• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں روزانہ تقریبا ً ساڑھے تین لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں ،کوئی جھگی میں پیدا ہوتا ہے تو کوئی محل میں ،کوئی یتیم خانے میں جنم لیتا ہے تو کوئی بکنگھم پیلس میں،کوئی افریقہ کے کسی نیگرو کی اولاد بنتا ہے تو کوئی سلطنت کا وارث،کسی کے حصے میں جاگیریں آتی ہیں تو کسی کو دودھ بھی نصیب نہیں ہوتا ،کوئی امام مسجد کا بیٹا کہلاتا ہے تو کوئی کوٹھے والی کا دلال ،کسی معصوم کو اس کے ”والدین “ سڑک کے کنارے پھینک جاتے ہیں تو کوئی وزیر اعظم ہاؤس میں جنم لیتا ہے ،کسی کی ولادت جیل میں ہوتی ہے اور کسی کی جیلر کے گھر،کسی غریب کی قسمت میں نچلی ذات کے ہندو کی جھونپڑی میں رونا ہوتا ہے جبکہ کوئی خوش نصیب بزنس ٹائکون کے ہاں کلکاریاں مارتا ہے ۔کوئی بچہ ایسی ماں کی کوک سے جنم لیتا ہے جس نے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کا سودا کر رکھا ہوتا ہے جبکہ کوئی لاوارث ایسا بھی ہوتا ہے جسے خوش قسمتی سے کسی اعلیٰ خاندان کے بے اولاد والدین مل جاتے ہیں۔لیکن مقدر کے ان ستم ظریفانہ عوامل کے باوجودایشیاسے لے کر یورپ تک اور امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک روزانہ پیدا ہونے والے ان لاکھوں بچوں میں سے فقط چند بچے ہی ایسے ہوتے ہیں جو بڑے ہو کر کوئی بڑا کام کرتے ہیں اور اپنی ذہانت اور قابلیت کا لوہا منواتے ہیں جبکہ باقی بچے بڑے ہو کر بھی ”ڈنگر“ ہی رہتے ہیں اور ساری زندگی ایک ایوریج طریقے سے گذار دیتے ہیں اور پھر عمر کے آخری حصے میں پچھتاتے ہوئے سوچتے ہیں کہ کاش ہم نے زندگی اپنی مرضی سے ہی گذاری ہوتی !
اوسط ذہن رکھنے والے یا ایوریج قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں ہم میڈیا کی زبان میں عام آدمی کہتے ہیں۔ہمیں اس عام آدمی سے بہت ہمدردی ہے مگر اس ہمدردی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی عام آدمی بننا چاہتے ہیں۔ہم اپنے تئیں پہلے ہی خاص ہیں اور مزید خاص آدمی بننا چاہتے ہیں۔ اوریہ کوئی بری خواہش نہیں بشرطیکہ ہمارے معاشرے کا خاص آدمی انسان کے بچے کی طرح قانون کی عملداری پر یقین رکھے نہ کہ اسے پاؤں میں روندنے کو بڑائی کی معراج سمجھے ۔ایک ایوریج شخص اور خاص آدمی میں ذہانت سے زیادہ اپروچ کا فرق ہوتا ہے۔ اگر آپ ایوریج شخص کی طرح زندگی کو ضائع نہیں کرنا چاہتے تو ضروری ہے کہ وہ تمام اصول آپ کے علم میں ہوں جن کے تحت ایک ایوریج شخص زندگی گذارتا ہے اور پھر اپنے آپ کو ان اصولوں سے ایسے بچائے رکھیں جیسے صابن کے اشتہارات میں مائیں اپنے بچوں کو جراثیم سے بچاتی ہیں ۔
اوسط درجے کے انسانوں کی نشانیاں میں نے کہیں پڑھی تھیں ۔ان کی رو سے ایوریج انسان بننے کا پہلا اصول یہ ہے کہ کبھی بھی اتھارٹی کو چیلنج نہ کریں ،جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اسے من و عن سچ تسلیم کرلیں اورمعاشرے کے رسم و رواج پر سوالات نہ اٹھائیں ۔دو نمبر اصول یہ ہے کہ ایک اوسط درجے کا شخص سکول یا کالج علم حاصل کرنے نہیں جاتا بلکہ اس لئے جاتا ہے کیونکہ سب لوگ کالج جاتے ہیں۔ اس کے نزدیک کالج کی عمارت میں داخل ہونا اور وہاں سے ایک عدد ڈگری لے کر نکلنا ہی اصل مقصدہے ۔تیسرا اصول یہ ہے کہ اوسط ذہن کا شخص ہفتے میں چالیس گھنٹے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر گذارتا ہے جس میں سے بمشکل آٹھ گھنٹے ایسے ہوتے ہیں جن میں وہ کوئی ڈھنگ کا کام کرتا ہے باقی ٹائم جھک ہی مارتا ہے ۔ایوریج شخص کی چوتھی نشانی نہایت دلچسپ ہے ۔ایسا شخص زندگی میں ایک یا زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ کسی باہر کے ملک جاتا ہے مگر ایسی جگہ کا چناؤ کرتا ہے جو بہت محفوظ ہو اور جہاں جانا بے حد آسان ہو۔ایک اورنشانی یہ ہے کہ عام آدمی بیچارہ گھر بنانے کے لئے قرضہ لیتا ہے اور پھر ساری عمر وہ قرضہ چکانے میں لگا دیتا ہے ۔ایسا آدمی کبھی کوئی دوسری زبان سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ اس کے خیال میں ہر جگہ انگریزی ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے سو کوئی اور زبان سیکھنے کی کیا ضرورت؟اور ہمارا یہ اوسط ذہن کا آدمی ساری عمر کتاب لکھنے کے بارے میں سوچتا رہتا ہے مگر کبھی لکھ نہیں پاتا۔وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اسے اپنا کاروبار شروع کرنا چاہئے ،اس مقصد کے لئے اخبارات میں اشتہارات دیکھتا ہے ،کاروبار کے لئے جگہ کا انتخاب کرتا ہے ،سرمایہ اکٹھا کرنے کی ترکیبیں لگاتا ہے مگر اس کے باوجود بزنس کرنے کا رسک نہیں لیتا۔
