• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بدترین جمہوریت کا آخری دن ہے۔ میں فروٹ کی ریڑھی پہ کھڑا یہ پوچھ رہا ہوں کہ سیب کیا کلو ہیں۔ سر میں اسکول چھوڑ رہا ہوں۔ احسن تمہارے تو سالانہ امتحان ہو رہے ہیں۔ ابھی تم دسویں کلاس میں چلے جاؤ گے مگر میں مزید پڑھ نہیں سکتا۔ تم ہی نے تو مجھے کل بتایا تھا کہ اس بدترین جمہوری حکومت نے جاتے جاتے ایک اچھا کام کیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے والے اساتذہ کے خلاف قانون بنایا ہے اور بچیوں کو اسکول جانے سے روکنے والوں کے خلاف قرارداد منظور کی ہے۔ تم اسکول جانا کیوں چھوڑ رہے ہو۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ میرے والد بہت بوڑھے ہیں اور نظر بھی کمزور ہے۔ میں ہی ان کا بڑا بیٹا ہوں،گزشتہ چار برس سے ان کا ہاتھ بٹا رہا ہوں۔ اسکول سے واپس آنے کے بعد رات گئے تک اس ریڑھی پر ڈیوٹی دیتا ہوں۔ اس جگہ اپنی پڑھائی کرتا ہوں مگر میری عدم موجودگی میں لوگ دھونس، دھاندلی سے فروٹ لے جاتے ہیں۔ اسکول اس لئے چھوڑ رہا ہوں کہ فل ٹائم ریڑھی پہ دوں۔ اس میں تعلیم کو چھوڑنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اصل میں آپ کو معلوم نہیں کہ ہم کس طرح جمہوریت کے بدترین انتقام کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم ہر مہینے ایل ڈے اے کو5سو روپے منتھلی دیتے ہیں، کارپوریشن والے اور متعلقہ مجسٹریٹ بھی5،5سو روپے مہینہ لیتا ہے۔ اس کے علاوہ جب دل کرے مفت فروٹ لے جاتے ہیں پھر ہر مہینے کوئی غنڈہ، بدمعاش جگا ٹیکس لینے آجاتا ہے۔ اس کے بعد بھی کارپوریشن والے جب دل کرتا ہے جرمانہ کر دیتے ہیں اور ترازو یا پھر ریڑھی اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ہم ہر مہینے 5ہزار روپے کا نقصان برداشت کرتے ہیں۔ یہ بھی تعلیم چھوڑنے کی وجہ نہیں۔ تم نے تو پڑھ لکھ کر جرنلسٹ بننا ہے پھر اچانک اسکول چھوڑ رہے ہو۔ سر! میں سمجھتا ہوں کہ میرے والد کے لئے جمہوریت کا انتقام برداشت کرنا اب دشوار ہوگیا ہے اس لئے اب یہ ذمہ داری اپنے سر لے رہا ہوں، آخر سیاستدان بھی تو اپنے بچوں کو سیاست کے میدان میں اتار رہے ہیں۔ پہلے وہ ٹیکس نہیں دیتے تھے اور پوری دنیا کی آسائشیں انجوائے کرتے تھے، اب ان کی اولاد ایسا کرے گی تو کیا ایک ریڑھی بان کا بیٹا یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر بدترین جمہوریت کے ثمرات کا بوجھ میرے والد نے اٹھایا ہے تو میرے لئے یہ بوجھ اٹھانا کوئی معیوب نہیں۔ بات تو احسن کی بڑی لاجواب ہے مگر افسوس کہ پانچ سالہ بدترین جمہوریت کا یہ دور ختم ہونے کے بعد معلوم ہو رہا ہے کہ کس طرح گراس روٹ سطح تک ”جمہوریت“ کے ثمرات پہنچے ہیں۔ ”برُی بات یہ ہے کہ آج سے بدترین جمہوریت کے ثمرات ملنا بند ہو گئے ہیں، اب معلوم نہیں کون عوام سے انتقام لے گا لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ شاید عوام کو زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے اور یہ گرہیں بھی کھل جائیں۔
حکومتی پارٹی تو خوشی کے جشن منا رہی ہے۔ گلوکارائیں گا رہی ہیں کہ ”ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر،کہ دل ابھی بھرا نہیں“۔ لگتا ہے کہ ق لیگ کی خوشی کی انتہا ہے کیونکہ یہ جنرل مشرف کو دس سال وردی میں منتخب نہیں کرا سکی مگر گیارہ سالہ اقتدار کے مزے تو لئے ہیں اور جشن کا کیسا نرالا طریقہ اختیار کیا کہ قائداعظم  اور مصور پاکستان کی تصاویر کے سامنے بیٹھ کر نظریہ پاکستان کی محافظ جماعت کے صدر اور جنرل سیکرٹری نے نہ صرف ڈانس دیکھا بلکہ دل کھول کر اور تالیاں بجا کر خواب داد بھی دی۔ لگتا ہے کہ اب انہیں ادراک ہوگیا ہے کہ انتخابی اصلاحات پر عملدرآمد کے بعد ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ اس لئے جتنا بھی آئین کے آرٹیکل 62، 63کا مذاق اڑایا جا سکتا ہے، اڑا لیا جائے اور الیکشن کمیشن کو یہ پیغام دیا جائے کہ جو کچھ ہم نے گزشتہ پانچ برس میں کیا اب بھی وہی کچھ کریں گے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن بہت دلیر ہو گیا ہے ۔ گو شروع سے ہی انتخابات کے منصفانہ اور شفاف انعقاد کا عزم رکھتا ہے۔ اس نے انتخابی اصلاحات کے قانون کا مسودہ بھی حکومت کو دیا اور کئی ایک سفارشات کیں جن میں اسکروٹنی کے وقت کو بڑھانا بھی شامل ہے۔ الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کے حوالے سے بھی حکومت کو سفارشات بھجوائیں مگر سابق وزیر قانون کا یہ فرمان تھا کہ الیکشن کمیشن انویسٹی گیٹو ایجنسی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن جو آزاد تو ہے مگر بااختیار نہیں، اس نے فیصلہ لیتے ہوئے نئے کاغذات نامزدگی کی چھپائی مکمل کرالی ہے اور پاکستان بھر کے ریٹرنگ آفیسرز کو بھجوانے بھی شروع کر دیئے ہیں۔ یہ قوم کے لئے بڑی اطمینان بخش چیز ہے ۔ دوسری اہم بات سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھے ، ہم اس کے ساتھ ہیں اور کاغذات نامزدگی میں ترامیم کا اسے اختیار ہے کیونکہ یہ اٹھارہ کروڑ عوام کی آواز ہے۔ الیکشن کمیشن بدعنوان لوگوں کو منتخب ہونے سے روکے۔ نادھندہ اور ٹیکس چوروں کو آگے نہ آنے دے۔ جعلی ڈگری ہولڈر، غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد کو اسمبلیوں تک نہیں پہنچنا چاہئے بس اب دیکھتے جائیے کہ اچھا کیا ہوتا ہے اور برُا کیا لیکن اس کا نتیجہ جو سامنے دکھائی دے رہا ہے وہ تو یہ ہے کہ اب الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ اگر الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 62، 63پر عملدرآمد کراتا اور نئے کاغذات نامزدگی مکمل کراتا ہے تو پھر موجودہ اسمبلیوں کے بہت سے ارکان تو نااہل ہو جائیں گے اور گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والی بدعنوانیوں کے حوالے سے احتساب کرنے کا سوال بھی اٹھایا جائے گا اور یہ سوال نگران وزیراعظم کی طرف سے اٹھایا جائے گا کہ میرے تو کوئی سیاسی عزائم نہیں اور تبدیلی لانے کے لئے ضروری ہے کہ کڑا احتساب کیا جائے اور احتساب کے لئے وقت تو لگے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے نگران وزیراعظم کے لئے پیش کئے جانے والے نام اور ان پر اتفاق رائے نہ ہونا پھر ”آقاؤں“ کی مرضی کا وزیراعظم آنا انتخابات کو ملتوی کرانے کا اشارہ ہے۔ ویسے تو عام لوگوں کا بھی یہ خیال ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کی ملی بھگت سے ایسا ہو رہا ہے کیونکہ آصف علی زرداری کو وفاق میں اپنی مرضی کی حکومت مل جائے گی اور ن لیگ کو پنجاب میں۔ اس لئے وہ تو ایک طرح سے حکومت میں رہیں گے انہیں الیکشن ملتوی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا پھر اسی دوران مردم شماری اور اس کے بعد نئی حلقہ بندیوں کا سوال اٹھایا جائیگا گو ایسے اقدامات کو بعض جماعتوں اور بعض انفرادی لوگوں کی طرف سے چیلنج بھی کیا جائے گا لیکن لگتا یہ ہے کہ اب بات ڈیڑھ سے دو سال تک پہنچ جائے گی اور اسی دوران الیکشن کمیشن کی تشکیل نو بھی کی جائے گی۔ بس عوام کھلی آنکھوں سے دیکھتے جائیں کہ اچھا کیا ہوتا ہے اور برُا کیا۔ لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرنی چاہئے کہ اس ملک کیلئے سب اچھا ہی ہو،آمین۔
تازہ ترین