• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی تو امن معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ تشدد کے طالبوں نے 24گھنٹے میں 33حملے کرتے ہوئے ایک درجن افغانیوں کو مار ڈالا اور بیسیوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔ لاکھوں افغان خواتین آپ کی دہشت کے خوف سے سہم گئی ہیں کہ ظلم و جبر کی سابقہ داستانیں شاید ایک مرتبہ پھر دہرائی جانی ہیں حالانکہ آپ نے معاہدے میں یہ لکھ کر دیا ہے کہ اب کے خواتین کے حقوق پر سابقہ قدغنیں نہیں لگائی جائیں گی۔

معاہدے میں تو یہ بھی لکھا گیا ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر کوئی حملہ نہیں ہوگا۔ 

افغان صدر اشرف غنی یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ کون سا مقدس فریضہ ہے جس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر تو کوئی حملہ نہیں ہوگا لیکن اپنے بھائی بندوں پر حملے جائز ہوں گے۔ 

وہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کابل انتظامیہ کو اعتماد میں لئے بغیر کسی دوسرے کو یہ اختیار کس طرح حاصل ہے کہ پانچ ہزار قیدیوں کو نئی تباہی کے لئے رہا کر دیا جائے، اگر یہ کڑوی گولی نگلنا ہی ہے تو اس کے لئے انٹرا افغان ڈائیلاگ میں گنجائش موجود ہے۔ 

امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو بھی واضح کر رہے ہیں کہ رہائی کوئی پیشگی شرط نہیں ہے اگر معاہدے پر کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوتی تو انخلا رک بھی سکتا ہے اور صدر ٹرمپ مزید آگے بڑھ کر کہہ رہے ہیں کہ ایسی صورت میں اتنی بڑی فوج لے کر واپس آئیں گے جو ماقبل کسی نے دیکھی نہ ہوگی۔ کیا ایسے ہو سکتا ہے یا یہ محض امریکہ کی گیدڑ بھبھکیاں ہیں؟

افغانستان میں بدلتے منظرنامے کی منظر کشی سے قبل یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ محض ڈرامہ نہیں ہے، اس صداقت میں بھی کوئی کلام نہیں ہے کہ فی الوقت دونوں پہلوان تھکے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ 

افغان جنگ امریکی معیشت کیلئے بڑا بوجھ ہے، امریکی ٹیکس دہندگان اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ امریکی عوام بھی کسی دوسرے ملک میں طویل انسانی بربادی و خون خرابہ چاہتے ہیں اور نہ اپنے بچوں کی لاشوں کے تابوت وصول کرنا۔

اسٹیبلشمنٹ جو بھی کہے الیکشن لڑنے والا کوئی بھی لیڈر عوامی احساسات کے برعکس نہیں جانا چاہتا، وہ مجبور ہے کہ نئے معرکے میں جانے سے پہلے اپنے عوام کو یہ بتلائے کہ میں نے اپنی سابقہ مہم میں جو وعدہ کیا تھا، پورا کر دکھایا ہے۔ 

واضح رہے کہ انخلا کا اعلان اپنی بنیادی شرائط منوانے کے بعد کیا جا رہا ہے۔ یہ شرائط اُن لوگوں سے منوائی جا رہی ہیں جو کبھی القاعدہ نیٹ ورک اٹھوانا تو دور کی بات بن لادن کی داڑھی کا بال بھی دینے کو تیار نہ تھے۔

 آج وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا تو القاعدہ جیسے دہشت گردوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا اور اگر کوئی افغان سرزمین پر آئے گا تو ہم خود اس کا سر کچلیں گے۔ اس لئے فتح کے ترانے سنانا چھوڑیں، نئے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کا سوچیں۔ 

9مہینوں میں یہاں کئی داستانیں رقم ہوں گی۔ اقتدار کی یہ ٹیڑھی کھیر اتنی آسانی سے کسی کے حلق میں نہیں اتر پائے گی کہ اس کا جشن منایا جا سکے۔ یہ امریکی انخلا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ سوویت انخلا جیسا ہوگا تو یہ اس کی اپنی ناسمجھی و بھول ہے۔ 

اعلیٰ تہذیبی اقدار کی عدم موجودگی کے ساتھ کسی بھی قوم میں جب باہمی افتراق اور منافرتیں اس سطح تک پہنچی ہوتی ہوں تو عدم رواداری، عدم برداشت پر مبنی سوچوں کے ساتھ مل کر، ہمیشہ نئی بربادیوں کو جنم دیتی ہیں، وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں لیکن جاہلانہ نفرتوں کو خیر باد نہیں کہتیں۔

درویش نے تو دو دہائیاں قبل یہ مشورہ دیا تھا کہ اپنی فورسز افغان سرزمین پر اتارنے سے احتراز کیا جائے، بہتر ہوگا کہ فضائی ٹیکنالوجی سے کام چلا لیا جائے۔ آج صدر ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں قیامِ امن کا ہم ہی نے ٹھیکا نہیں لے رکھا، اب اس کے پڑوسی یہ فریضہ سرانجام دیں۔ 

اُن کو واضح کرنا چاہئے اُن کی مراد کس پڑوسی سے ہے؟ پاکستان کے پاس تو اتنے معاشی وسائل نہیں ہیں، ہم خود کو بڑی مشکلوں سے چلا رہے ہیں، ہمسائیگی میں اتنا بڑا کردار کیسے قبول کر سکتے ہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں کی یہ نادانی ہے کہ وہ پیہم اس حالیہ متنازع ڈیل کا سہرا اپنے سر بندھوانے کیلئے بےچین ہیں۔ 

انہیں سوچنا چاہئے کہ بظاہر اس خوش آئند امریکہ طالبان امن معاہدے کے باوجود پوری مہذب دنیا طالبان اور ان کی شدت پسندانہ سوچ کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتی ہے، پاکستان خواہ مخواہ خود کو ان سے نتھی کرکے اپنے لئے کسی نیک نامی کا سامان نہیں کر رہا بلکہ ایسی صورت میں دنیا ہمیں بھی شک بھری نظروں سے دیکھتی ہے۔ 

نئے طالبان اگر اپنے ظالمانہ ماضی سے تائب ہو کر اس سے کنارہ کشی کا عندیہ دے رہے ہیں تو اپنا یہ نیا بیانیہ انہیں اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرنا ہوگا جس کے امکانات اتنے روشن نہیں ہیں۔ 

رہ گئے افغانستان کے دیگر ہمسائے تو اُن میں سے بھی شاید ہی کوئی یہ بھاری پتھر اٹھانے کی پوزیشن میں ہو۔ درویش کی نظر میں یہ سب ہنگامی و انتخابی باتیں ہیں، افغانستان کو ایک مرتبہ پھر کسی شدت پسند کے حوالے کرنا امریکی افورڈ کر سکتے ہیں اور نہ یورپی مغربی تہذیب اس ڈرائونے خواب کا رسک لے سکتی ہے۔ 

اس تباہ حال ملک کو بالآخر آئینی، جمہوری ترقی پسند اور لبرل افغانستان بننا ہے، چاہے آگ اور خون کے کتنے دریا عبور کرنا پڑیں۔

تازہ ترین