• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زیادہ پرانی بات نہیں، ایک وقت تھا جب گھروں میں ٹیلی فون رکھنے والوں کو خوش نصیب سمجھا جاتا تھا۔ بڑے بڑے اعلیٰ حکام کی سفارش کے بغیر فون کا کنکشن ملنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ کنکشن منظور بھی ہو جائے تو سرکاری مخبر محلے میں آکر پاس پڑوس کے لوگوں سے پوچھ گچھ کرکے اپنا اطمینان کیا کرتے تھے پھر وقت نے پہلو ہی نہیں بدلا، اپنا حلیہ ہی بدل ڈالا۔ کسی من چلے نے موبائل فون ایجاد کردیا۔ نہ کوئی تار نہ کنکشن، نہ گھر میں ٹیلی فون رکھنے کی چھوٹی میز سجانے کی پریشانی اور نہ پڑوسیوں کا صبح و شام آنا کہ آپ کے فون سے ایک بہت ضروری کال کرنی ہے۔ اب ہم ہیں اور ہماری ہتھیلی میں فٹ بیٹھنے والا وہ آلہ گفتگو و سماعت ہے کہ موبائل فون کہیں جسے۔

چلئے، یہاں تک یہ کسی نعمت سے کم نہیں جس نے ساری دنیا کو باقی دنیا سے جوڑ دیا ہے اور آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساری دنیا آپس میں مکالمہ کررہی ہے لیکن بات اگر بات چیت تک رہتی تو اور بات تھی۔ اس بلا کی ایجاد میں جو کسی ظالم نے چڑیا کی آنکھ جیسا لینس لگا دیا ہے اور اسے آلہ گفت و شنید سے بڑھا کر ساکت اور متحرک تصویریں اتارنے کا گشتی کیمرہ بنا دیا ہے اس نے ایسی بڑی قیامت ڈھائی ہے کہ جس کا ابھی ہم لوگوں کو پورا احساس اور شعور نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد دنیا برہنہ ہو گئی ہے۔

اس احساس نے میرے ذہن میں پہلی چٹکی اس وقت لی تھی جب عراق میں ایک دہشت گرد تنظیم نے لوگوں کے گلے کاٹنے شروع کئے تھے۔ مجھے وہ منظر عمر بھر یاد رہے گا جس میں کسی مظلوم کو ذبح کیا جارہا تھا اور چاروں طرف کھڑا تماش بینوں کا مجمع اپنے اپنے موبائل فون سے اس قتل کی متحرک تصویریں بنا رہا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، زندگی کیسی کڑوی ہو گئی ہے کہ آئے دن کیمرے کے اس چھوٹے سے پردے پر اس سے بھی زیادہ بےرحمانہ منظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ سچ پوچھئے تو دو طرح کے منظر، ایک تو ظلم و تشدد کی تصاویر اور دوسرے بےہودگیوں اور بداعمالیوں کے جیتے جاگتے نظارے۔ کوئی پردہ نہ کوئی حجاب، کوئی حیا نہیں اور نہ کوئی روک تھام۔ جس کے جو تصویر ہاتھ لگ رہی ہے وہ اس کی دنیا بھر میں تشہیر کرکے خدا جانے کیا حاصل کر رہا ہے۔ آج کل انگریزی کا ایک لفظ بہت عام ہو گیا ہے کہ فلاں کی تصویر یا فلاں کی وڈیو ’وائرل‘ ہو گئی ہے، اس لفظ کی ایک اور لفظ ’وائرس‘ سے مشابہت اس کا مفہوم بیان کر دیتی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ آج کورونا کے نام سے جو بلا وائرل ہوئی ہے وہ جان لے سکتی ہے اور یہ سفّاک یا شرمناک مناظر کی نمائش انسان کی دماغی صحت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

بھارت میں تو موبائل فون کا بہت ہی زیادہ چلن ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بد نصیب شہر دلّی پر جو تازہ قیامت ٹوٹی اس کی بہت ہی زیادہ تصویر کشی ہوئی اور سچ تو یہ ہے کہ یہ منظر ہم سے نہیں دیکھے گئے لیکن اتنا ضرور ہوا کہ ہم بعد میں سکون سے بیٹھ کر اپنے انداز فکر کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ یہ مرحلہ ایک اعتراف کرنے کا ہے۔ سچ یوں ہے، ایک بار تو ہم نے بھی ہندوؤں کو دل ہی دل میں کیا کیا نہیں کہا لیکن پھر اندر سے کسی نے صدا دی کہ ٹھہرو۔ اُن بھیانک منظروں کو سوچو جو تم کسی وجہ سے نہیں دیکھ پائے لیکن جن میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا بےرحمانہ قتل عام ہوا تھا۔ ان سفاک لمحوں کا خیال کرو جب تمہارے ہم وطنوں نے مسیحی بستیوں کو لمحہ بھر میں پھونک دیا تھا۔ اور مظالم کا یہ کیٹلاگ بہت ہی طولانی ہے۔ کس کس کو روئیں اور کس کس کا ماتم کریں۔ دلّی کے مظالم کے بعد تو آنکھیں بھی پناہ مانگنے لگی ہیں۔

میں نے عمر کے تقریباً پچاس برس خبروں کی دنیا سے وابستہ رہ کر گزارے ہیں۔ میں کبھی کبھی دوستوں کی محفل میں کہا کرتا ہوں کہ اس پیشے سے وابستہ رہنے کے دوران جو لفظ میں نے تمام دوسرے الفاظ سے زیادہ برتا وہ تھا لفظ ’ہلاک‘۔ کسی کے پیدا ہونے کی بہت کم خبریں یاد ہیں مگر مرنے یا مارے جانے کی ’اسٹوری‘ کا شمار مشکل ہے اور اوپر سے غضب یہ کہ اکثر آج تک یاد ہیں۔ میراذہن ایک بار پھر اپنی نئی نسل کی طرف جاتا ہے کہ اس کے نوخیز ذہن معاشرے کے بارے میں کیسی کیسی رائے قائم کر رہے ہوں گے۔ اور ان پر بننے والے یہ نقش آگے چل کر معاشرے کے ساتھ خود ان کے روّیے کو کیسی شکل دیں گے۔ ہم اور طرح کی سوسائٹی میں پلے بڑھے تھے۔ یوں سمجھئے کہ دلی کی سڑک پر ایک نوجوان کو قتل کرنے والے مجمع کو ہم نے بے ساختہ جو کچھ بھی کہا تھا وہ کافی مہذب تھا لیکن یہ نوجوان ذہن دل کے نہاں خانے میں جو کچھ کہہ رہا ہو گا وہ ہم سے یقیناً مختلف ہوگا۔ ہم پرانی وضع کے لوگ تو شاید چپ ہو کر بیٹھ رہیں، اس نوجوان سے ڈر لگتا ہے کہ باہر نکل کر کچھ کر نہ بیٹھے۔ انسان کے کاسہ سر میں پروان چڑھنے والے دماغ کی دنیا ہی الگ ڈھب کی ہوتی ہے،وہ کب اور کیا سوچتا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ ڈر ہی لگتا ہے کہ اسی موبائل فون پر اپنے ہم خیال نو جوانوں سے مل کر کسی طرح کی منصوبہ سازی نہ کر رہا ہو۔ اس کے پختہ ذہن تک پہنچنے میں ابھی کئی برس لگیں گے اور کون جانے ان برسوں میں دنیا کیا سے کیا ہوچکی ہوگی۔

تازہ ترین