارتی دارالحکومت دہلی میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان بستیوں پر حملے کی خبر نے چونکا دیا، نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے دہلی میں مقیم بھارتی مسلمان اور میرے دوست محمد حسین کو فون ملایا، محمد حسین ماضی میں جاپان میں میری ہی کمپنی میں سوفٹ ویئر انجینئر تھے اور چند برس قبل ملازمت کو خیر آباد کہہ کر بھارت واپس جا چکے تھے، محمد حسین سے اکثر پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بحث رہا کرتی تھی، میں پاکستان کی تعریف کرتا تو وہ بھارت کی حمایت میں دلائل دیتا، میں اسکے تمام دلائل کھوکھلے قرار دیتا اور یوں ہماری بحث دیر تک جاری رہتی پھر ایک دن اس نے جاپان کو خیر آباد کہا اور دہلی میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کیساتھ زندگی گزارنے واپس چلا گیا، دہلی میں مسلم کش فسادات کی خبر سنتے ہی میں نے محمد حسین کو فون کیا اور دہلی میں جاری مسلم کش فسادات پر اپنی تشویش سے اسے آگاہ کیا تو اس نے ہمیشہ کی طرح بھارت کی تعریف شروع کرتے ہوئے کہا کہ بھائی صاحب اب بھارت تبدیل ہو چکا ہے، یہ بیسویں صدی کا بھارت ہے جہاں ہر رنگ، نسل اور مذہب کے لوگ آباد ہیں، یہاں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور پھر ہم دارالحکومت دہلی میں مقیم ہیں، یہاں کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے، محمد حسین کے طویل تبصرے پر میں نے میڈیا میں آنے والی خبر کا ذکر کیا تو اس نےفوراً جواب دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا ہمیشہ ہی گڑبڑ پھیلاتا ہے، ابھی میرے دوست محمد حسین نے بھارت کے حوالے سے اپنے دعوے مکمل بھی نہ کئے تھے کہ اسکے دروازے کو زور سے پیٹا جانے لگا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کسی بہت بڑے گروہ نے میرے بھارتی مسلمان دوست محمد حسین کے گھر پر حملہ کردیا ہے، محمد حسین جو اب سے کچھ لمحے قبل مجھے بھارتی سکیولرازم کی مثالیں دے رہا تھا اچانک چیخا کوئی دروازہ نہیں کھولے گا، سب اندر آجائو اور دروازے بند کر لو، اس نے مجھ سے صرف اتنا ہی کہا بھائی میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں اور یہ کہہ کر اس نے اپنا موبائل فون اپنی جیب میں ڈال لیا لیکن وہ فون بند کرنا بھول گیا تھا یا پھر دانستا طور پر اس نے ایسا کیا تھا کہ میں اس واقعے کا چشم دید گواہ بن جائوں، مجھے بھارت کی تعریف میں کہی ہوئی اس کی کھوکھلی باتوں پر بالکل یقین نہیں تھا، اس کے گھر پر ہونے والے بلوائیوں کے حملے نے میرے تمام خدشات کو سچ ثابت کردیا تھا، میں اسکی آواز باآسانی سن سکتا تھا وہ اپنے والدین اور بہنوں کو لے کر گھر کی اوپری منزل پر چلا گیا جبکہ نیچے مسلسل اسکے گھر کا دروازہ توڑنے کی کوششیں جاری تھیں، دوسری جانب گھر کے اندر محمد حسین کی والدہ اور بہنیں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے مدد کی بھیک مانگ رہی تھیں پھر اچانک آواز آئی بلوائیوں نے نیچے گھر کا دروازہ توڑ دیا ہے اور اب وہ اندرونی دروازہ توڑنے کے درپے تھے، محمد حسین اور اس کے اہلِ خانہ گھر کی چھت پر آچکے تھے اور چھپنے کی کوششوں میں مصروف تھے لیکن چھت پر چھپنے کی کوئی جگہ موجود نہیں تھی، محمد حسین کی والدہ اور بہنوں نے دعائیں شروع کردی تھیں لیکن کچھ ہی دیر بعد ڈنڈے، لاٹھیاں اور اسلحہ لے کر بلوائی چھت پر پہنچ چکے تھے، اب مجھے بلوائیوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں، وہ محمد حسین اور اُس کے اہلِ خانہ کو غدار کہہ رہے تھے پھر مجھے محمد حسین اور اُسکے اہلِ خانہ کی چیخوں کی آوازیں آنے لگیں پھر کچھ لوگ محمد حسین کو اٹھا کر ساتھ لیجانے کی کوشش کررہے تھے، پھر چند لمحوں بعد ایسا محسوس ہوا کہ محمد حسین کو گلی میں سے گزارا جارہا ہو پھر اچانک محمد حسین کی آواز آئی پولیس، پولیس مجھے بچائو، شاید محمد حسین نے پولیس کو دیکھ کر اس سے مدد مانگی تھی لیکن پھر محمد حسین کی چلانے کی آوازیں آنے لگیں جیسے اس پر شدید تشدد کیا جا رہا ہو اور پھر شاید کوئی لاٹھی اس کی جیب میں موجود فون پر لگی اور فون سے آنے والی آوازیں اچانک بند ہو گئیں، میں چاہنے کے باوجود بھی کچھ نہ کر سکا، نہ ہی میں اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسوروک سکا، میرے سامنے ایک بھارتی محبِ وطن مسلمان ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا، مجھے آج قائداعظم کا وہ عظیم قول یاد آرہا تھا جو اس عظیم لیڈر نے تہتر سال قبل قیام پاکستان کے وقت کہا تھا کہ جو مسلمان آج قیامِ پاکستان کی مخالفت کررہے ہیں وہ اپنی ساری زندگی اپنے آپ کو بھارت کا وفادار ثابت کرنے میں گزار دیں گے لیکن وہ پھر بھی کامیاب نہ ہو سکیں گے، بلاشبہ قائداعظم نے پاکستان بنا کر پوری مسلمان قوم پر ایک عظیم احسان کیا تھا، اللہ تعالیٰ محمد حسین جیسے ہزاروں مسلمانوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے جنہوں نے بھارت سے وفاداری کے باوجود غداری کا لقب پایا اور بھارتی انتہا پسندوں کے ہاتھوں اپنی جان قربان کر دی۔