• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اجڑی، لٹی، جلی بستی کی راکھ کے ڈھیر پر انسانیت نوحہ کناں ہے کراچی، کوئٹہ اور اب لاہور میں وہی بربادی کی المناک داستان پھر دہرائی گئی ہے۔ کوئی کہتا ہے ہزارہ برادری کا قتل ہوا ہے کسی نے کہا شیعہ مسلمانوں کا اور اب کوئی کہہ رہا ہے مسیحی برادری کی پوری بستی جلادی گئی۔ جبکہ خدا تو یہ فرماتاہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے تو پھر یہ کوئی کیوں نہیں کہتا کہ انسان قتل ہورہے ہیں۔ وہ انسان جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی زندگی کا چراغ گل کرنے والے ایسا کیوں کررہے ہیں۔ وہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ کیا وہ انسان ہیں؟ اگر وہ انسان ہیں تو پھر درندوں سے خوف کھانا بند کردیا جائے۔ کراچی میں 700 گھر لمحوں میں ویران اور کھنڈر بنادیئے گئے۔ فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کے لئے عباس ٹاؤن کا انتخاب کیا گیا اس سے قبل کوئٹہ اور اب لاہور کی ایک ایسی بستی کو نشانہ بنایا گیا جہاں مسیحی بھائی رہتے ہیں۔ اس بستی کے 300 کے قریب گھر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ تنکا تنکا جوڑ کر بنایا گیا آشیانہ پل بھر میں پھونک دیا گیا بقول بشیر بدر کے:
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
یوں تو ہر شخص کے جان و مال کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری بھی آئینی، قانونی اور اخلاقی طور پر حکومت اور اس سے متعلقہ اداروں کے فرائض میں داخل ہے۔ گوجرہ اور شانتی نگر میں پہلے بھی جو سانحات وقوع پذیر ہوئے ان کی رپورٹ بھی منظر عام پر نہیں لائی گئی۔ نا انصافی اور درندگی کی یہ کیسی تاریخ مرتب ہورہی ہے۔ آنے والی نسلوں کے ہاتھ میں پاکستان کا کون سا قابل فخر ماضی اور درخشاں مستقبل ہوگا۔ جلتی ہوئی بستیوں کی راکھ پر ہم کون سی مضبوط جمہوریت کی بنیاد رکھیں گے۔ توہین رسالت کے قانون کے مطابق ملزم کو گرفتار کرنے اور جرم ثابت ہونے پر اس کے خلاف کارروائی کرنا بھی حکومت اور پولیس کا کام ہے۔ لیکن بے قصور اور بے گناہ لوگوں کے گھر جلانا ایک انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔ اب الیکشن کی تیاریاں ہورہی ہیں اور نئے موسموں کا انتظار ہے نگراں حکومت کی بات بھی چل رہی ہے۔ مگر سوال وہی ہے کہ کیا نئے موسموں کے بعد یہ جلتی ہوئی بستی گل و گلزار بن جائے گی۔ سارے ببول کے پیڑوں پر گلاب اگ آئیں گے۔ زندگی ہار جانے والے اپنی تربتوں سے زندہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہاں پھر مجھے بشیر بدر کا ایک اور شعر یاد آرہا ہے۔
اور جام ٹوٹیں گے اس شراب خانے میں
موسموں کے جانے میں موسموں کے آنے میں
خدا نہ کرے ایسا ہو۔ جی تو چاہتا ہے امید کے چراغوں کو بجھنے نہ دیا جائے لیکن”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ جن لوگوں کو تصویروں میں دکھایا جارہا ہے۔ آگ لگاتے ہوئے توڑ پھوڑ کرتے ہوئے سامان جلاتے ہوئے ان سارے چہروں میں کوئی پرایا نہیں۔ کوئی باہر کا نہیں۔ ان سب کو ہم جانتے ہیں پہچانتے ہیں۔ پھر بھی ان سے نہیں پوچھتے کہ اپنے ہی گھر کو بار بار کیوں جلارہے ہو۔ ہے کوئی بڑھ کر ان کا ہاتھ روکنے والا؟ سانحوں پر رونے والے اور حادثوں کے ٹلنے کا انتظار کرنے والوں کے لئے تو یہی کہا جاسکتا ہے
