• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نعروں کی گونج میں 8 مارچ کو ’عورت مارچ‘منانے کا اعلان


مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے پرجوش نعروں کے درمیان 8 مارچ کو عورت مارچ منانے کا اعلان کر دیا۔

عورت مارچ کی آرگنائزنگ کمیٹی کے تحت منگل کو کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کی گئی ، اس موقع پر ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئر پرسن جسٹس (ر) ماجدہ رضوی ، سابق رکن نیشنل ہیومن رائیٹس کمیشن انیس ہارون ، سندھ کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کی چیر پرسن نزہت شیریں ، تحریک نسواں کی سربراہ شیما کرمانی، جینڈر انٹر ایکٹیو الائنس کی کمیونٹی کاؤنسلر شہزادی ، معیشت دان افشاں صبوحی، تحقیق کار نازش بروہی، ڈاکٹر شمع ڈوسا، پاسٹرعزالہ شفیق ، مائینارٹی کمیشن کی نائب صدر سفینہ جاوید، ایڈوکیٹ عبیرہ اشفاق، سینئر صحافی عظمیٰ الکریم، قرت مرزا، منیزہ احمد ، سارہ زمان سمیت خواتین کی بڑی تعداد موجود تھیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئر پرسن جسٹس (ر) ماجدہ رضوی نے کہا کہ اپنے حقوق کے لیے لڑنا سب کا حق ہے چاہے مرد ہوں یا عورتیں ہوں، یہ آئینی، قانونی اورسماجی طور پر حق ہے۔ جس کے بھی حقوق پامال ہوتے ہیں یا نہیں دیئے جاتے یا روڑے اٹکائے جاتےہیں تو یہ قدرتی عمل ہے کہ پھر لوگ آگے بڑھتے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے لڑتےہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ عورتوں کے حقوق مستقل پامال ہو رہے ہیں تو اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم سب جمع ہوئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ مرد حضرات بھی سپورٹ کریں گے کیونکہ یہ عورتوں کے حقوق کا سوال ہے ۔

سابق رکن نیشنل ہیومن رائیٹس کمیشن انیس ہارون نے کہا کہ آج سے چالیس سال پہلے ہم نے عورتوں کے حقوق کے لیے جس شعوری جدوجہد کا آغاز کیا آج اس کو مذید پھلتا پھولتا دیکھ رہے ہیں اور یہ وہ نسل ہے جو اس کو آگے لے جائے گی اور پاکستان میں دستور کے مطابق عورتیں برابر کے حقوق حاصل کر سکیں گی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر مردوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جو عورت مارچ کو سپورٹ کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مارچ ان مردوں کے خلاف نہیں جو عورت کے دستوری حق پر یقین رکھتے ہیں جو ان کی برابری پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی نیت صاف ہے ہمیں ان کے تعاون کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ جو لڑکیاں اس جدوجہد آگے لے کر جارہی ہیں ان پر ہمیں فخر ہے کہ یہ ہمارے علم کو آگے لے کر چلی تھیں اتنی جرت اور بہادری کے ساتھ یہ تحریک پر امن ہے نہ ہمارے پاس بندوقیں ہیں نہ ڈنڈے ہیں نہ ہم کسی کو دھمکیاں دے کر کسی پر کوئی چیز مسلط کرتے ہیں بلکہ نوجوان نسل اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے وہ اپنے حقوق، خواہشات، ضروریات کے حوالے سے کچھ ظاہر کرتی ہے اور یہ جمہوری حق ہے، یہ صرف عورتوں کی جدوجہد نہیں بلکہ معاشرے کے تمام مظلوم طبقات کے حقوق کی جدوجہد ہے اورہماری تحریک کا رشتہ ساری ایسی تحریکوں سےجڑتا ہے جومحرومی کے خلاف ہیں، اس لیے ہماراساتھ دیں ۔

