• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اور حکومت نے پہلی مرتبہ جمہوری طریقے سے 5سال مکمل کر لئے۔ اس عمل کو پورا کرنے کیلئے اس نے کیا کیا اقدامات کئے، کیا کیا پاپڑ بیلے، مگر تمام مراحل سے گزر کر ایک منفرد ، مشکل ترین مرحلہ عبور کر لیا۔ غور کریں تو شروع ہی سے پاکستان پیپلز پارٹی ماضی کی طرح ہمیشہ امریکن کانگریس طرز کی حکومت کرنے کی عادی رہی ہے ۔ نہ خود چین سے حکومت کرتی ہے اور نہ ہی کسی اور کو چین سے حکومت کرنے دیتی ہے ۔ پی پی پی کی پہلی حکومت جب پی پی پی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی دور کا آغاز کیا تو تمام صنعتی اداروں کو جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے قومیا لیا گیا ۔ جس کی وجہ سے ہمارے صنعت کار ، بڑے بڑے تاجر بیرون ِ ملک منتقل ہو گئے اور پھر روٹی ، کپڑا اور مکان کا معاشی کھیل رچایا گیا اور ہم صنعتی ، زرعی ، تعلیمی ، اقتصادی ترقی کرتے ہوئے زمین بوس ہو گئے اور قوم آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے ۔ پھر ضیاء الحق کا مارشل لا اور پھر اس کے بعد ان کے جانشین صدر غلام اسحاق خان بھی دو دو پی پی پی اور مسلم لیگی ادوار کرپشن کرنے کی وجہ سے جمہوری اقدام کو ختم کرتے رہے ۔ آخر میں جب مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف نے امریکہ کے منع کرنے کے باوجود ایٹمی دھماکہ کیا تو پھر وہی ہوا فوج کے سہارے امریکہ نے ان کا تختہ الٹ دیا ۔ جس طرح ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹا تھا ۔ صدر پرویز مشرف جب تک امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے سکون سے بیٹھے رہے پھر جب انہوں نے صدر ایوب کی طرح فرینڈ ناٹ ماسٹر والی کتاب لکھی اور امریکہ کے احکامات نظر انداز کرنا شروع کئے تو امریکہ نے ان سے NROپر دستخط کروا دیئے ۔ پی پی پی واپس اقتدار میں آ گئی ۔ اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو راستے سے ہٹوا دیا گیا جس کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا ۔ پرویز مشرف کو آخری گارڈ آف آنر بھی دلوایا گیا اور پھر آصف علی زرداری مسندِصدارت پر بیٹھے اور انہوں نے مرحوم بھٹو اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کی سیاست کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سب کو ساتھ لے کر چلے، چاہے اس میں نواز شریف ہوں، ایم کیو ایم ، مولانا فضل الرحمن ، اے این پی کے اسفند یار ولی ، جناب پرویز کیانی ، چیف جسٹس کی بحالی سب شامل تھیں تو 5سال کا سفر طے ہو گیا مگر اب اس کے بعد جب وہ چند دنوں کے بعد (اگر واقعی ایسا ہی ہے ) تو نگران وزیر اعظم کو میدان میں اُتاریں گے ۔ آگے کیا ہو گا وہ اب تک کسی کو معلوم نہیں اور شاید وہ خود بھی اس سے بے خبر ہیں ۔ نگراں وزیر اعظم کا اگلا قدم کیا ہو گا اور وہ نگراں وزیر اعظم کون ہو گا ۔ ملک کے بگڑتے ہوئے حالات سے الیکشن اپنے وقت پر ہوتے تو ہرگز نظر نہیں آ رہے ۔ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ کرپٹ نادہندگان سیاست دانوں کو ہرگز الیکشن کمیشن اس الیکشن میں نہ آنے دے ۔ اس کے لئے اگرچہ الیکشن کمیشن نے اپنی تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں مگر اتنی قلیل مدت میں اسکورٹنی مکمل ہوتی نظر نہیں آتی ۔ فوج ابھی تک لا تعلق ہے مگر حالات اگر بگڑے تو اکیلی عدلیہ اور الیکشن کمیشن ان بے لگام گھوڑوں کو الیکشن سے نہیں روک سکتے۔ 2بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پی پی پی اگرچہ دونوں گزشتہ25سال سے اقتدار میں رہی ہیں ۔ ان کے امیدوار سب کے سب آزمودہ ہیں کوئی کم تو کوئی زیادہ، کرپشن میں ملوث رہے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ اس آخری جمہوری دور میں کرپشن کے ساتھ دہشت گردی کا اضافہ ہوا ، خوب لوٹ مار رہی ساتھ ساتھ عوام کو گیس، بجلی سے بھی محروم ہونا پڑا ۔ بے روزگاری تو پرانی تھی مگر معیشت کا بیڑہ بالکل غرق ہو گیا ۔ پی پی پی کے کرتا دھرتا وزراء خود کھلم کھلا کرپشن میں ملوث رہے اور دونوں ہاتھوں سے پیسہ بناتے رہے ۔ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کراچی میں گزشتہ جمہوری دور میں جہاں پی پی پی ، متحدہ قومی موومنٹ ، اے این پی حکومت میں مشترکہ شریک تھیں ۔ روز 10پندرہ معصوم لوگوں کی جانیں جاتی رہیں ۔ عدلیہ بار بار وارننگ دیتی رہی مگر حکومت ِ سندھ سب ٹھیک ہے کی گردان کرتی رہی ۔ کھربوں کا نقصان صرف ہڑتالوں،دھرنوں،لا اینڈ آرڈر کی نذرہوتا رہا مگر پولیس ، رینجرز کی موجودگی میں حالات بد سے بدتر ہوتے گئے ۔ ہر طرح سے اغوا، پرچیاں ، دھمکیاں ، بھتہ عام ہوتا گیا۔ اب جب صدر صاحب نے جاتے جاتے 2/اہم فیصلے کئے جو یقینا امریکہ اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کو پسند نہیں آئیں گے یعنی ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ اور چین کو گوادر کی بندرگاہ تک مکمل رسائی ۔ کیا یہ فیصلے اگرچہ پاکستان کے مفاد میں ہیں تو آخر اتنی دیر بعد کیوں کئے گئے جبکہ چند روز جمہوری حکومت کے اقتدار کے باقی تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 5سال تک کیوں سوتے رہے ، آخر میں کیوں خیال آیا اور وہ بھی 2بڑی طاقتوں کی مرضی کے خلاف ، جس کا اظہار تو امریکہ نے پہلے ہی بالواسطہ ناراضی کا اظہار بھی کر دیا تھا پھر کھل کر اس کی مخالفت پی پی پی کو آنے والے الیکشن میں (اگرچہ وہ ہوتے نظر نہیں آ رہے ) بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔ اس کی وجہ امریکہ نے آج تک اپنی مرضی کے خلاف پاکستان میں کسی حکومت کو تو نہیں بخشا پھر بھلا وہ صدر زرداری کے اس اقدام کو کیسے معاف کرے گا ۔ اگرچہ وہ مسلم لیگ ن کو ایٹمی دھماکے کے بعد اپنا حلیف نہیں سمجھتا پھر اس الیکشن میں وہ کس کو سپورٹ کرے گا ؟ یہ چند دنوں کے بعد جب نگراں وزیر اعظم کا انتخاب ہو جائے گا تو قوم کو معلوم ہو گا ۔ اس ٹرننگ پوائنٹ کا جو پی پی پی حکومت کے آخری دنوں میں ہوا ہے ۔ کس کے اشارے پر یہ 2/اہم فیصلے ہوئے ؟ یہ 100ملین ڈالرز کا سوال ہے جو ابھی تک صیغہ راز میں ہے۔
تازہ ترین