• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرکاری گاڑیوں کی مد میں گورنمنٹ کا گزشتہ سال تک تقریباً سات ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔ آڈٹ کے کئی پیرے بن چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں قانون بنایا گیا تھا کہ بیس، اکیس اور بائیس گریڈ کے افسران سرکاری گاڑیاں استعمال نہیں کر سکتے۔ 

ان کی تنخواہ میں گاڑی، ڈرائیور اور پٹرول کی رقم شامل کردی گئی۔ گریڈ 20 کے افسر کو 65960 روپے، گریڈ 21 کے افسر کو 77430 روپے اور گریڈ 22 کے افسر کو 95910 روپے ٹرانسپورٹ الاؤنس کے طور پر ملنے لگے مگر اِس کے باوجود زیادہ تر افسران سرکاری گاڑیاں استعمال کرتے رہے۔ 

اس سے دوہرا نقصان ہونے لگا۔ پہلے وفاقی سیکرٹری ایک مہینے میں دو سو اسی سے تین سو لیٹر تک پٹرول استعمال کر سکتا تھا۔ اب جنرل ڈیوٹی کے نام پر پٹرول کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ای سی سی، سیکرٹریز کمیٹیز اور دیگر سطح کےجتنے پلیٹ فارم ہیں اُن میں اس موضوع پر میٹنگز ہو چکی ہیں۔ 

کیبنٹ میٹنگ میں بھی بات ہو چکی ہے مگر طاقتور بیورو کریسی نے عمران خان کو مجبور کر لیا ہے کہ وہ اِس سمری کو مسترد کردیں۔ چھوٹی چھوٹی بچتیں کرنے والے وزیراعظم اس سے اربوں روپے کی بچت کر سکتے ہیں مگر ہائے افسر شاہی کا دامِ ہم رنگِ زمین۔ 

جب عمران خان کی حکومت آئی تھی تو افسران نے خوف سے سرکاری گاڑیاں استعمال کرنا چھوڑ دی تھیں۔ چھ بجے کے بعد کوئی سرکاری گاڑی اسلام آباد کی سڑکوں پر دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اب خوف ختم ہو چکا ہے۔ افسروں کے بچوں کے پاس سرکاری گاڑیاں نظر آنے لگی ہیں۔ 

نیب نے نواز شریف کے خلاف تو 30سرکاری گاڑیوں کے غلط استعمال کا کیس بنایا ہے جسے بننا چاہئے تھا مگر بیورو کریسی جو ہزاروں سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال کر رہی ہے، اُس کے خلاف کیس کون بنائے گا؟ بیورو کریسی کے معاملات وہاں وہاں کنٹرول میں ہیں جہاں جہاں اُن کی کمانڈنگ اتھارٹی یعنی وزرا اہلیت رکھتے ہیں۔ 

مثال طور پر فردوس عاشق اعوان اطلاعات و نشریات کی بیورو کریسی سے بھرپور کام لے رہی ہیں۔ وہ تجربہ کار بھی ہیں اور معاملہ فہم بھی۔ ان کے مقابلے میں شفقت محمود ہیں جو اگرچہ بیوروکریٹ رہ چکے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ کس طرح بیورو کریسی سے کام لیا جاتا ہے۔ 

ابھی انہیں نیشنل ہسٹری اینڈ لٹریری ہیریٹج ڈویژن کا وفاقی سیکرٹری بدلنا پڑا حالانکہ وہ اسے خود لائے تھے۔ یہ ڈویژن دوبارہ وزارتِ اطلاعات نشریات میں شامل ہونا چاہئے۔ 

محکمہ تعلیم کا اِس سے کوئی جوڑ نہیں۔ پھر وزیر موصوف بھی تاریخ، ادب اور ورثہ کو صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں جتنا ہمارے مذہبی دانشوروں نے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے سلوگن کو سمجھا ہے۔ یہ اسقاط حمل کی ایک تحریک کا نعرہ ہے اس پر ’’رابن سٹیونسن‘‘ کی کتاب بھی لکھی ہے اور اگر اسے عورت کی مجموعی آزادی کے تناظر میں دیکھا جائے تو عورت کی مرضی کے بغیر اس کے جسم کا استعمال ’’ریپ‘‘ کہلاتا ہے۔ اسلام نے بھی جس کی سزا موت تجویز کی ہے۔ اور نکاح، نکاح تو عورت کی مرضی کے بغیر ہوتا ہی نہیں۔

