• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرفان جاوید ممتاز و معروف، بہت جانے مانے ادیب، افسانہ نگار ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے برصغیر کی نام وَر شخصیات پر اُن کے کئی دل چسپ، دل افروز سوانحی خاکے ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ میں شائع ہوئے۔ بعدازاں اُن خاکوں کے علاوہ دیگر خاکوں پر مشتمل دو کتابیں ’’دروازے‘‘ اور ’’سُرخاب‘‘ بھی منظرِ عام پر آئیں اور ایسی مقبول ہوئیں کہ اُن کے کئی ایڈیشنز شائع ہوئے۔ گزشتہ چند برسوں سے علمی و فکری موضوعات میں عرفان جاوید کی جُستجو اور فکر و تحقیق کا حاصل، آئینہ تمثال مضامین کا مجموعہ ’’عجائب خانہ‘‘ ہے۔ یہ دنیا حیرت انگیز مظاہر و مناظر، موجودات وخیالات کا عجائب خانہ ہی تو ہے۔ سو، اس سلسلے کے کچھ منتخب مضامین اِس یقین سے قارئینِ جنگ کی نذر کیے جارہے ہیں کہ اپنی نوعیت کی یہ منفرد تحریریں کئی اعتبار سے معلومات میں اضافے اور ذہنی تربیت کا سبب بنیں گی۔اس سلسلے کی دوسری کڑی مضمون’’خیال کہاں سے آتاہے؟‘‘ اس سوال پر تفتیش وتحقیق کرتا ہے کہ بیٹھے بٹھائے یک دم کسی انسان کو کوئی ایسا خیال کیسےآجاتاہے،جس سے ایک اہم ایجاد جنم لے لیتی ہے، کوئی بڑافن پارہ تخلیق پاجاتا ہے یاکسی اُلجھے ہوئے مسئلے کا حل سامنے آجاتا ہے۔ دیکھیے، قلم کار نے اِس علمی و فکری موضوع کا کیسے کیسے پہلوؤں، زاویوں سے جائزہ لیایا پردہ اُٹھایا ہے۔ ہمارے اس نئے سلسلے ’’عجائب خانہ‘‘ سے متعلق اپنی آرا سے آگاہ کرنا مت بھولیے گا۔ (ایڈیٹر، سنڈے میگزین)


دل چسپ، معلوماتی واقعات، حکایات، رنگا رنگ قصّوں، کہانیوں کی اِک اَن مول لڑی

شہرئہ آفاق روسی ادیب، لیوٹالسٹائی ایک مرتبہ رات کے کھانے کے بعد اپنے گھر میں صوفے پر نیم دراز تھا کہ ایک عورت کے سفید مرمریں بازو کی ’’کُہنی‘‘ کی ایک جھلک اُس کی چشمِ تصوّر میں لہرا گئی۔ اُس نے اپنی نظریں اُس خیالی عورت کی کُہنی سے آگے بڑھائیں تو وہ مکمل بازو تک چلی گئیں، یہاں تک کہ اُس کی نظروں کے سامنے ایک سوگوار عورت کا سراپا آگیا، جو رقص گاہ کے لیے پہنے جانے والے گاؤن میں ملبوس تھی۔ یہ ’’اینا کرانینا‘‘ کی پہلی جھلک تھی، جو ٹالسٹائی کو نظر آئی۔ جب اُس نے اس غم گین عورت کے سراپے سے نظریں ہٹا کر دیکھا تو اُسے دیگرجزئیات و تفصیلات بھی دکھائی دینے لگیں۔ حیراں و پریشاں ادیب نے، جسے آج تک کا دنیا کا سب سے عظیم ادیب تسلیم کیا جاتا ہے، اپنے تخیّل کو بے لگام اور آزاد چھوڑدیا۔ وہ ایک شان دار فن پارہ تراش لایا، جسے ایک زمانہ ’’ایناکرانینا‘‘ عنوان کے ناول کے طور پر جانتا ہے اور قارئین و ناقدین کی اکثریت اُسےدنیا کا عظیم ترین کثیر الجہتی شاہ پارہ تسلیم کرتی ہے۔

