• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا کسی کو اندازہ ہے کہ تشریف لے جانے والی حکومت نے ملک اور اس کی اقتصادی، معاشی اور سیاسی شکل کو کتنا بگاڑ دیا ہے اور مسائل اور مشکلات کے کتنے بڑے انبار لگا دیئے ہیں۔ حکومت تو جاتے جاتے آخری وقت تک وہ وہ فیصلے کرتی رہی جو کوئی بھی ملک کا خیرخواہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ مثلاً لاکھوں لوگوں کو نیا روزگار دینے کا اعلان، ہر اہم عہدے پر اپنے لوگوں کا تعین چاہے وہ ملک میں ہوں یا ملک سے باہر، اربوں روپے خزانے سے نکالنے کا حکم تاکہ انتخاب میں خرچ کیا جا سکے، اپنے اہم مہروں کو جن کے بارے میں خطرہ ہے کہ کہیں وہ دھر نہ لئے جائیں اور کہیں سچ نہ اگلنا شروع کر دیں ان کو سرکاری تحفظ دینے کے اعلانات، کسی کو صدر کا معالج بنا کر ایوان صدر میں چھپنے کا موقع دیا جا رہا ہے تو جانے والے بھاگتے بھاگتے اپنے لئے خوب سہولتوں اور مراعات کا نوٹس جاری کروا رہے ہیں۔ ایسی مارا ماری ہے کہ کبھی دیکھنے میں نہیں آئی خیال یہ ہے کہ وہ سارے فیصلے جو جلدی میں کئے جا رہے ہیں فوراً واپس کرنا پڑیں گے اور عبوری حکومت نے نہیں کئے تو عدالتوں میں چیلنج ہوں گے مگر حکومت کو کوئی ذرّہ برابر فکر یا غم نہیں تھا کیونکہ وہ صرف اعلانات کر کے سیاسی پوائنٹ بنانے میں مگن تھی۔ اب یہ سارے بوجھ عبوری حکومت کو اٹھانے ہیں پہلے تو سب سے بڑا کام قوم اور ملک کو بتانا ہوگا کہ ہماری معیشت کہاں کھڑی ہے اور جو درجنوں معاہدے اور MOUS صرف شخصی جان پہچان اور ذاتی فائدوں کے لئے کئے گئے ان کا کیا ہوگا۔
آخری وقت تک سیاسی دھما چوکڑی بھی خوب ہوئی اور ایک وزیر تو فرمانے لگے کہ اگر میری ضرورت اگلی حکومت کو محسوس ہوئی تو میں حاضر ہوں یعنی وہ اتنے خوش ہیں اپنی کارکردگی سے کہ سوچ رہے ہیں ملک کی داخلی صورتحال ان کے بغیر کوئی سنبھال ہی نہیں سکتا۔ کیسے کیسے خواب دیکھتے ہیں لوگ اور کن غلط فہمیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ یہ سب حکومت کے اداکار تو اپنے اپنے حصے کا مال غنیمت سمیٹ کر الگ ہوگئے مگر سب سے بڑا سوال یہ چھوڑ گئے کہ کیا انہیں کوئی پکڑنے کی کوشش کرے گا۔ پوری قوم کو سوچنا پڑے گا کہ اگر جو بلدکار ہو چکا اسے بھلا دنیا بہتر ہے تو پھر سارے راستے کھل جائیں گے اور اگلے آنے والوں کو کوئی کیسے روک سکے گا اور اگر اس طرح کی بے دریغ لوٹ مار کو روکا نہیں گیا تو کس طرح اس ملک کی کشتی کو چلایا جائے گا اور کنارے لے جایا جائے گا۔ گہری سوچ ہر سطح پر کی جا رہی ہے اور کچھ لوگوں کو تو عبرت کا نشان بنانا ہی ہوگا، اب کون کون ایوان صدر میں پناہ لیتا ہے اور کتنی دیر یہ دھمال چلے گا اور کون راہ فرار اختیار کر کے خود ہی ملک بدر ہوگا۔ یہ سب سوالات تیزی سے گردش میں ہیں۔ چور سیاست دانوں کی تو پوری کوشش ہے کہ ایسے بے ضرر لوگوں کو عبوری حکومتیں دی جائیں جو کسی قسم کا احتساب کرنے کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں مگر وہ بھول رہے ہیں کہ عبوری حکومتوں کو چلانا اولاً بیوروکریسی کا کام ہے اور اس کو طاقت فوج، عدلیہ اور میڈیا فراہم کرے گا۔ ان چاروں طاقت کے اہم مراکز میں چوروں کو پکڑنے اور کڑے احتساب پر پوری مفاہمت ہے یعنی اگر عدلیہ کسی بڑے چور یا سیاسی بے ایمان کو پکڑنے کا حکم دے گی تو عبوری حکومت کی کیا مجال کہ وہ رکاوٹ بنے۔ عبوری حکومتوں میں آنے والوں کو یہ بات پلّو میں باندھ کر رکھنی چاہئے، اسے بے شمار فیصلوں پر بھی عمل کرنا ہے جو عدالت عالیہ نے دیئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ مشہور ادارے ٹرانسپیرنسی کے مطابق 5سالوں میں 18کھرب روپے لوٹے گئے۔ اب اگر یہ اندازہ آدھا یا ایک چوتھائی بھی صحیح ہے تو بھی کھربوں کی چوری تو ہوگئی۔ حکومت والے چھوٹے چھوٹے اداکار جب شام کو دو چار گھونٹ کڑوے پانی کے پی لیتے ہیں تو بڑھکیں ایسی مارتے ہیں کہ لوگ شرم سے نادم ہو جائیں۔ کوئی اربوں سے کم کی بات نہیں کرتا اور کروڑوں کی چوری کرنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو اس لوٹ مار کو پی پی پی نے تو ایک آرٹ کا درجہ دے دیا ہے۔ پارٹی کے نئے منشور میں کرپشن کے خلاف ایک لفظ درج نہیں جیسے یہ ایک قابل قبول امر ہے اور اسے روکنا وقت گنوانا ہے۔ دوسری پارٹیاں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہیں سوائے عمران خان کے اور وہ جب حکومت میں آئیں گے اس وقت تک کیا ملک اس طرح کی لوٹ مار برداشت کر سکے گا۔ اس ڈوبتی کشتی پر سب سے بھاری بوجھ ہی کرپٹ سیاستدانوں، افسروں، فوجیوں اور میڈیا کے چند گندے انڈوں کا ہے آج کل ذرا سی بات ان چوروں کے خلاف کی یا لکھی جائے ایسی مرچیں لگتی ہیں کہ کالموں اور ٹاک شوز میں دل اور پسلیاں اور پتلونیں جلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کوئی کسی کی چھتری کے نیچے چھپ کر وار کرتا ہے اور کوئی جمہوریت کے کھوکھلے سائبان کے پیچھے سے۔ جب میڈیا کے لوگ اتنی کھلم کھلا جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو انگلیاں تو اٹھیں گی اور سچائی بھی زیادہ دن چھپ نہیں سکتی۔ آخر ہم سب اسی ماحول اور اسی معاشرے میں رہتے ہیں کہاں تک ناجائز مال دولت کو چھپائیں گے، چاہے کوئی بہانہ بنائیں جیسے ”یہ مرسیڈیز تو میرے بیٹوں کے سسرال سے آئی ہیں“ وغیرہ۔
ملک ایک اہم موڑ سے گزر رہا ہے اور اگر الیکشن صاف شفاف ہوگئے تو اچھا ہوگا مگر عوام کیلئے اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو پھر بے بس اور غصہ کا وہ عالم سامنے آئے گا جس کے بارے میں سوچنا بھی دردناک ہے۔ ایک تبدیلی کی مثال جو عمران خان نے ابھی سے قائم کر دی ہے وہ ان کی پارٹی کے الیکشن ہیں اور جس طرح لوگ ان انتخابات میں شرکت کر رہے ہیں جو جذبہ اور خواہش نظرآ رہی ہے وہ دوسری پارٹیوں کے لئے عبرت ناک ہے۔ عمران خان جب کہتے ہیں کہ میری پارٹی کے یہ منتخب لیڈر مجھے ہٹا سکتے ہیں مگر میں ان کو نہیں ہٹا سکتا تو اکثر لوگ آبدیدہ ہو جاتے ہیں اور ان کا23مارچ کا جلسہ جس میں 80ہزار لوگ حلف اٹھائیں گے ایک ملکی تاریخ اور سیاست کا حقیقتاً یادگار دن ہوگا۔ عمران نے اور کچھ کیا ہو یا نہیں سیاست میں ایک نئی اور مثبت مثال ضرور قائم کردی ہے۔ اب لوگ ان کی پارٹی کو ووٹ دے کر اگر یہ ثابت کر دیں کہ وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو جمہوریت واقعی جڑیں پکڑتی نظر آئے گی ورنہ اگر یہی ٹولہ پھر براجمان ہوگیا تو پھر جمہوریت اور ملک دونوں کا خدا حافظ۔
تازہ ترین