• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8مارچ بشمول پاکستان پوری دنیا میں خواتین کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے جس کا مقصد خواتین کے ساتھ روا رکھے گئے کسی بھی نوع کے امتیازی سلوک یا رویے کا خاتمہ ہے۔ صدیوں کی بدسلوکیوں، بےانصافیوں اور استحصالی رویوں کے بعد آج کی ماڈریٹ تہذیبی ترقی نے بحیثیت مجموعی یہ تسلیم کر لیا ہے کہ عورت کمتر یا ناقص العقل نہیں ہے، عورت پیدا ہونا کوئی ابدی گناہ یا جرم ہے۔اصولی و نظریاتی طور پر اس اتفاقِ رائے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بالفعل اس خطہ ارضی کے کئی گوشوں میں ہنوز جس طرح نسلی، لسانی اور مذہبی امتیازات موجود ہیں اسی طرح جنسی یا صنفی امتیازی و استحصاتی سوچیں بھی حاوی ہیں۔ اس کے پیچھے صدیوں کی جہالت مختلف النوع تقدسات کے نام پر چمٹی ہوئی ہے۔ لپ سروس کے طور پر یہ ضرور کہہ دیا جاتا ہے بلکہ تکرار و اصرار کے ساتھ زور دیا جاتا ہے کہ عورت کو جو حقوق ہم نے دے رکھے ہیں دورِ جدید کی تمام تر تہذیبی ترقی اس کی دھول کو بھی چھونے سے قاصر ہے لیکن جب گہرائی میں جا کر شعور و استدلال کے ساتھ حقائق کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ایسی مقدس دیواریں سامنے کھڑی کر دی جاتی ہیں جن سے ٹکرا کر سر پھوڑا تو جا سکتا ہے، علمی و فکری مباحثہ نہیں ہو سکتا۔

اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو سچائی یہ ہے کہ عورت ذات کا استحصال ہر سماج میں بےدردی سے روا رکھا گیا ہے وجہ اس کی یہ تھی کہ ماضی میں جنگیں جسمانی طاقت سے لڑی جاتی تھیں، ہر طاقتور کمزور کا استحصال کرنا اپنا فطری حق سمجھتا تھا، ہم لاکھ دلائل دیں، عورت بہر حال جسمانی ساخت کے لحاظ سے مرد کی نسبت کمزور واقع ہوئی ہے جس طرح جسمانی طور پر کمزور مرد کو کمتر خیال کیا جاتا تھا اسی طرح عورت کو بھی حقیر خیال کیا گیا۔ عصرِ حاضر کی سب سے بڑی نیکی و عظمت یہ ہے کہ اُس نے برتری کا معیار ظاہری و جسدی مضبوطی کے بجائے شعورِ انسانی کی باریک بینی کو بخش دیا ہے۔ جسمانی لحاظ سے اگر بھینسا طاقتور ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شعورِ انسانی پر برتری کا دعویٰ داغ دے، عقل بڑی کہ بھینس کی یہی معنویت ہے۔ آج کی عورت نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ عقلی و شعوری طور پر نہ صرف یہ کہ وہ مرد کے برابر کھڑی ہو سکتی ہے بلکہ کئی مقامات میں اُس سے آگے بھی نکل سکتی ہے، جسے شک ہے وہ اپنے تمام تعلیمی اداروں کے ہر سال سامنے آنے والے امتحانی نتائج کا ریکارڈ ملاحظہ فرما لے۔ اس لیے آپ اسے کسی بھی صورت ناقص العقل نہیں کہہ سکتے۔اس وقت ہمارے ملک میں بلاجواز روایت اور جدت کے نام پر دو دھڑے آمنے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں، درویش کی نظروں میں یہ اشتعال انگیزی محض جہالت کی پیدا کردہ ہے۔ عورت، مرد کی مساوی حیثیت ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے جسے چیلنج کرنے والے، آنے والے ماہ و سال میں منہ کی کھائیں گے۔ یو این ہیومن رائٹس چارٹر کے تحت اقوامِ متحدہ کی ممبر تمام اقوامِ عالم اس پر عمل پیرا ہونے کی پابند ہیں، قومی ریاستوں کے تمام آئین اس کے پاسدار ہیں، کسی ریاستی آئین کی معطلی میں بھی بنیادی انسانی حقوق کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ آئینی عدالتوں کا اولین فریضہ ہے کہ مرد و زن کے حقوق میں امتیاز روا رکھنے والی شقوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آئین سازوں کو انسانی مساوات پر مبنی قانون سازی کی درخواست کریں۔یہاں ’’خواتین مارچ‘‘ کے حوالے سے بحث ہو رہی ہے کہ فلاں سلوگن ہونا چاہئے، فلاں پر پابندی ہونی چاہئے، کسی بھی آئینی و جمہوری سماج میں انسانی حقوق اور آزادیوں پر ناروا قدغنیں نہیں لگائی جا سکتیں۔ سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ حقوقِ نسواں کی علمبردار تنظیمیں جب یہ نعرہ لگاتی ہیں کہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ تو دراصل وہ فحاشی پھیلا رہی ہوتی ہیں، پہلے تو لفظ فحاشی کی وضاحت ہونی چاہئے، درویش کے نزدیک تہذیب سے گری ہوئی کوئی بھی حرکت یا بدزبانی دراصل فحاشی ہے، اس کے مرتکب در حقیقت وہ مرد بھی ہوتے ہیں جو خواتین کے حوالے سے تہذیب سے گری فقرے بازی کرتے ہیں۔ درویش کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا جب ایک مصنف نے ایک خاتون کے ساتھ تہذیب و اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کی۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعرے کی حمایت یا اس پر اعتراض محض باہمی غلط فہمی، بدگمانی و ناسمجھی ہے۔ ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس کے جسم و جاں پر اس کا اپنا ہی اولین حق ہوتا ہے، قانونِ فطرت کے تحت یہ حق اُسے تخلیق کرنے والے پروردگارِ عالم نے ابدی طور پر تفویض کیا ہے۔ لوگوں نے دوسروں کو کیسے اپنا غلام بنا لیا ہے جبکہ اُن کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔ کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ جسم تو میرا ہے مگر اس پر حق کسی اور کا ہے؟ ہماری تو فقہی کتب ان حوالوں سے بھری پڑی ہیں کہ کوئی بھی عورت اگر نکاح میں بھی اپنے جسم پر اپنے خاوند کو حق دیتی ہے تو اپنی آزاد مرضی سے دیتی ہے اور جب چاہے خلع کے ذریعے اپنا یہ حق واپس لے سکتی ہے۔ کیا خوب کہا گیا ہے کہ بیشک تمہارے جسم کا تم پر حق ہے۔ آخر اس میں کسی دوسرے کو مسلط ہونے کا کیا جواز ہے؟ لہٰذا جبر خواہ کیسے ہی مقدس حلیے یا لبادے میں آئے، اس کی مذمت کی جانی چاہئے، یہی ’’تحریک حقوقِ نسواں‘‘ کی فکر و فہم کا حاصل ہے۔

تازہ ترین