خیال کہاں پیدا ہوتے ہیں، کدھر سے آتے ہیں، کِن روشن دماغوں میں بسیرا کرتے ہیں اور کیسے ان کی پرورش ہوتی ہے، جن سے وہ ایک بڑے فلسفے، اہم ایجاد، قوی فن پارے یا کام یاب کاروباری خیال کی صورت سامنے آتے ہیں؟ ان سوالات پر دانش ور سراپا جستجو رہے ہیں۔ دل چسپ واقعات کی لڑی ہے، جس میں رنگین قصّے دانہ دانہ موجود ہیں۔ ایک فلسفی کو امکانی طور پر فلسفے سے متعلق ہی خیال آئے گا۔ اِس بات کا امکان کم ہے کہ ایک ڈاکٹر کو طیارے کی اُڑان میں جدّت کا کوئی تیکنیکی خیال سُوجھے یا ایک انجینئر کے ذہن میں سرطان سے شفا دینے والی کسی پیچیدہ دوا کی ترکیب آئے۔ عموماً جس شخص کے ذہن میں خیال آتا ہے، وہ یا تو غیر شعوری یا شعوری طور پر اس شعبے میں دل چسپی رکھتا ہے یا اس سے متعلقہ امور سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس بات کا امکان بیش تر ہے کہ ایک ناول نگار کے دماغ میں ناول کا خیال، شاعر کے ذہن میں نظم و غزل کا اور سائنس دان کے تصوّر میں سائنسی ایجادات سے متعلق ہی کوئی شبیہ اُبھرے گی۔ یوں قدرت نے اس معاملے کی حد بندی کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اِس کی مثال یوں بھی دی جاسکتی ہےکہ ریڈیوفضا میں موجود صوتی لہروں ہی کو وصول کرنے کا اہل ہے، وہ عکسی لہروں کو نہیں پکڑ سکتا کہ اس کے ہاں فقط آواز سُنانےکا اہتمام ہے۔ اِسی طرح ٹی وی دونوں طرح کی لہروں کو عکس و آہنگ کی صورت پیش کرےگا۔ اس سےاگلامعاملہ فریکوینسی کابھی ہوتاہے۔ یوں ایک انسان کے اندر کا ٹرانسمیٹر بھی خیال کی اُنھی لہروں کو پکڑ پائےگا، جن کی فریکوینسی اور قسم اُس سے میل کھاتی ہوگی۔ البتہ چند استثنیات موجود ہیں۔ لیونارڈوڈاونچی جیسے مصوّر کو ایجادات کے خیال بھی سوجھ گئے اور بہت سے فلسفیوں کے ذہنوں پر ریاضی اور تکوینیات میں اختراعات اُترآئیں۔ البتہ ان لوگوں کی مذکورہ شعبہ جات میں دل چسپی ضرور تھی۔

ٹامس ایلوا ایڈیسن تاریخ کا معروف ترین موجد تھا، جو اپنی زندگی میں تنہا یا اجتماعی کاوش کے نتیجے می 1093ایجادات سامنے لے کرآیا۔ وہ باقاعدہ تعلیم یافتہ نہ تھا، مگراپنی نظر کے کمال اور خود حاصل کردہ علم کی بنیاد پر اس مقام پر کھڑا تھا، جہاں بڑے بڑے دانش وَر اُس کے سامنے سجدہ ریز نظر آتے تھے۔ اُس نے بجلی کا بلب ایجاد کیا، آواز کو ریکارڈ کرنے والی مشین فونوگراف متعارف کروائی، ایک ایسا ٹیلی گراف ایجاد کیا، جو بہ یک وقت کئی پیغامات کی ترسیل کرسکتا تھا اور سیکڑوں ایجادات سمیت پہلا کائنیٹواسکوپ ایجاد کیا،جس کےذریعے حرکت کرتی فلم دیکھی جا سکتی تھی۔ اگر کائنیٹواسکوپ کی ایجاد کا معاملہ ہی دیکھ لیا جائے، تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس کا کتنا سہرا ایڈیسن کی ٹیم کے ممبرز ولیم کینیڈی اور لاری ڈکنسن کے سَر ہے اور کتنا اس شخص کے سَر، جس کے بنیادی خیال پریہ وجود میں آئی۔ فروری 1888 کی ایک سرد شام ایڈیسن، نیوجرسی (ملحقہ نیویارک) امریکا میں واقع اپنی لیبارٹری چھوڑ کر نیو انگلینڈ سوسائٹی کے زیرِ انتظام ہونے والا لیکچر سننے گیا۔ لیکچرار، ایڈورڈ مائے برج نامی برطانوی فوٹوگرافر تھا، جو حرکت کرتے جان وَروں کی تصاویر اُتارنے کا ماہر تھا۔ لیکچر کے بعد ایڈیسن نے اُسے اپنی لیبارٹری آنے کی دعوت دی۔ لیبارٹری میں ایڈورڈ نے تذکرہ کیا کہ وہ اپنی جانب سے اُتاری گئی تصاویر کو ایک گھومنے والے سلنڈر پر لگا کر اُسے گھماتا ہے تو ایک ترتیب سے اُتاری گئی تصاویر حرکت کا تاثر دیتی ہیں۔ یوں جان وَرحرکت کرتا نظر آتا ہے۔ ایڈورڈ کی بات نے ایڈیسن پر منکشف کیا کہ حرکت کو محفوظ اور پیش کرنا، آواز کو محفوظ اور پیش کرنے کے مانند ہے، جسے ایڈیسن پہلے ہی فونوگراف کے ذریعے محفوظ اور پیش کررہا تھا۔ ایڈورڈ سے ملاقات کے آٹھ ماہ بعد اُس نے کائنیٹواسکوپ کی ابتدائی شکل کی ایجاد کاپیٹنٹ متعلقہ ادارے میں داخل کرواتے ہوئے لکھا ’’مَیں ایک ایسے آلے کا تجربہ کررہا ہوں، جو آنکھ کے لیے وہی ہے، جو فونو گراف کان کے لیے ہے، یعنی یہ حرکت کو محفوظ اور پیش کرتاہے۔ یہ مَیں اِس طریقے سے کر رہا ہوں جو سستا، قابلِ عمل اور آسانی سے قابلِ استعمال ہو۔‘‘یوں ایک خیال کی بنیاد پر دوسری ایجاد کی عمارت کھڑی کی گئی۔

