• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
مرزا غالب کے زمانے میں کوئی الیکشن نہیں ہوا تھا اس کے باوجود انہوں نے مندرجہ بالا شعر کہہ دیا۔ شاید یہ کسی امیدوار کی بے وفائی سے متعلق نہیں تھا بلکہ اس میں تو غالب خود ہی امیدوار عشق تھے۔ مجھے یہ شعر یوں یاد آیا کہ حکومت کا آخری ہفتہ چل رہا ہے مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنے نامکمل کاموں کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ”وقت کم ہے اور مقابلہ سخت“ کے مصداق عمل پیرا ہیں اور اس قدر تیزی سے مصروف عمل ہیں جیسے ہاکی کے میچ میں آخری پندرہ منٹ میں تمام کھلاڑی زیادہ تر ڈی میں ہی نظر آتے ہیں اور گولچی بھی گھٹنوں پر ہاتھ مار کر جھکا ہوا کھڑا دکھائی دیتا ہے اور اپنی آنکھیں گیند کے ساتھ ساتھ گھما رہا ہوتا ہے ۔ سندھ اسمبلی نے جمعرات کے روز اپنے اجلاس میں ایک لاکھ سے زائد ایڈہاک اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کردیا اور اس کے علاوہ تین قوانین کی منظوری دے دی جس میں آیوڈین ملا نمک تیار کرنے کا قانون بھی شامل ہے۔ الیکشن کے نزدیک نمک سے متعلق قانون کا پاس کرنا بڑا ضروری تھا کیونکہ الیکشن میں نمک حلالی کی بڑی مانگ ہوتی ہے اور امیدوار اپنے ورکروں سے نمک حلالی کی توقع رکھتا ہے اور امیدوار اپنے ووٹر سے الیکشن کے نزدیک کچھ یوں مخاطب ہوتا ہے فراق گور کھپوری کا شعر ہے
ایک مدت سے تیری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
اچھا اور مستقل امیدوار اپنے ووٹر کو نہیں بھولتا۔ فراق گورکھپوری نے درست لکھا ہے کہ ایک مدت سے جس نے ووٹر کو یاد نہیں کیا وہ اسے بھولا نہیں بلکہ اپنے پانچ سال کے بعد اپنی ڈائریوں میں دوبارہ ان کرم فرماؤں کے نمبر ڈھونڈتا ہے جنہوں نے پچھلے الیکشن پر مفت بینر اور ہینڈبل چھاپ کر دیئے تھے۔ دیواروں پر پوسٹر چسپاں کرنے والے دوستوں کی بھی یاد ستانے لگتی ہے اور انہیں دوبارہ حلقہ یاراں میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ سب الیکشن کے لوازمات ہیں۔ وزیراعظم بھی قوم سے خطاب کرنے والے ہیں جو کہ اس کالم کی اشاعت تک ہو چکا ہوگا امید ہے کہ وزیراعظم کا انتخاب بھی ہو چکا ہو گا یا ہونے والا ہوگا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنی فہرست میں ریٹائرڈ ججوں کے نام شامل کئے وہ الگ بات ہے کہ ان کے ناموں پر اتفاق ہو یا نہیں لیکن یہ تو اچھی بات ہے کہ لوگ ججوں پر اعتماد کرتے ہیں اور ریٹائر ہونے کے بعد بھی ان کو اہم اور بھاری ذمہ داریاں سونپنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ یہ عوام کی ہماری عدلیہ پر اعتماد کی نشانی ہے اور انتہائی حوصلہ افزا بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن جج صاحبان کے نام لئے گئے ہیں وہ انتہائی قابل احترام ہیں اور لوگ ان کے نام سن کر خوش ہوئے ہیں۔ عبوری حکومت کے بارے میں لوگوں کے خدشات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دور ہوتے جا رہے ہیں اور جو افواہیں تھیں کہ بنگلہ دیش کی طرز پر کوئی حکومت بن جائے گی اور وہ لمبا وقت گزار دے گی اب اپنی موت خود مر گئی ہیں اور اس میں کریڈٹ ہمارے سپریم کورٹ کو جاتا ہے جو کہ ہر روز کسی نہ کسی مقدمے کی سماعت کے دوران ایسے ریمارکس پاس کرتی ہے کہ الیکشن کسی صورت بھی ملتوی ہونے نہیں دیں گے گویا اس قسم کی ریمارکس اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے الیکشن کے التوا کو روکنے کا سبب بن گئے ہیں۔ پارلیمنٹیرین نے بھی وقت کم ہے اور مقابلہ سخت کے قانون پر عمل کرتے ہوئے سندھ اور پنجاب کے پیپلزپارٹی کے صوبائی ممبروں نے دھرنا دیا اور اصغر خان کے کیس میں فیصلے پر عملدرآمد کے لئے مظاہرہ کیا۔ یہ بڑی ہی عجیب بات ہے خود ہی حکومت ہیں اور خودہی مظاہرہ کر رہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ممبران اسمبلی جو کہ خود با اختیار ہیں کس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اصغر خان کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرائیں۔ حکومت نے خود ہی تو عملدرآمد کرنا ہے اور خود ہی بھوک ہڑتال (علامتی) کر کے خود سے ہی مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مقصد عملدرآمد کرانا نہیں بلکہ دباؤ بڑھانا ہے اور اس دباؤ کے نتیجے میں کچھ منوانا ہے۔ یہ مظاہرے صرف دباؤ بڑھانے کے لئے تھے تاکہ نواز شریف حکومتی پارٹی کے وزیراعظم کے عہدے کے لئے تجویز کردہ نام کو قبول کر لیں۔ اسی طرح ہم نے افواہ سنی ہے کہ اندر سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا آپس میں مک مکا ہو گیا ہے نواز لیگ والے پیپلزپارٹی کے تجویز کردہ پرائم منسٹر کو مان لیں گے اور پیپلزپارٹی والے شہباز شریف کے تجویز کردہ چیف منسٹر پنجاب کو مان لیں گے اس طرح ایک ٹکٹ میں دو مزے دونوں پارٹیوں کے ہو جائیں گے بقول غالب
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہ جس کا مآل اچھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت، لیکن
دل کے بہلانے کو غالب! یہ خیال اچھا ہے
تازہ ترین