• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ محاورہ عام طورپر اس وقت بولا جاتا ہے جب مُتکلّم کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ آپ کا بیان ختم ہوگیا آپ سے ملاقات ختم ہوگئی یعنی اب مزید کچھ کہنے یا کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پہلے تو اس محاورے کا اطلاق ڈاکٹر طاہرالقادری کی بے وقت آمد اور دینی اُمور سے ہٹ کر سیاسی کارروائیوں کے دھواں دھار آغاز پر ہوا تھا۔ میں نے اسی ہر دلعزیز جنگ میں اس پر ایک کالم بعنوان ”آئے بھی وہ گئے بھی وہ“ لکھا تھا جس کا دوسرا مصرعہ تھا ”ختم فسانہ ہوگیا“۔ جہاں تک قادری صاحب کا تعلق ہے تو تعجب کی بات یہ تھی کہ وہ بغیر کسی پارٹی یا لیڈر کے مدعو کئے ہوئے ایک دم سیاسی میدان میں کود پڑنا، پورے ملک کو ہیجان میں ڈالنے کی بھرپور کارروائی کرنا، پھر تقریروں میں حکومت وقت اور سیاسی لیڈروں اور قومی اداروں کے سربراہوں کو وقت کا الٹی میٹم دے کر دھمکیاں دینا کیسے موزوں ہوسکتا تھا جبکہ عرصہ دراز سے سیاسی میدان سے منہ موڑ کر دوسرے ملک رہائش پذیر ہیں اور اس ملک سے وفاداری کا حلف اُٹھا کر وہاں کے شہری بن گئے ہیں۔ سخت حیرت کی بات یہ تھی کہ ہماری موجودہ حکومت جو عدلیہ جیسے باوقار ادارے کے جائز احکامات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی مسلسل کوششیں کرتی رہی ہے (اور شکست کھاتی رہی ہے) بجائے ڈاکٹر صاحب کو کنٹرول کرنے کے ان کی حامی اور اتحادی بن گئی۔ حکمران پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے نام نہاد بڑے بڑے لیڈر نہایت ادب سے ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق انتہائی سعادت مندی سے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ایم کیو ایم نے تو پہلے ہی دن سے بڑے بھائی کا لقب دے کر بیعت کر لی اور الطاف حسین صاحب نے ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کو حکم دے دیا کہ وہ اب بجائے ان کے ڈاکٹر طاہر القادری سے ہدایات لیں وہ ان کے بڑے بھائی ہیں لیکن رفتہ رفتہ موسم اور حالات کے تقاضوں سے متاثر ہو کر عملی طور پر حصہ نہیں لیا۔ عمران خان مسلسل شش وپنج کا شکار رہے کیونکہ ان کی لانگ مارچ خواہش اور توقع کے برعکس پُراثر نہیں رہی تھی لیکن وہ زبانی ہمدردی کا اظہار کرتے رہے۔ پی پی پی نے تو عملی اقدامات سے یہ ثابت کردیا کہ شاید ڈاکٹر قادری ان کے ایما پر ہی الیکشن کو موخرکرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے قادری صاحب کو حلوہ پوری تو کیا گھاس بھی نہیں ڈالی اور احسن اقبال نے انہیں ایک کیپسول قرار دیا جو بے اثر ثابت ہوا اور وہ کچھ نہ ہو سکا جس کے عزائم لے کر قادری صاحب آئے تھے اور پی پی پی اُمید لگائے بیٹھی تھی۔
کہاوت ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی جانب بھاگتا ہے یعنی اپنی تباہی کا سامان خود مہیا کرتا ہے۔ یہی حال محترم ڈاکٹر طاہر القادری کا ہوا۔ پی پی پی اور حکمراں جماعتوں کی مدد کے بعد ان کو یہ زعم ہوگیا تھا کہ ان کا مقصد پورا ہونے والا ہے اور وہ اس خوش فہمی میں خود ہی سپریم کورٹ پہنچ گئے اور خود ہی الیکشن کمیشن کی ساخت کو چیلنج کرنے کا بیٹرا اُٹھالیا۔ یہ ان کی کم عقلی کا مظاہرہ تھا۔ چیف جسٹس صاحب کے چند چبتے ہوئے سوالات نے ان کے دانتوں تلے پسینہ نکال دیا اور ان کو تاخیر سے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی عقل کل سمجھنے لگے تھے اور بھول گئے تھے:
ہر چند داغ# ایک ہی عیار ہے مگر
دشمن بھی تو چھٹے ہوئے سارے جہاں کے ہیں
اگر وہ کیس یا پٹیشن کسی پاکستانی شہریت والے رفیقِ کار سے کرادیتے تو اس پشیمانی اور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ لیکن یہ بات اچھی ہوئی کہ لوگوں کو ان کی مداخلت بیجا اور ہیجان پیدا کرنے کے انجام کو ان کی پسپائی کی شکل میں دیکھنے کا موقع مل گیا۔ انہیں اب عزت و احترام بچانے کے لئے سیاسی میدان چھوڑ کر دینی درس و تدریس کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس مسائل سے پُر ملک کو چھوڑ کر چلے جانا چاہئے تاکہ عوام کو سکون ملے اور ان کی دینی عزت قائم رہے، اب آگے ان کی اپنی مرضی ہے۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
یہ تو تھی محترم ڈاکٹر طاہر القادری کی داستان اب آئیے موجودہ حکومت کے 5 سالہ دور کی تباہ کاریوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ وہی جماعت ہے جس کے بانی نے غریب عوام کو روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا تھا اگرچہ ملک کے اندر قومیائی پالیسی نے تباہ کاری پھیلا دی تھی اور صنعتی اور تعلیمی ادارے تباہ ہوگئے تھے مگر پاسپورٹ کی دستیابی کی سہولت نے لاکھوں پاکستانیوں کو بآسانی غیر ممالک میں جاکر اچھے مستقبل بنانے کی سہولت میسر کی اور اس طرح لوگوں کو بالواسطہ روٹی، کپڑا اور مکان کی سہولت مل گئی مگر ان کے جانشینوں نے رشوت ستانی اور بدعنوانی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے اور بینظیر کی دونوں حکومتیں سنگین رشوت ستانی کی وجہ سے برخاست کی گئیں اور اس ٹیم کا کپتان مسٹر ٹین پرسنٹ آج 5 سال حکومت کرکے اور ہمارے ملک کو تباہ کرکے جارہا ہے۔ پچھلے60 سال میں اتنی نااہل اور راشی حکومت اس ملک پر مسلط نہیں ہوئی، ہر قابل تصور بُرائی و خرابی کو اس حکومت نے پرورش کیا اور ترقی دی۔ بین الاقوامی سطح پر ہمیں ذلیل ترین و فقیر ترین ملک بنادیا اور دہشت گردی و قتل و غارت گری میں صف اوّل کی قوموں میں لاکھڑا کیا۔ اس پر پچھلے وزیر اعظم گیلانی، موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور صدر زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے 5 سال میں جو کارکردگی دکھائی ہے وہ کسی حکومت بلکہ تمام حکومتوں نے مل کر نہیں دکھائی۔
اخبارات میں شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق ڈالر 60 روپیہ کے بجائے 100 روپیہ کا ہوگیا، پٹرول فی لیٹر 56 روپیہ کے بجائے 108 روپیہ، ڈیزل 39 روپیہ فی لیٹر کے بجائے 115 روپیہ، سی این جی 30 روپیہ کے بجائے 75 روپیہ فی کلوگرام، موٹر سائیکل 50 ہزار کے بجائے 68 ہزار میں، اے سی 15000کے بجائے 42000 میں، آٹا 13 روپیہ فی کلو کے بجائے 37 روپیہ، چینی 21 روپیہ کی بجائے 65 روپیہ فی کلو گرام، دودھ 25 روپیہ فی لیٹر کے بجائے 72 روپیہ فی لیٹر، پکانے کا تیل 90 روپیہ فی کلو کے بجائے 190 روپیہ فی کلو گرام، جی ایس ٹی 15 فیصد کے بجائے 25 فیصد، فون کال اور ایس ایم ایس 15 فیصد سے بڑھ کر 21 فیصد، ڈی اے پی یوریا 1300 فی بوری کے بجائے 4700روپیہ، لوڈ شیڈنگ 30 فیصد سے بڑھ کر 150 فیصد، بجلی فی یونٹ2.13 روپیہ کے بجائے 9.38 روپیہ، سونا 20000 فی تولہ کے بجائے 63000 روپیہ فی تولہ، عوام مہنگائی کے بوجھ تلے مر گئے ہیں مگر بی بی زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے۔ یہ وہ ڈیموکریسی ہے جس نے ہمیں دنیا کے بدترین ملکوں میں شامل کردیا ہے۔ ہم افریقہ کے پسماندہ ، غریب ترین ملکوں کی صف میں ہیں مگر ہمارے حکمران ڈیزائنر درآمد کردہ سوٹ پہنتے ہیں، کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، جعلی ڈگریوں کی مدد سے الیکشن جیتتے ہیں، کروڑوں، اربوں روپے کے محلات میں رہتے ہیں اور عوام کو کچل کر ، مار کر کہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ غالباً یہ عوام کو مخاطب کرکے کہا جا رہا ہے کہ تم نے جمہوری حق، ووٹ کا استعمال کرکے ہمیں یہاں بٹھایا ہے اور اب ہم تم کو جمہوریت کا مزہ چکھا رہے ہیں۔ بس اب بہت ہو چکا خدا کے لئے : بس ہوچکی نماز مصلّیٰ اٹھائیے۔
اب چند دن میں موجودہ اسمبلیاں تحلیل ہو رہی ہیں۔موجودہ حکمران جاتے جاتے بھی اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔ فنڈز کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن غیر موثر ہیں وہ کریں بھی کیا، یہ چیزیں چھپا کر کی جا رہی ہیں۔ ان کی اطلاع ان اداروں کو نہیں مل پاتی اور جب تک ان کو ان غیر قانونی باتوں کا علم ہوگا، یہ لوگ اپنی بساط لپیٹ کر اور عیاشی کرکے جا چکے ہوں گے اور وہی پچھلے کالم کے عنوان کی بات ہو جائے گی کہ:
آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا
اُن کو تو ملک لوٹنے کا اِک بہانہ مل گیا
چند سطور ایک اہم کتاب ، ”تاریخ وزیرآباد“ کے بارے میں تحریر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تاریخی و اہم کتاب جناب حافظ مشتاق احمد کوکب کی تحریر کردہ ہے، 550 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے منظور عام پریس موہن نگر، ریلوے کالونی، وزیرآباد (فون 0300-6220366 ) نے شائع کیاہے۔
یہ اہم کتاب حافظ کوکب صاحب کی برسوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ آپ نے شہر وزیر آباد کی بنیاد، حکمرانوں، وہاں کے عوام، صنعت، تجارت، تحریک آزادی، سیاست دانوں، مشہور ہستیوں، آب و ہوا، تاریخی عمارتوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ یہاں کی مشہور شخصیتوں میں راجہ مہدی علی خان، جسٹس یعقوب علی خان، جسٹس ایس اے رحمن، حمید احمد خان سابق چانسلر پنجاب یونیورسٹی، حامد ناصر چٹھہ، مُنو بھائی، عطاء الحق قاسمی، کرشن چندر وغیرہ بے حد مشہور ہیں۔ کتاب میں نہایت اہم تاریخی تصاویر نے اس کی رونق کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حافظ مشتاق احمد کوکب صاحب کو تندرست و خوش و خرم رکھے، حفظ و امان میں رکھے اور عمر دراز کرے۔ آمین
کرے زور قلم اور زیادہ“
تازہ ترین