تاریخ میں مماثلت کی بنیاد پر سب سے پہلی تخلیق رومن آرکیٹیکٹ، وٹروویس کی ملتی ہے۔ اُس نے دو ہزار برس قبل ایک عُمدہ تھیٹر کو بنانے کی ترکیب یوں بیان کی تھی ’’آواز کی لہریں سمندری لہروں کی طرح ہوتی ہیں۔ اگر پہلی لہر کے رستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو وہ دوسری اور بعد کی لہروں کو توڑنے کا سبب نہیں بنتی۔ یوں وہ بلند ترین اور پست ترین سطح پربیٹھے تماشائیوں کے کانوں تک بغیر گونج کے پہنچتی ہے۔‘‘یہ سمندر اور آواز کی لہروں کی مماثلت تھی۔ بعض مفکّرین کا کہنا ہے کہ آدمی خیال کو نہیں چُنتا بلکہ خیال اپنے اظہار کے لیے آدمی کو چُنتا ہے۔ یہ تفصیل طلب بحث ہے۔ ایک اور نقطۂ نظر ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ جیسا کہ بیماری سے اُس کی دوا جنم لیتی ہے، جب کہ دوسرانقطۂ نظر ہے کہ بعض صُورتوں میں ایجاد ضرورت کی ماں بن جاتی ہے۔ جیسا کہ ٹیلی فون کی موجودگی میں موبائل فون ایک پرُتعیش شے تھا، مگر بعدازاں ضرورت بن گیا۔ بعض اوقات منتشر اور بے سروپا خیالات سے ایک کارآمد خیال برآمد ہوتا ہے۔ جدید دَور میں دیکھا جائے تو ٹوئٹر کو ایک معاشرتی رابطے کے نظام کے بجائے فقط ایس ایم ایس بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اسی طرح سافٹ ویر کی بنیاد پر بنے ’’اُوبر‘‘ اور ’’کریم‘‘کے سفری نظام کو دیکھ لیا جائے تو اس کا ابتدائی خیال دو دوستوں کے اس شکوے کی بنیا دپر وجود میں آیا کہ ٹیکسی حاصل کرنا کتنا مشکل ہوتا جارہاہے۔ دو دوستوں کی ایک اور کہانی بھی ہے۔ اُنھیں اپنے اپارٹمنٹ کا کرایہ اداکرنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ اُنھی دنوں شہر میں ایک کانفرنس ہورہی تھی، جس کی وجہ سے تمام ہوٹلز کے کمرے بُک تھے۔ اُنھیں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنے اپارٹمنٹ کی اضافی جگہ کو رات کے لیے کرائے پر دے دیں۔ یوں آمدنی سے نہ صرف انھیں اپارٹمنٹ کا کرایہ دینے میں آسانی ہو جائے گی بلکہ اضافی آمدنی بھی ہوگی۔ یوں ایربی این بی کا تصوّر سامنے آیا۔ بکنگ ڈاٹ کام بھی ایسےہی ایک تصوّر کاسبب ہے، جسے استعمال کر کے روزانہ لاکھوں صارفین ہوٹلز، موٹلز، گیسٹ ہاؤسز اور اقامتی مکانوں میں قیام کرتے ہیں۔