بیورو کریسی سے بہتر کام وزیراعلیٰ پنجاب لے رہے ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے شاید وہ بہتر کام نہ کر سکیں مگر اس وقت پنجاب میں وہ ریکارڈ بن رہے ہیں جس کی نوید عمران خان نے عثمان بزدار کو نامزد کرتے ہوئے دی تھی۔ وہ سچ مچ وسیم اکرم پلس ثابت ہو رہے ہیں۔ 

حکومت میں آنے سے پہلے گورننس کی جو مثال عمران خان دیا کرتے تھے، اس کو عثمان بزدار نے عملی جامہ پہنا دیا ہے گورننس کا پہلا اصول یہ ہے کہ حاکم عوام کو جوابدہ ہو، مظلوم کی شنوائی ہو۔ ترغیب دینے والا پہلے خود متقی ہو۔ عثمان بزدار نے یہی کچھ کیا۔ غریبوں پر وزیراعلیٰ آفس کے دروازے کھول کر دہائیوں پرانی روایت توڑ دی۔ بیوروکریسی کو بھی پیغام چلا گیا۔

گورننس کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ افسر قومی خزانے کا اثاثہ ہو، بوجھ نہیں۔ سابق حکمران اِس اصول پر سمجھوتہ کرتے آئے اور یہ سمجھوتہ ملک کی جڑوں میں بیٹھ گیا۔ عثمان بزدار وہ پہلے وزیراعلیٰ ہیں جنہوں نے نہ تو حکومت میں آکر نئی گاڑیاں خریدیں، نہ ہی شاہانہ اخراجات کئے بلکہ بغیر پروٹوکول کے دورے شروع کر دیئے۔ وہ غریبوں، مسکینوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی عام سے ہوٹل پر گاڑی روک کر چائے پی لیتے ہیں۔ 

اُن کا کوئی کیمپ آفس نہیں جہاں ہزاروں پولیس اہلکاروں کی فوج غلامی پر معمور ہو۔ انہوں نے پہلے ہی سال صرف سیکورٹی کی مد میں 60 فیصد کمی کی جس سے قومی خزانے کو 55 کروڑ کی بچت ہوئی۔ گاڑیوں کی مرمت اور تحائف کی مد میں 10کروڑ روپے کی بچت کی گئی۔ 

اس بچت کا مقصد صرف مالی فائدہ ہی نہیں تھا بلکہ وزیراعلیٰ بیورو کریسی کے لئے خود کو مثال بنانا چاہتے تھے۔ جو حب الوطنی وہ افسروں میں دیکھنا چاہتے تھے اس پر خود انہوں نے عمل پیرا ہو کر دکھایا۔ 

شاید اِسی وجہ سے بیورو کریسی جہاں ملک بھر میں سیاسی حکومتوں کو ٹف ٹائم دے رہی ہے وہاں پنجاب میں عثمان بزدار اور چیف سیکرٹری اعظم سلیمان کی ایسی جوڑی بن گئی ہے کہ بیورو کریسی سے کام لینا آسان بھی ہو گیا ہے اور سمت بھی درست ہو گئی ہے۔

میں نہیں سمجھتا کہ سارے بیورو کریٹس کرپٹ ہیں مگر زیادہ تر ایسے ہیں جن کا تنخواہ پر گزارہ ممکن نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسی کو دیکھتے ہوئے تمام بیورو کریٹس کی تنخواہیں ڈبل کردیں۔ میرے خیال میں تمام ملازمین کی تنخواہیں ڈبل کر دینا چاہئیں۔ 

بظاہر اِس میں نقصان سہی مگر مجموعی طور یہ معاشی استحکام کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ ورکنگ بہتر ہوگی۔ پھر کسی کو جب کرپشن کرنے پر نشانِ عبرت بنایا جائے گا تو پوری قوم وزیراعظم کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ اور ہاں عمران خان کو چاہئے کہ کچھ اہل لوگوں کو وفاقی سیکرٹری لگادیں۔ 

یہ وزیراعظم کے اختیار میں ہے۔ وہ کسی کو بھی وفاقی سیکرٹری لگا سکتے ہیں، چاہے وہ ملازم ہو نہ ہو۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو دونوں نے حسین حقانی کو وزارتِ اطلاعات و نشریات کا وفاقی سیکرٹری لگایا تھا حالانکہ وہ کسی دور میں بھی سرکاری ملازم نہیں رہا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین