• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو PTA افسران کی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری

فور جی لائسنس میں مبینہ کرپشن پر نیب تحقیقات سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈی جی پی ٹی اے عبدالصمد اور ڈائریکٹر امجد مصطفےٰ کی ضمانت منظور کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین نیب کے گرفتاری اختیارات کی تشریح کر دی۔

یہ بھی پڑھیئے: پی ٹی اے کے دو سابق ممبران کی ضمانت قبل از گرفتاری

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے 56 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس پر ان کے علاوہ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب کے دستخط موجود ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی اے کے دونوں افسروں کی 5، 5 لاکھ روپے کے عوض ضمانت منظور کی ہے۔

فیصلےمیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے گرفتاری کے اختیارات پر اہم سوالات اٹھا دیے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب گرفتاری کے اختیارات کا لاپرواہ استعمال گورننس اور معیشت کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: پی ٹی اے کو موبائل بلاک نہ کرنے کی ہدایت

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی شک نہیں کہ کرپشن سب سے بڑی برائی ہے جس نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے اور معاشی ترقی اور قانون کی حکمرانی کو بری طرح متاثر کیا ہے، کرپشن سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بھی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے، لیکن گرفتاری کے صوابدیدی اختیارات کا بے جا استعمال عوامی مفاد کے لیے نقصان دہ ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب اختیارات کا غلط استعمال گورننس اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے، ان منفی اثرات کو دور کرنے کے لیے نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کیا گیا، کرپشن کی لعنت سے چھٹکارے کے لیے بلا تفریق احتساب ضروری ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ وائٹ کالر کرائم سے نمٹنے کے لیے تفتیشی افسران کی پیشہ ورانہ تربیت بھی لازم ہے، تفتیشی افسر ملزم کی حاضری یقینی بنانے کے لیے مناسب پابندی عائد کر سکتا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جرم میں ملوث ہونے کے ناکافی شواہد کی عدم موجودگی میں گرفتار نہیں کیا جا سکتا، ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں گرفتاری اختیارات کا غلط استعمال ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: پی ٹی اے کا سوشل میڈیا سائٹس کی بحالی کا حکم

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسفند یار ولی کیس میں سپریم کورٹ بھی گرفتاری سے متعلق اختیارات کی تشریح کر چکی ہے، ترمیمی آرڈیننس اس بات کا ثبوت ہے کہ گرفتاری کے بے دریغ اختیارات مسائل کا سبب تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ گرفتاری کے صوابدیدی اختیارات کا بے جا استعمال عوامی مفاد کے لیے نقصان دہ ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نیب ایسا ادارہ بنے کہ کرپٹ افراد اس سے ڈریں اور عام لوگوں کا اس پر اعتبار ہو، اختیارِ گرفتاری کا بے جا استعمال اپنے آپ میں اتھارٹی کا غلط استعمال ہے، گرفتاری سے پہلے نیب کے پاس کچھ ٹھوس شواہد ہونا لازمی ہیں، نیب کے پاس ایسے شواہد ہونے لازم ہیں جو ملزم کا جرم سے بادی النظر میں تعلق جوڑیں۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب کا ملزم کی مجرمانہ نیت ثابت کرنے کے لیے بھی کافی شواہد ہونا ضروری ہیں، نیب کے پاس شواہد ہونے چاہئیں کہ ملزم کی نیت مالی یا ذاتی فوائد لینے کی تھی۔

تازہ ترین