بعض اوقات ایک ایجاد سے دوسری ایجاد برآمد ہوتی ہے اور ایک خیال سے دوسرا خیال۔ ٹِم برنرلی نے ورلڈ وائڈ ویب (www) کو محقّقین اور اسکالرز کے لیے بنایا تھا۔ بعد ازاں یہ شاپنگ، معاشرتی تعلقات، صحت اور دیگر شعبوں تک رجوع کا اہم ترین نظام بن گیا۔ ہزاروں برس پرانی ایجاد کی کوکھ سے صنعتی انقلاب سے قبل کی ایک اہم ایجاد برآمد ہوتی ہے، جودنیا میں انقلاب برپا کردیتی ہے۔ وائن (انگوری شراب) کی تیاری کے دوران (گو انگور کےعلاوہ دیگر پھل، میوہ جات اورسبزیاں بھی استعمال ہوتی ہیں) انگوروں سےرَس کشید کرنےکےلیےپیچ دار، دباؤ والےآلات کودیکھ کرجوملیدے پر اپنا نشان چھوڑجاتے تھے، جوہانس گٹن برگ کو چھاپے خانہ کا خیال آیا۔ اِس خیال میں اُس کا علمِ فِلزیات (دھاتوں کا علم) اور چند دیگر علوم کام آئے اور پرنٹنگ پریس جدید دَور کی اہم ایجاد بن کر سامنے آگیا۔ قدرت کےبھی دستورنرالے ہیں۔ محقّقین کے مطابق پرندوں کے پَروں کا پہلا مقصد اُن کے جسموں کی حدّت کو منظّم اور قابو رکھنا تھا۔ بعدازاں، ان کے پرَ اُڑنے کے نہ صرف کام آنے لگے بلکہ اُڑان میں سب سے اہم اعضائے بدن ثابت ہوئے۔ ایک دل چسپ امر ہے، ’’کمی‘‘ یا ’’خطا‘‘ نہ صرف نئےاوربہترخیالات کاباعث بنتی ہےبلکہ ارتقائے انسان، حیوانات و نباتات کے لیے بھی اہم ہے۔ افزائشِ نسل کا عمل ہی دیکھ لیا جائے، والدین سے ’’جینز‘‘ بچّے کو منتقل ہوتے ہیں، جن میں بچّے کی نشوونما کی معلومات ہوتی ہیں اور اُن ہی کے مطابق بچّہ بڑھتا ہے۔ اگر یہ معلومات مکمل طور پر درست اورکامل ہوتیں تو ارتقائے نسل ایک مقام پر ٹھہر جاتا۔ ایک ہی طرح کے جان وَردنیا میں نظر آتے۔اُن کی مختلف شکلیں، رنگ، عادات وخصائص نہ ہوتے۔ جینز میں موجود ’’معلومات‘‘ میں انتہائی معمولی فرق ہی اس تنّوع کا باعث بنا۔ سائنسی ماہرین کے مطابق اگر ایک جین دوسرے کی عکسی اور مکمل نقل ہوتا، تو نہ تو ہاتھی کی سُونڈ اور نہ ہی مَور کے خُوب صُورت پرَ وجود میں آتے۔ جینیاتی تبدیلیاں ہی جان داروں میں نئی شناختیں اور خصائص لے کر آتی ہیں۔

