• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نفرت کے بیج بونے کی سعادت سے دھیان ذرا اِدھر اُدھر ہو تو فُرصتِ گناہ ملے۔ یہ فرصت بھی بڑے مقدر والوں کے حصے میں آتی ہے اور ’’گناہ‘‘ کے لئے فرصت کے پل اور بھی مشکل ہیں۔ ایویں تو فیض نے نہیں کہا تھا ’’اک فُرصتِ گناہ ملی، وہ بھی چار دن‘‘۔ چار دن کی چاندنی کے بعد اُس اندھیری رات سے بہت ڈر لگتا ہے جس میں حقہ پانی کا فقدان اور خوشامدیوں کا سلسلہ سنسان ہوجائے! بہرحال ریفارمز جہالت اور توہم پرستی کے پردے سے روشنی کے گزرنے کی اجازت کا نام ہے۔ کاش اس اجازت کی اجازت کا ’’گناہ‘‘ ہم سے سرزد ہو جائے! یہ وہ گناہ ہے جو اسٹیٹس کو کی چھاتی پر مونگ دلتا ہے اور ہمیں کالونیل کے اندھیروں سے نکالتا ہے مگر آقاؤں کے سلسلہ اشرافیہ کی حکم عدولی ہمارے لئے میسر ہے نہ موثر، بس ایک گناہ ہے!

بات ہے ’’زمانہ طالب علمی‘‘ کی، ہم ایک سپر بابو کے ہاں پیش ہوئے، ہاتھ باندھ کر اور آنکھیں بند کرکے التجا کی (آنکھیں بند کرکے اس لئے کہ ہم باضمیر صاحبِ اختیار سے آنکھیں ملا نہیں سکتے) کہ مرشد ہمیں ایک ڈپوٹیشن دلوا دیجئے جو حق بھی ہے، اصول اور میرٹ بھی۔ بابو نے کہا ممکن نہیں۔ ہم نے عرض کی، کیا ممکن نہیں بابو؟ حق، اصول یا میرٹ؟ جواب ملا ڈپوٹیشن ممکن نہیں۔ ہم بھی علم کے طالب تھے کہہ گزرے کہ یہ آپ نے جو اپنا کارندہ رکھا ہے یہ تو پورا ڈپوٹیشن پر بھی نہیں سیمی ڈپوٹیشن پر ہے۔ سرکار نے کہا، اس پر آپ کیوں نالاں ہیں وہ تو میرے ماتحت بابو نالاں ہیں کیونکہ اُن کا اِس کے سبب ایکسپوژر کم ہوتا ہے۔ ہم نے کہا بابو! آپ ہماری اپیل کو کریں دفع مگر نیم ڈپوٹیشنر کے مقابلہ پر اپنے بابوؤں کی ترتیب درست رکھیں ، ورنہ دہرا پاپ لگے گا۔ہم نے مانا کہ ریفارمز کوئی واقعہ نہیں ہوتا اس کیلئے ایک مسلسل عمل درکار ہے۔ جو بھی ہے یہ ممکن تو ہے۔ ریفارمز کے تناظر میں تھامس سپراٹ نے سادگی میں ایک بڑی بات کہی کہ ’’جو تم دوسرے میں ناپسند کرتے ہو، وہ تم اپنی اصلاح میں بھی لاؤ!‘‘ چونکہ ریفارمز سے کچھ مہربانوں کا سلسلۂ شبستان و گلستان سنسان ہونے کا خدشہ ہے چنانچہ قلب و ذہن میں بیٹھا ہوا خوف کہیں جینے نہیں دیتا، کہیں مرنے نہیں دیتا۔ ریفارمز کی تاریخ اٹھائیں تو ذوالفقار علی بھٹو کا نام بڑے ریفارمر وزیراعظم کے طور پر سامنے آتا ہے جن ریفارمز کو پارلیمنٹ کی گلی سے گزرنا پڑا۔ ریفارمز کی تاریخ آمریت کے کوچہ سے بھی ملتی ہے، اور یہ جنرل ایوب تھے۔ غور کریں تو دونوں میں ایک ’’لنک‘‘ ملے گا۔ بھلے ہی وہ دونوں مختلف مکتبِ فکر کے تھے مگر دبنگ، وضعدار اور ریفارمر تھے۔