سندھ کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کی چیر پرسن نزہت شیریں نے کہا کہ سندھ کمیشن آن اسٹیٹس آف ویمن کا مینڈیٹ یہی کہتا ہے کہ ہم تمام عورتیں اپنے مسائل کے لیے ایک آواز اٹھائیں اور ہم اس مارچ کو مکمل سپورٹ کرتے ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کا مینڈیٹ اس وقت مکمل ہوتا ہے جب ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتیں اپنے لیے، اپنے جسم کی حفاظت کےلیے، اپنےگھروں کی حفاظت کے لیے ، بچوں کی تعلیم کے لیے یا معاشی طورپر مضبوطی کے لیے آوازاٹھائیں، جب سے کمیشن بنا ہے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جو عورتوں کے لیے سرکاری سطح پر ادارے بنائے گئے ہیں وہ انسانی اور معاشی طور پر موزوں نہیں ہیں، اس لیے اس مارچ میں آواز اٹھائی جائے کہ سندھ میں جتنے ادارے عورتوں کی ترقی کے لیے بنائے جاتے ہیں ان کو منظم اور مربوط بنایا جائے تاکہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والی عورت کو کوئی پریشانی نہ ہو اور اس کے مسائل حل ہو سکیں ۔ان کا کہنا تھا کہ عورتیں چاہے پولیس اسٹیشن جائیں تو ان کو رسائی حاصل ہو سکے، وہ بینک جائے ، تعلیم حاصل کرنا چاہ رہی ہے تو زیادتی نہ ہو ریپ نہ ہو اور ہم ایسی سوسائٹی کےلیے آواز بلند کریں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ مارچ نے ثابت کر دیا ہے کہ جب تک عورتیں اکھٹی ہو کر کام نہیں کریں گی اس وقت تک لوگ ہماری چیزوں کو سنجیدہ نہیں لیں گے ۔

جینڈر انٹر ایکٹیو الائنس کی کمیونٹی کاؤنسلرشہزادی نے کہا کہ ہم پہلے عورت مارچ سے ساتھ ہیں اس سے ہمیں ایک آزادی کا احساس ہوتا ہے ، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹرانس جینڈرز کو سیاست میں شمولیت اختیار کرنے دی جائے اور وہ پلیٹ فارم دیا جائے جہاں سے اپنا حق لے سکیں۔ 

انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے لیے سرکاری نوکریوں میں پانچ فیصد کوٹے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ 2010ء سے ہر حکومت آکر اعلان کرتی ہے لیکن عملدرآمد عملی طور پر نہیں کیا گیا۔ ٹرانس جینڈ ر کمیشن بنانا ہمارا حق ہے جو تاحال نہیں بن سکا۔

سندھ میں ٹرانس جینڈ ر پروٹیکشن پالیسی کافی وقت سے نہیں بن رہی صرف ایک میٹنگ کی گئی ہے اس کام میں تیزی لائی جائے اس کی بہت ضرورت ہے ۔ہمارے لیےجو قانون منظور ہوا ہے اس کے مطابق خواجہ سراؤں کے لیے الگ جیل ہونی چاہیے جو نہیں ہے جس سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تحفظ کا بل موجود ہے لیکن تاحال اس پرعمل نہیں ہوا۔

ٹرانس جینڈر کمپلین سیل بنائے گئے ہیں لیکن اس کے لیے خواجہ سراؤں کو بھرتی نہیں کیا گیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں افتتاح کے لئے بلالیا جاتا ہے لیکن نہ کوئی مشورہ لیا جاتا ہے نہ ہم سےہماری پالیسیوں پربات کی جاتی ہے اور بعد میں جو ڈیسک بنتے ہیں وہ ہمارے فائدے کے نہیں ہوتی کیونکہ ہمارے اپنے لوگ اس میں شامل نہیں ہوتے ۔

معیشت دان افشاں صبوحی نے کہا کہ جب بھی معیشت پر اثر پڑتا ہے تو عورتیں بھی متاثر ہوتی ہیں لیکن معیشت کی بہتری اور مسائل کے حل میں عورتوں کے کردارکو نظرانداز کیاجاتا ہے ۔خواتین کی معیشت میں پارٹیسیپیشن کو انڈر مائین کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جی ڈی پی میں ان کا کوئی کردار نہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر سمجھا جاتا ہے کہ جو گھروں میں کام کرنے والی خواتین ہے ان کا جی ڈی پی میں حصہ 30 فیصد ہے۔ پاکستان میں جو اعداد و شمار موجود ہیں اس کے مطابق 13فیصد حصہ جی ڈی پی میں شامل ہوتا ہے لیکن سمجھایہ جاتا ہے کہ خواتین معاشرے پر بوجھ ہیں ایسا بالکل نہیں اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے مسائل کے حل میں خواتین کے کام کرنے کی ضرورت ہے اور معاشی فیصلہ سازی میں حصہ دیا جائے۔