یہ بات قابلِ توجّہ ہےکہ بہت سےموجد اور تخلیق کار اگر کسی ایک جسمانی و ذہنی خُوبی سے محروم نظر آتے ہیں، تو قدرت کہیں نہ کہیں اُنھیں کچھ دوسری اضافی صلاحیتیں دے کر اس کمی کا ازالہ کردیتی ہے۔ بنیادی طور پر انسانی دماغ آسان کام کرنا پسند کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق انسانی دماغ اُس امکان یا کام کا انتخاب کرتاہے، جس میں کم توانائی خرچ ہو۔ یا پھر اُس صورت میں دشوار رستہ اختیار کرتا ہے، جب اُسے لذّت واطمینان حاصل ہوتا ہو۔ مثلاً ایک ریاضی دان کو ایک پیچیدہ گُتھی سلجھا کر ہی اطمینان حاصل ہوسکتا ہے۔ کسی بھی خیال کے اچھا یا برُا ہونے کے بارے میں ابتدا میں فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا۔ تفصیلات اور لائحہ عمل کے بغیر وہ صرف ایک سوچ ہے۔ جب تک اُس پر احسن طریقے سے عمل نہ کیاجائے، تب تک اُس کی افادیت یا بے وقعتی سامنے نہیں آتی۔ انسانی تحت الشعور، انسان کو ابتدا میں قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ متعلقہ خیال قابلِ عمل نہیں یا اتنا اہم نہیں کہ اِس پر اپنی توانائی صرف کی جائے۔ انسان تحت الشعور کی اس تجویز پر فطری آمادگی ظاہر کرکے متعلقہ خیال پر کام چھوڑ دے تو وہ خیال ’’نوزائیدہ موت‘‘ مرجاتا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو انسان منزل کی جانب چھوٹا رستہ، کام یابی کے لیے کم کوشش اور پیچیدہ مسئلے کا آسان حل تلاش کرتا ہے۔ یہ انسان ہی کی نہیں بلکہ تمام جان داروں کی فطرت ہے۔ کام یابی اُن انسانوں کوملتی ہے، جواِس جھانسے میں نہیں آتے۔ ایک ذہین دماغ وہ ہے، جو نہ صرف نئے خیالات، تصوّر کرے بلکہ اُن کے قابلِ عمل اور مفید ہونے کا بھی غیر جانب دارانہ تجزیہ کرسکے۔ محقّقین کے مطابق انسانی تہذیب کی ترقی میں سب سے اہم کردار اُن لوگوں نے ادا کیا جو مذکورہ دونوں امور میں توازن قائم رکھتے رہے۔ اگرسائنسی وتیکنیکی طور پر دیکھا جائے تو محقّقینِ دماغ کا کہنا ہے کہ ایک تخلیقی، نئے اور بارآور خیال کو جنم دینے کے لیے دماغ کو اپنے اندر موجود مختلف باہم منسلک نظاموں کو تحریک دینی پڑتی ہے۔ بعض صُورتوں میں یہ نظام متضاد خواص کے حامل بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح جدیدعلمِ عُمرانیات کے مطابق یہ خیال غلط ہے کہ فقط گھر کی تربیت بچّے پر اثر انداز ہوتی ہے، جب کہ حقیقتاً ایک گھر کے مختلف افراد مختلف مزاج اورافتادِطبع کے مالک ہوتے ہیں یعنی ایک مومن تو دوسرا رندِخرابات، ایک غنی اور دوسرا بخیل، اسی طرح یہ خیال بھی باطل ہے کہ ایک گھرانے کا ماحول یا دیگر قریبی عناصر، گھر کے افراد کی ایک ایسی جماعت تیار کرتے ہیں، جو تخیّل کی بلند پروازی کی حامل ہو۔ اس میں جو استثنیات ہیں، وہ اتفاقی ہیں مثلاً مادام کیوری اوران کے شوہر پیئرکیوری، سیّد احمد شاہ (المعروف پطرس بخاری) اور اُن کے بھائی زیڈ اے بخاری، جون ایلیا اوران کے بھائی سیّدمحمد تقی اور رئیس امروہوی وغیرہ جیسے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل لوگ اتفاقی طور پر ایک ہی گھرانے میں پیداہوئے۔ ایسا امکان لاکھوں میں ایک ہوتاہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کی پیدائش میں جینیاتی عناصر، اسکول، کالج، محلّے وغیرہ کے ہم جولی و ساتھی، طبعی رجحانات اور دیگر عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔

ابراہم لویب ایک ماہرِ فلکیات و طبیعیات ہے۔ وہ اپنے مضمون ’’خیالات کدھر سےآتے ہیں؟‘‘میں لکھتا ہے کہ اُس کی فلکیات میں غیرمعمولی تحقیق سے متاثر ہو کر ایک ولندیزی (ڈچ) ٹی وی کا عملہ اُس کی زندگی کے لمحات فلمانے اُس کے گھر آیا۔ جب اُس نے اُنھیں بتایا کہ اُس کے زیادہ ترخیالات غسل کے دوران جنم لیتے ہیں، تو انھوں نے ایک سین یوں فلمانے کا ارادہ کیا، جس میں اُسے غسل خانے سے، جب ابھی اُس کا شاورکُھلا ہو، تولیا لپیٹے بھاگ کر کمرے میں جاتےاورکمپیوٹر پربیٹھتے دکھانا تھا۔ بارہا کوشش کے باوجود وہ اس سین میں جان پیدا نہ کر پائے کہ غسل خانے سے بھاگ کر میز پربیٹھنے کا عمل کچھ بھی ثابت نہ کرتا تھا۔ اِس سے پہلے بہت سے مکین اِس گھر میں رہ چُکے تھے اور وہی غسل خانہ اور کمرے استعمال کرچُکے تھے، مگر شاید ہی اُن میں سے کسی کے ذہن میں فلکیاتی امور کے بارے میں کوئی تخلیقی خیال آیا ہو۔ (جاری ہے)

تازہ ترین