بقول پیرزادہ قاسم:
سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پہ رونے سے
حبس جاں نہ کم ہوگا بے لباس ہونے سے
عداوتوں کی سرخیاں لکھنے والوں کے ہاتھ قلم نہ کئے گئے تو حزیمتوں کے داغ کبھی نہیں مٹیں گے اور ہماری پیشانیوں پر یہ داغ کیا ہماری قومی غیرت گوارا کرسکتی ہے؟۔ ملک سے باہر ہماری پہچان ہماری شناخت کن حوالوں سے ہورہی ہے۔ ہر روز ایک نیا واقعہ شرمندگی کی ایک اور مثال بن کراور لوگوں کی نگا ہوں میں نیا سوال بن کر جھانکتا ہے اور من حیث القوم ہماری نگاہیں جھکادیتا ہے۔ کیا ہمارا مذہب ہمیں انسانیت، رواداری، انسان دوستی،تحمل اور قانون کی پاسداری کا کوئی سبق نہیں دیتا۔ کیا ہمارے ہاں ایک انسان کی غلطی کی سزا معصوم اور بے گناہ لوگوں کو دینے کی راویت ہے؟ ہم جس نبی کے پیرو کار ہیں کہ ان سے محبت کے جذبات سے مغلوب کہی بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہی ہمیں اقلیتوں سے اور غیر مسلموں سے حسن سلوک کی تلقینکی ہے اور فرمایا ہے کہ اگر مسلمانوں کی بستی میں کسی ایک بھی غیر مسلم کے ساتھ نارواسلوک یا زیادتی ہوئی تو روز قیامت آپ خود اس کے وکیل اور داعی ہوں گے۔ مذہب کے جنون میں انسانیت کو قتل کرنے والے کو خدا کبھی معاف نہیں کرنے گا۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی سچا مسلمان اور پاکستانی بھی معاف نہیں کرے گا۔ ہم حب رسول کے ساتھ آپ کے فرمان کو بھی محترم اور عزیز رکھتے ہیں۔ کوئی پاکستانی ایسا نہیں جو بحیثیت پاکستانی اپنا سر اٹھا کر نہ چلنا چاہتا ہو یا جو عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کو بلند کرنے کا خواہاں نہ ہو جو وطن میں امن وخوشحالی کا وہ خواب نہ دیکھتا ہو جو ہونٹوں پر ایک تمنا ایک دعا بن کررہ گیا ہے۔ آخر کب تک بستیاں جلتی رہیں گی۔ شہر لہولہان ہوتے رہیں گے۔ کب تک ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈتے رہیں گے کہ دہشت گرد آخر کون ہیں اور آخر وہ کہاں چھپ جاتے ہیں؟ شہر شہر تباہی کے یہ منظر کب ختم ہوں گے۔ فرقہ وارانہ اور مذہبی منافرت پھیلانے کی یہ سازش کرنے والے جلد بے نقاب ہونا چاہئیں۔ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے اس قسم کے ڈرامے رچانے والوں کو عوام کے سامنے لانا چاہئے لیکن اس سے زیادہ اس آگ کو بجھانا ضروری ہے جو ہمارے ملی اور قومی اتحاد کے چادر کوخاکستر کرنے کے لئے لگائی گئی ہے۔
دست نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھادی جائے
اور یہ آگ بجھے گی بھی تو کیسے۔ کیا چند مذہبی بیانات سے یا امداد کے اعلانات سے؟۔ کہا جاتا ہے عوام سمجھ دار ہیں سازش کا شکار نہیں ہوں گے سب کے درمیان بھائی چارہ رہے گا لیکن جیسا کہ ہمارے ایک مسیحی بھائی نے خود کہا ہے کہ بچے بہت مشکل سوال کررہے ہیں۔ وہ سوال کیا ہوسکتے ہیں۔ ہم اور آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ عباس ٹاؤن کے ایک بچے کی آواز بھی ہم سب نے سنی تھی جیسے ایک صحافی نے لوگوں سے انٹرویو کے دوران یہ کہاکہ ”بچے یہ سنی شیعہ جھگڑا نہیں ہے “ لیکن معصوم ذہنوں میں بیدار ہونے والے سوال کی آگ کو کس تسلی کے جواب سے بجھائیں گے؟ خدارا سوچئے۔
تازہ ترین