تحقیق کار نازش بروہی نے کہا کہ نئی نسل نے عورت مارچ منعقد کیا جس سے ہمیں بہت توانائی ملی ہے، عورتوں کی سیاست میں شرکت ایک لمبا عمل ہے ۔ 

ان کا کہنا تھا کہ آج کے مطالبات اگر مشکل اور متنازع لگ رہی ہیں تو ایک زمانے میں عورتوں کا شناختی کار ڈبنانا بھی متنازعہ تھا یہ ایک پورا عمل ہے عورتوں کی شرکت کی شروعات ہمیں وہاں سے کرناپڑی تھیں کہ شناختی کارڈ بنا دیں ۔ جب بہت ساری تنظیموں نے سالا سال اس پر کوشش کی تھی۔ شناختی کارڈ پر عورتوں کانام بھی نہیں ہوتا تھا بلکہ شناخت لکھی جاتی تھی کہ فلاں کی بہن، فلاں کی بیٹی اور فیملی ٹری لکھا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ عورتوں کے ووٹ کا حق جو اب ہمیں معمولی سی چیز لگتا ہے کہ کونسی اتنی بڑی بات ہے ووٹ ڈالنا چاہیے لیکن آج بھی معاہدات ہوتے ہیں کہ فلاں علاقے میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوگی اور اکثر اس میں ساری جماعتیں شامل ہوتی ہیں لیکن اب قوانین تبدیل ہو گئے اور یہ تبدیلیاں انہی عورتوں کی وجہ سے آئی ہیں جو پارلیمان میں بیٹھی ہوئی ہیں اسلئے ہم کہتے ہیں کہ عورتوں کی سیاست میں شرکت ہونی چاہیے مگر آج جو پارلیمان میں عورتیں بیٹھی ہوئی ہیں وہ اس سے قبل عورتوں کی تحریک کا حصہ بھی رہی ہیں اوربیشتر نے وہاں جاکر جدوجہد کی ہے ۔

اس لیے خواتین پارلیمینٹرین کے کردار کو تسلیم کرنا چاہیے، ان کا مذید کہنا تھا کہ آ ج جن مسائل پر بات کر رہے ہیں وہ چالیس سال قبل نہیں تھے اس کا کریڈٹ خواتین کو جاتا ہے اور آج کی نسل سے امید ہے کہ وہ جدوجہد کو اور آگے لے کر جائیں گی۔

ڈاکٹر شمع ڈوسانے کہا کہ جنسی اور تولیدی صحت انسان کا حق ہے لیکن پاکستان میں اس حوالے سے بہت مسائل ہیں اگر آپ دیکھیں گے کہ تولیدی صحت سے شرح اموات 276 فیصد ہے جو افسوس اور شرمندگی کی بات ہے ہر 37 منٹ بعد ایک عورت کی موت ہو جاتی ہے جسے روکا جاسکتا ہے ۔

 سندھ حکومت نے ایک اہم کردار ہے کہ اس نےگزشتہ سال دسمبر میں سندھ ری پروڈکٹیو رائیٹس ایکٹ منظور کیا ہے جو سندھ کے لیے فخر کی بات ہے اور اس حوالے سے حقوق کی بات ہے جس کے تحت اگر آگہی دی جائے اور معیاری سہولیات ہوں تو انہیں روکا جاسکے، اس کے نفاذ کی بات کی جائے اور فیصلہ سازی میں حصہ دیا جائے ۔

پاسٹرعزالہ شفیق نے کہا کہ سندھ حکومت کی شکر گزار ہوں کہ پاکستان کا واحد صوبہ ہے کہ ہر طرح کی قانون سازی میں اول درجہ رکھتا ہے لیکن عمل درآمد میں کمزوری ہے اور عورت مارچ کا یہ مقصد بھی ہے کہ جوقوانین بن چکے ہیں ان پرعمل درآمد کو یقینی بنایا جائے خاص طور پر عورتوں سے متعلق جو حقوق ہیں ۔ 

سب سے اہم مسئلہ جبری مذہب کی تبدیلی ہے اور ہماری چھوٹی بچیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، سندھ حکومت سےمطالبہ ہے کہ جبری مذہب کی تبدیلی کا بل جو دو سال سے التوا کا شکار ہے اس پر قانون سازی کی جائےاور بل کی صورت میں منظور کیا جائے، ہم جبری مذہب کی تبدیلی کے خلاف ہیں، اقلیتوں کا کمیشن بھی تاحال نہیں بن سکا۔