پھانسی پر جھول جانے والے، بھٹو کے ’’گناہوں‘‘ کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد، آزادیٔ رائے و مذہب و کاروبار، لینگویج و کلچر کی حفاظت، نوکریوں میں تعصب کا خاتمہ، ایک شہریت، عدلیہ و انتظامیہ کی علیحدگی، یونیورسٹی گرانٹ کمیشن، فری تعلیم، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ڈاکٹرز نسخہ لکھیں گے دوا نہیں دیں گے، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کا قیام جیسے عوامی تحائف دیے۔بھٹو میں بشری خامیاں ہوں گی بہرحال ریفارمر بذریعہ پارلیمان تھے، مطلب اپوزیشن اور حکومتی مشاورت کے ساتھ لیکن ہم ان بنیادوں کو کتنا آگے لے جا سکے؟ بابو اور مقتدر قوت کو عوامی فائدوں کیلئے کتنا بہتر کر لیا؟ کیا ایک بزرگ عشرت حسین عوامی ہے یا توانا کہ بیورو کریسی میں ریفارمز لا سکے گا؟ 1970سے 1980پھر 1990کی تعلیمی پالیسیوں کو کیا عملی جامہ پہنایا؟ جب تک ان ریفارمز میں سول سوسائٹی کو بابو تعصب سے بظاہر شامل نہ کیا گیا آئندہ بھی کچھ نہ ہوگا۔ 1861کے پولیس ایکٹ کو 2002میں میک اپ بھی کیا گیا تو وہ کہ پولیس مضبوط ہو سوسائٹی اور انصاف نہیں۔ کیا نیب سے مسائل حل ہوئے؟ صرف اس لئے نہیں ہوئے کہ تعصب اور نفرت کے بیج بوئے گئے جو کوڑھ کی کاشت ٹھہری فلاح اور انصاف نہ مل سکا گویا کرپٹ محفوظ سیاست ہر جانب خوب سے خوب تر!ہمیں وزیراعظم کی تبدیلی کی خواہش پر سو فیصد یقین ہے، عوام نے انہیں ووٹ بھی ان کے ارادوں اور خواہشوں کی پاداش میں دئیے۔ نوجوانوں نے کرکٹ ورلڈ کپ 1992تا 2011کے لاہور کے انقلابی پی ٹی آئی جلسے ہی تک کی تاریخ اور فلسفہ کو مدنظر رکھ کر خان سیاست کو تبدیلی جانا لیکن خالصتاً خان کے ووٹرز کے ساتھ بیوروکریسی اور کچھ نااہل وزرا وہی کررہے ہیں جو بھٹو کے ساتھ کیا گیا۔ اللہ نہ کرے کہ ’’ایک گناہ اور سہی‘‘ والی تلخ حقیقت جنم لے، پس عمران خان کے مخلصین خان کا ساتھ دیں اور انہیں بتائیں وسیم اکرم پلس کو اگلی ٹیم تو کیا گراؤنڈ میں ہی شکست کی طرف دھکیل رہے ہیں، ایسا ہی وفاق اور کے پی میں ہے اور ہزار مخالف پروپیگنڈے کے باوجود سندھ بہتر جارہا ہے۔ یہ بیوروکریسی کے کچھ میلے بابو اور کچھ نااہل وزرا آپ کے جذبہ و جنون و خدمات اور عوام کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہیں، دیوار میں در بنانے کیلئے ریفارمز کا ہتھوڑا اور گینتی لازم ہیں۔ ملک بھر میں بیوروکریسی، ریفارمز میکانزم اور وزارتی قلمدان کا ازسر نو جائزہ بہتری کی ضمانت ہوگا اور 18ویں ترمیم آگے چلانے کے قابل ہے جسے پیچھے دھکیلنا خطرناک ہوگا۔ ورنہ وہ انگریزی کا ایک محاورہ بڑا بےذوق ہے کہ Square pegs for round holes۔ اور یہ بھی ایک ’’الگ‘‘ فُرصتِ گناہ ہے!

تازہ ترین