ایک ایوریج شخص کی زندگی کا اصول یہ بھی ہے کہ وہ کبھی بھی دوسروں سے ممتاز نظر آنے کی کوشش نہیں کرتا۔ گھر ،دفتر،سنیما ،لائبریری،بازار ،سڑک یا میٹرو، ہر جگہ وہ ہزاروں کی بھیڑ میں گم ہوتا ہے ۔اور پھر ہمارے عام آدمی کی پینتیس سالہ ملازمت کے اختتام کے موقع پر اس کے اعزاز میں چائے کی دعوت کی جاتی ہے جہاں اسے ایک گھڑی تحفے میں دی جاتی ہے ،اور پھراوسط درجے کا یہ شخص ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں اپنے مرنے کا انتظار کرتا ہے اور ایک روز اپنی ایوریج اپروچ کے ساتھ قبر میں دفن ہو جاتا ہے۔شاید ہم میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو معمولی یا اوسط ذہن کا مالک نہیں سمجھتا ،ہم سب ہی اپنے تئیں طرم خان ہیں اور اس عام آدمی کی طرح جینا نہیں چاہتے ۔مگر کیا ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کی زندگیاں اسی عام آدمی کی طرح نہیں گزرتیں؟ہم روزانہ کتنے ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو اپنی زندگی میں واقعی کوئی خاص یا تخلیقی کام کر رہے ہوتے ہیں …شاید سینکڑوں یا ہزاروں میں ایک !ایماندای سے اپنی ملازمت کرنا جس کی تنخواہ ملتی ہو یاکاروبار زندگی چلانا یقینا فی زمانہ ہمت کا کام ہے اور ”قابل دست اندازی تعریف“ بھی مگر ایک ایوریج آدمی اور خاص آدمی کے فرق کو مٹانے کے لئے کافی نہیں ۔تو پھر کون سا ایسا فارمولا اپنایا جائے کہ ہماری زندگی ایک اوسط درجے کے شخص کی طرح نہ گذرے ؟ ایک بات تو سامنے کی ہے ۔وہ تمام اصول جن کے تحت ایک عام آدمی زندگی گذارتا ہے ،ان کو زندگی میں کبھی نہ اپنائیں ۔مثلاً آپ میں اتنی ہمت اور حوصلہ ہو نا چاہئے کہ زمانے کے نام نہاد مسلمہ اصولوں کو چیلنج کر سکیں، مقصد کسی کی دل آزاری نہ ہو بلکہ سچائی اور حق کی تلاش ہو۔عام آدمی زندگی میں نت نئے تجربات نہیں کرتا ،اسے ایڈونچر سے خوف آتا ہے ،وہ کسی قسم کا رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا ،”ارادے باندھتا ہوں،سوچتا ہوں ، توڑ دیتا ہوں ،کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے “ کی عملی تصویر ہوتا ہے لہٰذاخاص آدمی بننے کے لئے ضروری ہے کہ اس تصویر کو اپنے دماغ سے اتار کر پھینکیں اور اس کی جگہ کسی ایسے بڑے آدمی کی تصویر لگا دیں جیسا آپ بننا چاہتے ہیں ،مقصد اس بڑے آدمی کی نقالی نہ ہو بلکہ اپنا مورال بلند رکھنا ہو۔البتہ زیادہ ایڈونچر سے پرہیز ہی کریں کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں تو آج کل رہنا ہی کسی ایڈونچر سے کم نہیں۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بڑا آدمی تو بننا چاہتے ہیں مگر اس کی قیمت چکانے کو تیار نہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ بغیر کسی محنت کے ،بغیر کوئی رسک لئے ،دنیا ہمیں بڑا آدمی مان لے اور جب ایسا نہیں ہوتا تو ہم انتقامی جذبے کے تحت اپنے معاشرے کے بڑے آدمیوں کے کردار میں کیڑے نکال کر اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں اور ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ دیکھو جنہیں دنیا بڑا آدمی کہتی ہے حقیقت میں وہ گھٹیا آدمی ہے ۔بقول آئن سٹائن ہر بڑے آدمی کو اوسط ذہن کے شخص کی پرتشدد مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور ہمارے معاشرے میں تو ویسے ہی آج کل ہر بندہ تشدد میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لئے پھر رہا ہے ،یہ وہ واحد ڈگری ہے جس کی ہائر ایجوکیشن کمیشن سے تصدیق کروانے کی بھی ضرورت نہیں !
تازہ ترین