مائینارٹی کمیشن کی نائب صدر سفینہ جاوید نے کہا کہ عورت مارچ کے تحت مطالبہ کرتےہیں کہ ایک آزاد خود مختار کمیشن بنایا جائے، کمیشن کام کرتا تھا جب شہباز بھٹی وزیر تھے لیکن ان کے بعد اس پر کام نہیں ہورہا، اقلیتوں کے ساتھ واقعات ہو جاتے ہیں تو ہجوم حملے کرتے ہیں خاندان کےساتھ اردگرد کے علاقے بھی متاثر ہوتے ہیں اس لیے کمیشن بنایا جائے تاکہ اقلیتیں خود کو محفوظ تصور کر سکیں۔

ایڈوکیٹ عبیرہ اشفاق نے کہا کہ ہم غریب عورتوں اور جبری بےدخلی پر بات کر رہے ہیں، قوانین کے تحت جب متبادل جگہ نہ دی جائے اور حقوق چھین کر گھروں سے نکال دیا جائے، اس سے خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

سینئر صحافی عظمیٰ الکریم نے کہا کہ میڈیا نے عورت مارچ کو ہمیشہ سپورٹ کیا ہے اور ان کا بہت بڑا کردار رہا ہے لیکن ان تمام خواتین کے مسائل کو یا ان ایجنڈاز کو یا عورتوں کو بحیثیت مجموعی میڈیا میں پیش کیسے کرنا ہے اس کو پوسٹ کیسے کرنا ہے اس کے لیے کون سےالفاظ مناسب ہیں اس کے لیے سب کو سینسی ڈائیز ہونےکی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں عورت مارچ کے پلیٹ فارم سے یہ ایک بہت اہم مطالبہ بن جاتا ہے کہ جتنے بھی صحافی ، رائیٹر ، ڈائریکٹر ، پروڈسر ،اسکرپ رائٹر ہیں انہیں میڈیا اداروں کی جانب سے خواتین کے معاملات میں سینسی ڈائیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ ایک اور بہت اہم بات ہے کہ میڈیا میں خواتین کو پیش کیسے کیا جاتاہے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عام طور پر ڈراموں میں خواتین صرف تین کرداروں میں نظر آتی ہیں یا وہ ظلم کر رہی ہیں یا ظلم سہہ رہی ہیں یا شادی شدہ ہوتے ہوئے افیئر چلاتی ہیں اس کے علاوہ جو کامیاب خواتین ہمارے درمیان بیٹھی ہیں ان میں سے بہت ہی کم اعشاریہ 5 فیصد میں نظر آتی ہیں ۔ 

ایک مثبت اور مضبوط امیج کے ساتھ میڈیا میں عورت کو پیش کیا جائے یہ ہمارا مطالبہ ہے، ساتھ ساتھ میڈیا ہاؤسزسے ایک ڈیمانڈ ہے کہ ڈے کیئر سینٹر کا ہونا ضروری ہے تاکہ خواتین صحافی اپنے بچوں کوساتھ لاسکیں۔

انہوں نےمذید کہا کہ اس موقع پر میں ان تمام مرد حضرات کا شکریہ جو عورت مارچ کو سپورٹ کرتےہیں، اس موقع پرانہوں نے صحافی و شاعر فاضل جمیلی کی عورت مارچ پر لکھی ہوئی نظم بھی پڑھ کر سنائی۔

قرت مرزا نے کہا کہ عورت مارچ ایک سیاسی وسماجی تحریک ہے جس کے خلاف پروپیگنڈا ہے حالانکہ ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ عورت مارچ میں ہمارے 9 اہم مطالبات ہیں، جن میں پہلے تشدد سے آزادی، معاشی انصاف، ماحولیاتی انصاف، میڈیا کے کردارمیں عورت کمزور صنف دکھانا بند کیا جائے، تولیدی صحت کا حق، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، شہری حقوق، سیاست میں عورتوں کی شمولیت اور معذوری کے حقوق شامل ہیں۔

اس دوران عورتوں کی جانب سے پرجوش نعرے بھی لگائے گئے۔

تازہ ترین